ماں باپ کچھ کپڑے’ کچھ زیورات’ کچھ سامان’ برتن’ پلنگ’ بستر’ میز کرسی’ تخت’ جائے نماز قرآن مجید’ دینی کتابیں وغیرہ لڑکی کو دے کر اس کو سسرال بھیجتے ہیں یہ لڑکی کا جہیز کہلاتا ہے۔ بلا شبہ یہ جائز بلکہ سنت ہے کیونکہ ہمارے حضور رسول اﷲ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے بھی اپنی پیاری بیٹی حضرت بی بی فاطمہ رضی اﷲ تعالی عنہا کو جہیز میں کچھ سامان دے کر رخصت فرمایا تھا لیکن یاد رکھو کہ جہیز میں سامان کا دینا یہ ماں باپ کی محبت وشفقت کی نشانی ہے اور ان کی خوشی کی بات ہے۔ ماں باپ پر لڑکی کو جہیز دینا یہ فرض و واجب نہیں ہے۔ لڑکی اور داماد کے لئے ہرگز ہرگز یہ جائز نہیں ہے کہ وہ زبردستی ماں باپ کو مجبور کرکے اپنی پسند کا سامان جہیز میں وصول کریں ماں باپ کی حیثیت اس قابل ہو یا نہ ہو مگر جہیز میں اپنی پسند کی چیزوں کا تقاضا کرنا اور ان کو مجبور کرنا کہ وہ قرض لے کربیٹی دامادکی خواہش پوری کریں۔ یہ خلاف شریعت بات ہے بلکہ آج کل ہندوؤں کے تلک جیسی رسم مسلمانوں میں بھی چل
پڑی ہے کہ شادی طے کرتے وقت ہی یہ شرط لگادیتے ہیں کہ جہیز میں فلاں فلاں سامان’ اور اتنی اتنی رقم دینی پڑے گی چنانچہ بہت سے غریبوں کی لڑکیاں اسی لئے بیاہی نہیں جارہی ہیں کہ ان کے ماں باپ لڑکی کے جہیز کی مانگ پوری کرنے کی طاقت نہیں رکھتے یہ رسم یقیناً خلاف شریعت ہے اور جبراً قہراً ماں باپ کو مجبور کرکے زبردستی جہیز لینا یہ ناجائز ہے۔ لہٰذا مسلمانوں پر لازم ہے کہ اس بری رسم کو ختم کردیں۔