اسلام
علم فقہ کے مدوین
اعلیٰ حضرت پیرسیدمقبول احمدشاہ قادری علیہ الرحمہ کے مضمون کاایک حصہ
مذکورہ بالا احادیث کے جانچ پڑتال کرنے کے لئے ایک دوسرے سے تمیز کرنے کے لئے صحیح کو ، سقیم کو ، جداکرنے
ے لئے اللہ پاک نے مجتہد عظام پیدا کردیا ، ہر ایک مجتہد نے اس کی صحت اور جانچنے کے لئے شرائط مقرر کر دیا ہے ، جب کوئی حدیث مجتہد کے پاس اس کے شرائط کے مطابق ثابت ہوجائے تو وہ اس حدیث کو اپنے مدعیٰ ثابت کرے کے لئے دلیل بنا دیتے ہیں ، ورنہ اس کو کوئی دوسری تادیل کرتے ہیں تاکہ احادیث پر عمل کرنا ممکن ہوجائے ،
ورنہ احادیث پر عمل کرنا محال ہوجاتا ہے ، مثلاً سینہ پر ہاتھ باندھنا نماز میں ، ناف کے نیچے ہاتھ باندھنا ، ناف کے اوپر ہاتھ باندھنا یہ سب احادیث سے ثابت ہے ،
ان سب احادیث پر ایک وقت عمل کرنا محال ہے ، جس نے سینہ ہاتھ باندھ کر نماز پڑھی ، اس نے سینے کے نیچے اور ناف کے اوپر ، ناف کے نیچے کے احادیث پر عمل کرنا مشکل ہوجاتا ہے ، اس لئے شرط مقرر ہوئے ، ہر مجتہد نے اپنے شرائط کے ساتھ ان تمام احادیث میں سے ایک حدیث کو دلیل بنایا۔
مثلاً حنفی مذہب میں نماز میں ناف کے نیچے ہاتھ باندھنا سنت ہے ( ابو داؤد اور ترمذی شریف )سے ثابت ہے ، فرمایا راوی مولیٰ علی کرم اللہ وجہہ نے:
السنت فی الصلوٰۃ وضع الیمنیٰ علی الشمال تحت السرۃ۔
یعنی سنت ہے نماز میں رکھنا دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر ناف کے نیچے جب راوی صحابہ سنت کہے اس سے مراد ، نبی کریم صلی اللہ علیہ آلہ وسلم کی سنت ہے،
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
دیکھو اس حدیث شریف میں لفظ سنت موجود ہے سنت اس فعل کو کہتے ہیں جو نبی کریم صلی اللہ علیہ آلہ وسلم نے ہمیشہ کیا ہو یا اپنی عمر شریف میں ایک دو مرتبہ چھوڑ دیا ہو ، باقی احادیث کو حنفیوں نے تاویل کیا ہے ، نماز میں سینے پر ہاتھ باندھنا یا سینے کے نیچے
یا ناف کے یہ جواز کے لئے نبی کریم صلی اللہ علیہ آلہ وسلم نے ایک دو مرتبہ کیا ہے، مگر سنت موکدہ نماز میں ہاتھوں کو باندھنا ناف کے نیچے ہے ، ہر مجتہد کے پاس قرآن و حدیث بطور اصول کے ہے اسی لئے چاروں مذہب حنفی ، شافعی ، مالکی ، اور حنبلی حق ہیں ۔تاویل مذکور بالا صرف عمل کے لئے ہے بخلاف تبرائی وہابی کے جن کا دعویٰ ہے خدا ورسول صلی اللہ علیہ آلہ وسلم کے سوا کسی تیسرے کی بات ماننا کفر اور شرک ہے، یہ فرقہ کسی ایک حدیث پر عمل نہیں کرسکتا ، ایک حدیث پر عمل کرنے سے دوسرے حدیث کا خلاف لازم آتا ہے، کیونکہ وہ بھی تو حدیث ہی ہے اس پر عمل کیوں نہیں کیا ؟ اور وہ یہ بھی نہیں کہہ سکتے یہ حدیث صحیح ہے یا وہ حدیث ، کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ آلہ وسلم نے کسی حدیث کے متعلق یہ نہیں فرمایا ، یہ اصطلاح علماء جرح و تعدیل کا ہے اگر یہ فرقہ اس کو مانے گا یہ تو ان کی تقلید ٹھہری ، تقلید کرنا اس گمراہ فرقہ کے نزدیک کفر و شرک ہے یہ اپنے زعم باطل سے اسلام سے خارج ہوجاتے ہیں، لہٰذا یہ فرقہ کسی حدیث پر عمل نہیں کرسکتا اگر چہ زبان سے دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم عمل بالحدیث ہیں ۔
سنی مسلمانوں کو لازم ہے کہ معلوم کریں فقہ کیا چیز ہے ، اس کا بانی کون ہے؟ لہٰذا مختصر چند باتیں اس کے متعلق نقل کرتا ہوں ، تاکہ سنی بھائی بد مذہب وہابیہ وغیرہ کے دھوکوں سے محفوظ رہیں ، فقہ لغت میں کسی چیز کے جاننے کو کہتے ہیں ، حرف میں مخصوص ہوا علم شریعت کو فقہ کہتے ہیں ، تعریف فقہ یہ ہے :
العلم بالاحکام الشرعیۃ الفرعیۃ المکتسب من ادا التھا التفصیلیہ ۔ (درالمختار)
یعنی فقہ عبارت ہے احکام شرعی فرعی کے اس علم سے جو حاصل ہوا احکام کے دلائلی مفصلہ سے ، احکام فرعی وہ ہے کو عمل کے متعلق ہو اور اعتقاد کے متعلق ہو ، ان کو احکام فرعی وہ ہے جو عمل کے متعلق ہو اور اعتقاد کے متعلق ہو ، ان کو احکام اصول کہتے ہیں ، دلائل تفصیلیہ سے مراد چار اصول ہیں ، یعنی قرآن ، سنت اجماع اور قیاس مجتہد اور فقہ کے سب سائل انہیں چار اصولوں سے ثابت ہیں ،
