اسلام
رکھ مت لینا
حِیلہ کرتے وقْت شَرعی فقير کو يہ نہ کہے کہ واپَس دے دينا ،رکھ مت لينا وغيرہ وغیرہ ، بِالفرض ایسا کہہ بھی دیا تب بھی زکوٰۃ کی ادائیگی وحِیلہ ميں کوئی فرق نہيں پڑے گا کيونکہ صَدَقات وزکوٰۃ اورتُحفہ دينے ميں اِس قسم کے شَرطِيہ اَلفاظ فاسِد ہيں۔اعلیٰ حضرت ،امام اہلِ سنت ،مجدددين وملت مولانا شاہ احمد رضا خان عليہ رحمۃ الرحمن فتاوٰی شامی کے حوالے سے فرماتے ہيں،” ہبہ اور صَدَقہ شرطِ فاسِد سے فاسِد نہيں ہوتے ”۔ (فتاوی رضويہ مُخَرَّجَہ ،ج۱۰، ص ۱۰۸)
اگر شرعی فقیر زکوٰۃ لے کر واپس نے دے تو؟
اگر حِیلہ کرنے کیلئے شَرعی فقير کو زکوٰۃ دی جائے اور وہ لے کر رکھ لے تو اب اس سے نیک کاموں کیلئے جبراً نہيں لے سکتے کيونکہ اب وہ مالِک ہوچکا اور اسے اپنے مال پر اختيار حاصل ہے۔
(فتاوی رضويہ مُخَرَّجَہ ،ج۱۰، ص ۱۰۸)
حیلہ شرعی کيلئے بھروسے کا آدمی نہ مل سکے تو؟
اگر بھروسے کا کوئی آدمی نہ مل سکے تو اس کا ممکنہ طریقہ یہ ہے کہ اگر پانچ ہزار روپے زکوٰۃبنتی ہو تو کسی شرعی فقیر کے ہاتھ کوئی چیز مثلاًچند کلو گندم پانچ ہزار کی بیچی جائے اور اسے سمجھا دیا جائے کہ اس کی قیمت تمہیں نہیں دینی پڑے گی بلکہ ہم تمہیں رقم دیں گے اسی سے ادا کردینا ۔ جب وہ بیع قبول کرلے تو گندم اسے دے دی جائے ، اس طرح وہ آپ کا پانچ ہزار کا مقروض ہوگیا ۔اب اسے پانچ ہزار روپے زکوٰۃ کی مد میں دیں جب وہ اس پر قبضہ کر لے تو زکوٰۃ ادا ہوگئی ،پھر آپ گندم کی قیمت کے طور پر وہ پانچ ہزار واپس لے لیں ،اگر وہ دینے سے انکار کرے تو جبرً ا (زبر دستی)بھی لے سکتے ہیں کیونکہ قرض زبردستی بھی وصول کیا جاسکتا ہے ۔
(الدر المختار،کتاب الزکوٰۃ،ج۳، ص۲۲۶،ماخوذازفتاویٰ امجدیہ،ج۱،ص۳۸۸)
فقیر کو زکوٰۃ کی رقم بھلائی کے کاموں میں خرچ کرنے کا مشورہ دینا
حیلہ شرعی میں دینے کے بعد اس فقیر کو کسی امرِ خیر کے لئے دینے کا کہہ سکتےہیں اس پر ان شاء اللہ عَزَّوَجَلَّ دونوں کو ثواب ملے گا کہ جو کسی بھلائی پر راہنمائی کرتا ہے اس پر عمل کرنے والے کا ثواب اسے بھی ملتا ہے ۔
(رد االمحتار،کتاب الزکوٰۃ،ج۳، ص۲۲۷،وماخوذ از فتاویٰ امجدیہ ج۱ ص۳۸۸)
حیلہ شرعی کئے بغیر زکوٰۃ مدرسے میں خرچ کر دی تو؟
