اسلام
قرض اور زکوٰۃ مَدیُون پر زکوٰۃ؟
مَدیُون ۱؎ پر اتنا دَین ہو کہ اگروہ اِسے ادا کرتا ہے تو نصاب باقی رہتا ہے تو اس پر زکوٰۃ فرض ہوگی اور اگر باقی نہ رہتا ہوتو زکوٰۃ فرض نہیں ہوگی ۔
صدر الشریعہ ،بدرالطریقہ مفتی محمد امجد علی اعظمی علیہ رحمۃ اللہ الغنی(اَ لْمُتَوَفّٰی۱۳۷۶ھ) بہارشریعت،جلد اوّل، حصہ5صفحہ 878پرلکھتے ہیں: ”نصاب کا مالک ہے مگر اس پردَین ہے کہ ادا کرنے کے بعد نصاب نہیں رہتی تو زکوٰۃ واجب نہیں، خواہ وہ دَین بندہ کا ہو، جیسے قرض، زرثمن(کسی خریدی گئی چیز کے دام)کسی چیز کا تاوان یا اﷲعَزَّوَجَلَّ کا دَین ہو، جیسے زکوٰۃ، خراج ۔مثلاً کوئی شخص صرف ایک نصاب کا مالک ہے اور دو سال گذر گئے کہ زکوٰۃ نہیں دی تو صرف پہلے سال کی زکوٰۃ واجب ہے دوسرے سال کی نہیں کہ پہلے سال کی زکوٰۃ اس پر دَین ہے اس کے نکالنے کے بعد نصاب باقی نہیں رہتی، لہٰذا دوسرے سال کی زکوٰۃ واجب نہیں۔
(الفتاوی الھنديۃ، کتاب الزکاۃ، الباب الأول، ج۱، ص۱۷۲۔۱۷۴،و ردالمحتار، کتاب الزکاۃ، مطلب: الفرق بین السبب والشرط والعلۃ، ج۳، ص۲۱۰)
؎۱: مَدیُون اس شخص کو کہتے ہیں جس پر کسی کا دَین ہو ،جو چیزوَاجِب فِی الذِّمَہ(یعنی کسی کے ذمہ واجب ) ہو کسی ”عقد ”مثلاً ”بیع ”یا ”اِجارہ ”کی وجہ سے یا کسی چیز کے ہلاک کرنے سے اس کے ذمہ” تاوان ” واجب ہوا یا ”قرض” کی وجہ سے واجب ہوا ،اِن سب کو ”دَین” کہتے ہیں۔”دَین” کی ایک خاص صورت کا نام ”قرض” ہے جس کو لوگ ”دستگرداں” کہتے ہیں ہر ”دَین” کو آج کل لوگ ”قرض ”بولا کرتے ہیں یہ” فقہ” کی اِصطلاح کے خلاف ہے ۔( بہار شریعت،حصہ۱۱،ص۱۳۰)