اسلام
محبتِ رسول کے فرض ہونے کی ایک عقلی توجیہہ
مَحبَّت کی بنیاد یہ چیزیں ہیں: جَمال وکمال اور نَوَال (یعنی اِحسان)۔مُراد یہ ہے کہ اِنسان کسی سے مَحبَّت کرتا ہے تو اس کے پیشِ نَظَر اس کی صُورَت کا حُسْن یعنی جَمالِ جَہاں آرا ہوتا ہے یا سِیْرَت کا کمال و اَکمل ہونا یا وہ اس کے اِحسانات کے سَبَب اس سے مَحبَّت کرنے لگتا ہے۔ چنانچہ اس اِعْتِبَار سے اگر اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے پیارے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو دیکھیں تو آپ ہر وَصْف میں باکمال ہیں، کوئی آپ کا ثانی نہیں، حُسْنِ صُورَت میں کوئی مِثل ہے نہ حُسْنِ سِیْرَت میں کوئی مِثال۔3جیسا کہ مَدّاحِ حبیب حضرت سَیِّدُنا حسّان بن ثابِت رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ نے بارگاہِ حبیبِ خُدا میں نذرانۂ عقیدت پیش کرتے ہوئے فرمایا:
وَاَحْسَنُ مِنْكَ لَمْ تَرَ قَطُّ عَیْنِیْ! وَاَجْمَلُ مِنْكَ لَمْ تَلِدِ النِّسَآءُ
خُلِقْتَ مُبَرَّأً مِّنْ کُلِ عَیْبٍ! کَاَنَّكَ قَدْ خُلِقْتَ کَمَا تَشَآءُ4
یعنی (یارسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم !)آپ سے زیادہ حُسْن و جَمال والا میری آنکھ نے کبھی دیکھا ہے نہ آپ سے زیادہ کمال والا کسی عورت نے جنا ہے۔آپ ہر عیب و نُقْصَان سے پاک پیدا کئے گئے ہیں گویا آپ ایسے ہی پیدا کئے گئے جیسے حسین و جمیل پیدا ہونا چاہتے تھے۔
اعلیٰ حضرت عَلَیْہِ رَحمَۃُ رَبِّ الْعِزَّت فرماتے ہیں:
تِرے خُلق کو حَق نے عظیم کہا تِری خَلق کو حَق نے جمیل کیا
کوئی تجھ سا ہوا ہے نہ ہو گا شہا تِرے خالِقِ حُسْن و اَدا کی قَسَم1
پیاری پیاری اِسْلَامی بہنو! اَلْغَرَضْ مَحْبُوب ربِّ دَاوَر، شفیعِ روزِ مَحشر صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے حُسْن و جَمال کو دیکھا جائے یا سِیْرَت کے کمال کو، آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم حَق رکھتے ہیں کہ آپ سے ہی مَحبَّت کی جائے۔ لیکن اگر کوئی مَحبَّت میں نَوَال یعنی کسی کے اِحسان کو سَبَب مانتا ہے تو اس اِعْتِبَار سے آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ہی مَحبَّت کا اَوّلِین حَق رکھتے ہیں۔ کیونکہ اُمَّت پر آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے اِحسانات شُمار سے باہَر ہیں، اِنسانِیَّت کی ہِدَایَت و فَلاح کے لیے آپ نے کیا کچھ نہیں کیا، آپ مومنین کے حَق میں رَؤف و رحیم بلکہ رَحْمَةٌ لِّلْعَالَمِین ہیں، آپ ہی کی وجہ سےاس اُمَّت کو خَیر اُمَّت کا لَقَب ملا، آپ ہی کے ذریعے کِتاب و حِکْمَت کی تعلیم چار دانگِ عالَم میں عام ہوئی۔ چنانچہ آپ کا مسلمانوں
کی جانوں سے جو ایک خاص تعلّق ہے وہ بھی اسی بات کا مُتَقَاضِی ہے کہ آپ سے مَحبَّت کی جائے۔ جیسا کہ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے: کوئی مومِن ایسا نہیں جس کیلئے میں دنیا و آخِرَت میں سارے اِنسانوں سے زیادہ اولیٰ واَقْرَب نہ ہوں۔1 اور یہی مَضْمُون اس فرمانِ باری تعالیٰ سے بھی واضِح ہو رہا ہے:
اَلنَّبِیُّ اَوْلٰی بِالْمُؤْمِنِیۡنَ مِنْ اَنۡفُسِہِمْ (پ۲۱، الاحزاب: ۶)
ترجمۂ کنز الایمان:یہ نبی مسلمانوں کا ان کی جان سے زیادہ مالِک ہے۔
مَعْلُوم ہوا جب آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی ذاتِ بابرکات میں تمام خَصائِلِ جمیلہ و جمیع اَسبابِ مَحبَّت مَوجُود ہیں تو آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی ذات کیونکر مَحبَّت کے لائق نہ ہو گی؟
3 ………ماخوذ از المواهب اللدنیه، المقصد السابع، الفصل الاول فی وجوب محبتة…الخ، ۲/ ۴۷۸
4 ………دیوان حسان بن ثابت، حرف الف، خلقت کما تشاء، ص۲۱
………حدائق بخشش، ص۸۰
1 ……… بخاری،کتاب فی الاستقراض … الخ، باب الصلاة علی من ترک دینا، ص۶۱۷، حدیث:۲۳۹۹