اگر کسی نے حیلہ شرعی کئے بغیر زکوٰۃ مدرسے میں خرچ کر دی تو اب وہ خرچ زکوٰۃ میں شمار نہیں ہوسکتا کیونکہ ادائیگی کی شرائط موجود نہیں ہیں۔ جو کچھ خرچ کیا گیا وہ خرچ کرنے والے کی طرف سے ہوا ۔ اس پر لازم ہے کہ اس تمام رقم کا تاوان دے (یعنی اتنی رقم اپنے پاس سے ادا کرے)۔
( ماخوذاز فتاویٰ فقیہ ملت،ج۱، ص۳۱۱)
ماں باپ کو زکوٰۃ دینے کے لئے حیلہ شرعی کرنا
ماں باپ محتاج ہوں اورحیلہ کر کے زکوٰۃ دینا چاہتا ہے کہ یہ فقیر کو دے دے پھر فقیر انھيں دے یہ مکروہ ہے۔يونہی حیلہ کر کے اپنی اولاد کو دینا بھی مکروہ ہے۔
(بہارِ شریعت ،ج۱،حصہ۵،مسئلہ ۲۴،ص۹۲۸)
زکوٰۃ کی جگہ نفلی صدقہ کرنا
اعلیٰ حضرت ، اِمامِ اَہلسنّت،مولیٰناشاہ امام اَحمد رضا خان عليہ رحمۃُ الرَّحمٰن نے فتاویٰ رضویہ جلد 10صَفْحَہ175پر ایک سُوال کے جواب میں جو کچھ ارشاد فرمایا اس کا خُلاصہ پیشِ خدمت ہے ،چنانچہ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ لکھتے ہیں:
اُس سے بڑھ کر احمق کون کہ اپنا مال جُھوٹے سچے نام کی خیرات میں
صرف کرے اور اﷲعَزَّوَجَلَّ کا فرض او راس بادشاہ قہار کا وہ بھاری قرض گردن پر رہنے دے۔ شیطان کا بڑا دھوکا ہے کہ آدمی کو نیکی کے پردے میں ہلاک کرتا ہے۔نادان سمجھتا ہی نہیں،یہ سمجھا کہ نیک کام کررہا ہوں اور نہ جانا کہ نفل بے فرض نرے دھوکے کی ٹٹی ہے، اس کے قبول کی اُمید تو مفقود اور اس کے ترک کا عذاب گردن پر موجود۔ اے عزیز! فرض خاص سلطانی قرض ہے اور نفل گویا تحفہ و نذرانہ۔ قرض نہ دیجئے اور بالائی بیکار تحفے بھیجئے وہ قابلِ قبول ہوں گے خصوصاً اس شہنشاہ غنی کی بارگاہ میں جو تمام جہان و جہانیاں سے بے نیاز ؟ یوں یقین نہ آئے تو دنیا کے جُھوٹے حاکموں ہی کو آزمالے، کوئی زمین دار مال گزاری توبند کر لے اور تحفے میں ڈالیاں بھیجا کرے، دیکھو تو سرکاری مجرم ٹھہرتا ہے یا اس کی ڈالیاں کچھ بہبود کا پھل لاتی ہیں؟ذرا آدمی اپنے ہی گریبان میں منہ ڈالے،فرض کیجئے آسامیوں سے کسی کھنڈ ساری(چینی بنانے والے ) کارَس بندھا ہوا ہے جب دینے کا وقت آئے وہ رَس تو ہرگز نہ دیں مگر تحفے میں آم خربوزے بھیجیں، کیا یہ شخص ان آسامیوں سے راضی ہوگا یا آتے ہوئے اس کی نادہندگی پر جو آزار انھیں پہنچا سکتا ہے ان آم خربوزے کے بدلے اس سے بازآئے گا؟ سبحان اﷲ! جب ایک کھنڈ ساری کے مطالبہ کا یہ حال ہے تو ملک الملوک احکم الحاکمین جل وعلا کے قرض کا کیا پُوچھنا!