ناس جمع ہے ، اور اس کاواحد’’ انسان ‘‘ہے
ناس
ناس جمع ہے ، اور اس کاواحد’’ انسان ‘‘ہے، انسان کی اصل ’’انسیان ‘‘ بروزن اِفعِلان تھی ،اور بعض کے نزدیک فِعلِیان ہے ،چونکہ اصل میں ’’ی‘‘ تھی اسی وجہ سے انسان کی تصغیر با لا تفاق ’’اُنسیان ‘‘ ہے ۔عرب اسم کی تصغیر کیا کر تے ہیں جس کے معنی چھوٹے کے ہو تے ہیں مثلاً ’’رجل ‘‘ کی تصغیر ’’رُجَیل ‘‘ ہے جس کے معنی مرد کے ہیں ۔ یہ قاعدہ صرف میں مسلّم ہے کہ تصغیر کے وقت مخدوفہ حروف اصلی لوٹ آتے ہیں چنانچہ ارض کی تصغیر اُریضۃ ہے جس میں تائے مخذوفہ تصغیر کے وقت لا یا گیا ۔ یہاں یہ بات خیال میں آتی ہے کہ جب کوئی شخص کسی کی تصغیر یا تحقیر کرے تو اس کی دل شکنی ہو تی ہے، اس لئے کے صلہ میں یہ فیضان ہوتاہے کہ اس کے نقص کو دفع کر کے اس کی تکمیل کی جا تی ہے ، جس طرح تصغیر کے وقت کلمہ کی تکمیل ہو تی ہے ۔
دیکھئے انسان اصل میں ’’انسیان ‘‘ تھا جب کثرت سے لوگ اس کا ذکر کرنے لگے اور شہرۂ آفاق ہوا تو اس میں یہ تعلی پید ا ہو ئی کہ ہم بھی ایسے ہیں کہ ہر طرف ہمارے چرچے ہوتے رہتے ہیں ،بس یہی اس کے نقص کا باعث ہوا ،یعنی کثرت استعمال کی وجہ سے ایک جزو یعنی (ی)دور کرکے ’’انسان ‘‘ بنا دیا گیا ۔ پھر جب اس کی تصغیر و تحقیر ہوئی اور تکبر ٹوٹا تواس کی تکمیل کردی گئی ،اور جو نقص تکبر کی وجہ سے پیدا ہوا تھا اس تصغیر کی وجہ سے دور ہو گیا ۔اسی وجہ سے اولیاء اللہ جس قدر اپنی ذاتی ذلت ہو اس سے خوش ہوتے ہیں ۔
چناچہ حضرت ابراہیم ادہم علیہ الرحمہ کے حا ل میں لکھا ہے کہ آپ فرما تے ہیں کہ : ایک بار میرا گزر کسی مجمع پر ہوا ،چند اوباش وہاں دل لگی کر رہے تھے مجھے دیکھتے ہیں ایک شخص ان میں سے میری داڑھی پکڑ کر اِدھر اُدھر گھمانے لگا ،چونکہ مجھ پر اس وقت فاقہ کی حالت تھی جب وہ داڑھی کو جھٹکا دیتا تو میں گر جاتا پھر وہ مجھے اٹھاتا ،ا ور اس پر تمام مجمع کے لوگ قہقہے لگا تے ،آپ فرما تے ہیں : جیسی مجھ پر اس تحقیر وتذلیل سے خوشی ہوئی کبھی نہیں ہوتی تھی ۔ اصل وجہ ا س کی یہی ہے کہ آدمی کے نفس میں ایک قسم کا عُجب تکبّر ہو تا ہے ،اس کو اپنی تحقیر ہرگز گوارانہیں ہوتی ، جب ان حضرات کی تحقیر ہوتی ہے تووہ سمجھتے ہیں کہ اب نفس کا کفر ٹوٹا اور یہی ان کی تکمیل کا باعث ہو تا ہے ۔اورت حدیث شریف میں جو وارد ہے کہ حق تعالیٰ فر ما تا ہے عند منکسر ۃ القولب یہ بھی اس کی طرف اشارہ ہے ،ا س لئے کہ تصغیر و تحقیر میں ضرور انکسار قلب ہوتا ہے
ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ انسان کو ’’انسان ‘‘ اس وجہ سے کہتے ہیں کہ اس نے روز اَلَسْت جو عہد کیا تھا وہ بھول گیا ۔ اس صورت میں اس کا مادہ ’’نسی ‘‘ ہوگا اور انسیان اصل بروزن افعلان ہوا ۔
اور انسان کے معنی تیزی کے بھی ہیں ،چناچہ’’ انسان السیف ‘‘یعنی تیزی شمشیر اور ’’انسان الھم ‘‘ بمعنی تیزی تیر ہے ۔ چونکہ بعض انسانوں میں بھی تیزی بلا کی ہوتی ہے اس لئے انسان نام رکھا گیا ،اور قرآن شریف میں ہے وکان الانسان اکثر شیء جد لاً یعنی انسا ن سب سے زیادہ جھگڑا لو ہے ۔
اور انسا ن ’’اُنس ‘‘ سے بھی ماخوذ ہو سکتا ہے ،اس صورت میںانسا ن بروزن فعلان ہوگا ، چونکہ انسا ن میں صفت اُنس بھی ہوتی ہے جو اعلیٰ درجے کی صفت ہے اس لئے اس کا یہ لقب ٹھہر ا ۔
غرض کہ انسان مذاق معقولیت پر اگر چہ نوع ہے مگر درحقیقت ان صفات کے لحاظ سے ان میں متعد انواع ہیں : کوئی عہد فراموش ،کوئی تیز طبع جھگڑالو ، کوئی اُنست والا ۔ اس لحاظ سے یہ لفظ کلی متواطی نہ ہوناچاہئے بلکہ مشترک ہونا چاہئے ،کیونکہ ہر ایک کی حقیقت جداہے ۔حق تعالیٰ ہمیں و ہ انسان بنائے جس کو اپنے مالک حقیقی کے ساتھ انس ہو وما تو فیقنا الاباللہ ۔