اسلام
حضرت ز ینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا
یہ حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی صاحبزادیوں میں سب سے بڑی تھیں۔ اعلانِ نبوت سے دس سال قبل جب کہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی عمرشریف تیس سال کی تھی مکہ مکرمہ میں ان کی ولادت ہوئی۔ یہ ابتداء اسلام ہی میں مسلمان ہوگئی تھیں اور جنگ ِبدر کے بعد حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ان کو مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ بلالیا تھا اور یہ ہجرت کرکے مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ تشریف لے گئیں۔
اعلانِ نبوت سے قبل ہی ان کی شادی ان کے خالہ زاد بھائی ابوالعاص بن ربیع سے ہوگئی تھی۔ ابوالعاص حضرت بی بی خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی بہن حضرت ہالہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے بیٹے تھے۔ حضورِ اکرم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی سفارش سے حضرت ز ینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا کاابوالعاص کے ساتھ نکاح فرمادیا تھا۔ حضرت ز ینب تومسلمان ہوگئی تھیں مگر ابوالعاص شرک و کفر پر اڑا رہا۔ رمضان ۲ھ میں جب ابوالعاص جنگِ بدر سے گرفتار ہو کرمدینہ آئے۔ اس وقت تک حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا مسلمان ہوتے ہوئے مکہ مکرمہ ہی میں مقیم تھیں۔ چنانچہ ابوالعاص کو قید سے چھڑانے کے لیے انہوں نے مدینہ میں اپنا وہ ہار بھیجا جو ان کی ماں حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے ان کو جہیز میں دیاتھا۔ یہ ہار حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کا اشارہ پاکر صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے حضرت ز ینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس واپس بھیج دیا اور حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ابوالعاص سے یہ وعدہ لے کر ان کو رہا کر دیا کہ وہ مکہ پہنچ کر حضرت ز ینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو مدینہ منورہ بھیج دیں گے۔ چنانچہ ابوالعاص نے اپنے وعدہ کے مطابق حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہاکو اپنے بھائی کنانہ کی حفاظت میں ” بطن یا جج” تک بھیج دیا۔ ادھر حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ایک انصاری کے ساتھ پہلے ہی مقام ” بطن یا جج” میں بھیج دیا تھا۔ چنانچہ یہ دونوں حضرات ” بطن یا جج” سے اپنی حفاظت میں حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو مدینہ منورہ لائے۔
منقول ہے کہ جب حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا مکہ مکرمہ سے روانہ ہوئیں تو کفار قریش نے ان کاراستہ روکا یہاں تک کہ ایک بدنصیب ظالم ”ہباربن الاسود”نے ان کو نیزہ سے ڈرا کر اونٹ سے گرا دیا جس کے صدمہ سے ان کا حمل ساقط ہوگیا۔ مگر ان کے دیور کنانہ نے اپنے ترکش سے تیروں کو باہر نکال کر یہ دھمکی دی کہ جو شخص بھی حضرت زینب کے اونٹ کا پیچھا کریگا۔ وہ میرے ان تیروں سے بچ کر نہ جائے گا۔ یہ سن کر کفار قریش سہم گئے۔ پھر سردار مکہ ابو سفیان نے درمیان میں پڑ کر حضرت ز ینب رضی اللہ تعالیٰ عنہاکے لیے مدینہ منورہ کی روانگی کے لیے راستہ صاف کرا دیا۔
حضرت ز ینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو ہجرت کرنے میں یہ دردناک مصیبت پیش آئی اسی لیے حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ان کے فضائل میں یہ ارشاد فرمایا کہ ھِیَ اَفْضَلُ بَنَاتِیْ اُصِیْبَتْ فِیَّ یعنی یہ میری بیٹیوں میں اس اعتبار سے بہت ہی زیادہ فضیلت والی ہیں کہ میری جانب ہجرت کرنے میں اتنی بڑی مصیبت اٹھائی۔ اس کے بعد ابوالعاص محرم ۷ ھ میں مسلمان ہو کر مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ ہجرت کرکے چلے آئے اور حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے ساتھ رہنے لگے۔(1) (زرقانی جلد ۳ ص ۱۹۵ تا ۱۹۶)
۸ ھ میں حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی وفات ہوگئی اور حضرت ام ایمن و حضرت سودہ بنت زمعہ و حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہن نے ان کوغسل دیا اورحضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ان کے کفن کے لیے اپنا تہبند شریف عطا فرمایا اور اپنے دستِ مبارک سے ان کو قبر میں اتارا۔
حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی اولاد میں ایک لڑکا جس کانام ”علی” اور ایک لڑکی حضرت ”امامہ” تھیں۔ ”علی” کے بارے میں ایک روایت ہے کہ اپنی والدہ ماجدہ کی حیات ہی میں بلوغ کے قریب پہنچ کر وفات پا گئے لیکن ابن عساکر کا بیان ہے کہ نسب ناموں کے بیان کرنے والے بعض علماء نے یہ ذکر کیاہے کہ یہ جنگ یرموک میں شہادت سے سرفراز ہوئے۔(2)(زرقانی جلد ۳ ص ۱۹۷)
حضرت امامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو بڑی محبت تھی۔ آپ ان کو اپنے دوش مبارک پر بٹھا کر مسجد نبوی میں تشریف لے جاتے تھے۔
روایت ہے کہ ایک مرتبہ حبشہ کے بادشاہ نجاشی نے آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی خدمت میں بطور ہدیہ کے ایک حلہ بھیجا جس کے ساتھ سونے کی ایک انگوٹھی بھی تھی جس کا نگینہ حبشی تھا۔ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے یہ انگوٹھی حضرت امامہ کو عطا فرمائی۔
اسی طرح ایک مرتبہ ایک بہت ہی خوبصورت سونے کا ہار کسی نے حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو نذر کیا جس کی خوبصورتی کو دیکھ کر تمام ازواجِ مطہرات رضی اللہ تعالیٰ عنہن حیران رہ گئیں۔ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے اپنی مقدس بیویوں سے فرمایا کہ میں یہ ہار اس کو دوں گا جو میرے گھر والوں میں مجھے سب سے زیادہ محبوب ہے۔ تمام ازواجِ مطہرات نے یہ خیال کرلیا کہ یقینا یہ ہار حضرت بی بی عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو عطا فرمائیں گے مگر حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے حضرت امامہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کو قریب بلایا اور اپنی پیاری نواسی کے گلے میں اپنے دستِ مبارک سے یہ ہار ڈال دیا۔(1)(زرقانی جلد ۳ ص۱۹۷)