اسلام
نقصان اُٹھانے والا تاجِر
نقصان اُٹھانے والا تاجِر
ایک بُزُرگ فرماتے ہیں کہ میں ایک مسجِد میں نَماز ادا کرنے گیا۔ وہاں میں نے دیکھا کہ ایک مالدار تاجِربیٹھا ہے اور قریب ہی ایک فقیردُعا مانگ رہا ہے : ”یا الہٰی عَزَّوَجَلَّ ! آج میں اِس طرح کا کھانا اور اِس قِسْم کا حلوہ کھانا چاہتا ہوں۔” تاجِر نے یہ دُعا سن کر بدگُمانی کرتے ہوئے کہا :”اگر یہ مجھ سے کہتا تو میں اِسے ضرور کھلاتا مگر یہ بہانہ سازی کررہا ہے اور مجھے سُنا کر اللہ تعالیٰ سے دُعا کررہا ہے تاکہ
میں سُن کر اسے کھلا دوں، وَاللہ! میں تو اسے نہیں کھلاؤں گا ۔” وہ فقیر دُعا سے فارغ ہوکر ایک کونے میں سورہا۔ کچھ دیر بعد ایک شخص ڈھکا ہو اطُبَاق لے کر آیا اور دائیں بائیں دیکھتا ہوا فقیرکے پاس گیا اور اسے جگانے کے بعد وہ طُباق بصد عاجزی اس کے سامنے رکھ دیا۔ تاجِر نے غور سے دیکھا تو یہ وُہی کھانے تھے جن کے لئے فقیر نے دُعا کی تھی ۔ فقیر نے حسب ِ خواہِش اس میں سے کھایا اور بقیہ واپس کردیا ۔
تاجِر نے کھانا لانے والے کو اللہ تعالیٰ کا واسطہ دے کر پوچھا :”کیا تم اِنہیں پہلے سے جانتے ہو ؟”کھانا لانے والے نے جواب دیا:”بخدا! ہرگز نہیں ، میں ایک مزدور ہوں میری زوجہ اور بیٹی سال بھر سے ان کھانوں کی خواہش رکھتی تھیں مگر مہیا نہیں ہوپاتے تھے ۔آج مجھے مزدوری میں ایک مِثْقَال(یعنی ساڑھے چار ماشے) سونا ملا تو میں نے اس سے گوشت وغیرہ خریدا اور گھر لے آیا۔ میری بیوی کھانا پکانے میں مصروف تھی کہ اس دوران میری آنکھ لگ گئی۔آنکھیں تو کیا سوئیں ،سوئی ہوئی قسمت انگڑائی لے کر جاگ اٹھی ،مجھے خواب میں حضور سرورِ عالم ،نورِ مجسم ،شاہِ بنی آدم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کا جلوہ زیبا نظر آگیا ،میں نظارہ محبوب میں گم تھا کہ لَبْہَائے مُبَارَکَہ کو جُنْبِش ہوئی ،رحمت کے پھول جھڑنے لگے اور اَلفاظ کچھ یوں ترتیب پائے : ”آج تمہارے علاقے میں اللہ عَزَّوَجَلَّ کا ایک ولی آیا ہوا ہے ،اُس کا قِیام مسجِد
میں ہے۔ جو کھانے تم نے اپنے بیوی بچوں کے لئے تیار کروائے ہیں اِن کھانوں کی اسے بھی خواہش ہے ،اس کے پاس لے جاؤ وہ اپنی خواہش کے مطابق کھا کر واپس کردے گا ،بقیہ میں اللہ تعالیٰ تیرے لئے بَرَکت عطا فرمائے گا اور میں تیرے لئے جنت کی ضمانت دیتا ہوں ۔” نیندسے اٹھ کر میں نے حکم کی تعمیل کی جس کو تم نے بھی دیکھا۔
وہ تاجِر کہنے لگا:” میں نے اِن کو اِنہی کھانوں کے لئے دُعا مانگتے سنا تھا ،تم نے ان کھانوں پر کتنی رقم خرچ کی ؟” اس شخص نے جواب دیا :”مثقال بھر سونا۔”اس تاجِر نے اسے پیش کش کی:”کیا ایسا ہوسکتا ہے کہ مجھ سے دس مثقال سونا لے لواور اس نیکی میں مجھے ایک قیراط کا حصہ دار بنا لو ؟” اس شخص نے کہا :”یہ نامُمْکِن ہے ۔” اُس تاجِر نے اِضافہ کرتے ہوئے کہا:”اچھا میں تجھے بیس مثقال سونا دے دیتا ہوں۔” اس شخص نے اپنے اِنکار کو دہرایا حتی کہ اس تاجِر نے سونے کی مقدار بڑھا کر پچاس پھر سو مثقال کردی مگر وہ شخص اپنے اِنکار پر ڈٹا رہا اور کہنے لگا:”وَاللہ! جس شے کی ضمانت رسول اکرم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے دی ہے ،اگر تُو اس کے بدلے ساری دُنیا کی دولت بھی دیدے پھر بھی میں اسے فروخت نہیں کروں گا ، تمہاری قسمت میں یہ چیز ہوتی تو تم مجھ سے پہل کرسکتے تھے لیکن اللہ تعالیٰ اپنی
رحمت کے ساتھ خاص کرتا ہے جسے چاہے۔” تاجِر نہایت نادِم وپریشان ہوکر مسجد سے چلاگیا گویا اس نے اپنی قیمتی مَتَاع کھو دی ہو ۔
(روض الریاحین،الحکایۃالثلاثون بعد الثلاث مئۃ،ص۲۷۷،ملخصاً)