جس نے فقہ کا انکار کیا اس نے قرآن حدیث کو انکار کیا وہ اسلام سے خارج ہوا ، جیسے بد مذہب تبرائی وہابی جواپنے آپ کو اہل حدیث کہتے ہیں ، یہ فرقہ العیاذ باللہ فقہ شریف کی بہت توہین اور برا بھلا کہتا ہے۔
فقہ بحث کرتا ہے عاقل بالغ کے فعل سے ، ثبوت کی راہ سے یا سب کی راہ سے ، ثبوت کی راہ سے
یعنی اس عاقل بالغ کو خواہ مرد ہو یا عورت یہ کرنا واجب ہے ، یہ کرنا سنت ہے ، یہ کرنا مستحب ہے اور مباح ہے ، یاسب کی راہ سے یعنی اس عاقل بالغ کو یہ کرنا حرام ہے ، یہ کرنا مکروہ تحریمی ہے ، یہ کرنا مکروہ تنزیہی ہے
، امام عبدالوہاب شیرانی شافعی نے میزان شیرانی میں مجتہد فقہ کی سند متصل یوں لکھی ہے : امام ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ نے روایت کی فقہ کی ، حضرت عطاء رضی اللہ عنہ سے ،
حضرت عطاء رضی اللہ عنہ کی روایت کی حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے روایت کی حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے، حضرت نبی کریم ی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے روایت کی حضرت جبرئیل علیہ السلام سے ، حضرت جبرئیل علیہ السلام نے روایت کی حضرت اللہ عزوجل سے ۔
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
حضرت امام مالک رضی اللہ عنہ نے فقہ کی روایت کی حضرت نافع رضی اللہ عنہ سے حضرت نافع رضی اللہ عنہ نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے ، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت نبی کریم ی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ، حضرت نبی کریم ی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت جبرئیل علیہ السلام سے ، حضرت جبرئیل علیہ اسلام نے حضرت اللہ عزوجل سے۔
حضرت امام شافعی رضی اللہ عنہ نے روایت کی حضرت امام مالک رضی اللہ عنہ سے،حضرت امام مالک رضی اللہ عنہ نے آخری سند تک اور حضرت امام احمد بن حنبل رضی اللہ عنہ نے فقہ کی روایت کی حضرت امام شافعی رضی اللہ عنہ سے، حضرت امام شافعی رضی اللہ عنہ نے روایت کی حضرت امام مالک رضی اللہ عنہ سے آخری سند تک ۔
حضرات علماء کرام نے حضرت امام اعظم رضی اللہ عنہ کی دوسری سند متصل یوں بیان فرمائی ، حضرت امام اعظم رضی اللہ عنہ نے علم فقہ حاصل کیا ، حضرت حماد رضی اللہ عنہ سے ، حضرت حماد رضی اللہ عنہ نے حضرت ابراہیم نخعی رضی اللہ عنہ سے حضرت ابراہیم نخعی رضی اللہ عنہ نے حضرت علقمہ رضی اللہ عنہ سے حضرت علقمہ رضی اللہ عنہ نے حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے، حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ۔
حضرت امام اعظم رضی اللہ عنہ سے پہلے لوگ اپنے حفظ پر اعتبار کرتے تھے ،
جب امام نے علم کو
منتشر دیکھا متاخرین کے سوء حفظ سے ڈرے، مبادا علم ضائع نہ ہوجائے ، پھر امام نے علم فقہ کی تدوین کے بانی ہوئے، حضرت امام اعظم رضی اللہ عنہ فرماتے تھے ، آپ کے شاگرد حضرت امام ابو یوسف رضی اللہ عنہ اور حضرت امام محمدر ضی اللہ عنہ لکھتے تھے، اس طرح تدوین رہی عبادات کو مقام کیا ، کتاب طہارت سے ابتداء ہوئی ، اس کے بعد صلوات پھر صوم پھر باقی عبادات اور معاملات سے مواریث پر خاتمہ کیا۔ ( مجموعہ مسانید خوارزمی )۔
حضرت امام اعظم رضی اللہ عنہ نے کیا عمدہ نیک طریقہ نکالا ،
آپ سے پہلے یہ طریقہ کسی نے نہیں نکالا تھا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جو کوئی نیک طریقہ نکالے اس کو اس کا ثواب ملے گااور اس کو اس شخص کے برابر ثواب ملے گا جو اس نیک طریقہ پر چلے گا، اوراس کے بعد حضرت امام مالک رضی اللہ عنہ نے موطا میں وہی طریقہ اختیار کیا اوسان کے بعد علماء محدثین نے کتابیں لکھنی شروع کیں ، حضرت امام اعظم رضی اللہ عنہ کو ان سب کے برابر قیامت تک ثواب ملتا رہے گا اور فرمایا نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے: