حضرتِ سوَّاراورنابینانوجوان
حکایت نمبر418: حضرتِ سوَّاراورنابینانوجوان
حضرتِ سیِّدُنا سَوَّار علیہ رحمۃ اللہ الغفّار فرماتے ہیں:”ایک دن جب میں”خلیفہ مہدی” کے دربار سے واپس آیا تونہ جانے کیوں بے قراری و بے چینی سی محسوس ہونے لگی، نیند میری آنکھوں سے کوسوں دور تھی۔ میں اٹھا سواری تیار کی اور باہرآگیاراستے میں اپنے کاروباری وکیل سے ملاقات ہوئی ،اس کے پاس دراہم کی تھیلیاں تھیں میں نے پوچھا :”یہ رقم کہاں سے آئی؟” کہا: ”یہ کاروباری نفع کے دو ہزار (2000) درہم ہیں۔” میں نے کہا:”انہیں اپنے پاس رکھو اور میرے پیچھے پیچھے چلے آؤ۔”اتنا کہہ کر میں نہر کی جانب چل پڑا ، پُل عبور کرکے شارع ”دارِ رفیق” کی طرف صحراء کے قریب پہنچ کرکچھ دیر ”بابِ ِانبار ” کے گردگھومتا رہا،پھر بابِ انبار کی سڑک پر چلتا ہوا ایسے صاف ستھرے مکان کے قریب رُکا جو سرسبز و شاداب اور درختوں سے بھرا ہوا تھا۔
دروازے پر خادم موجود تھا۔ میں نے پانی مانگا تو وہ خوشبودار میٹھے پانی سے بھراایک بہترین گھڑا لے آیا۔ میں نے پانی پی کر اس کا شکریہ اداکیااورنمازِ عصر کے لئے قریب ہی ایک مسجد میں چلا گیا۔
نمازِ عصرکے بعد ایک نابیناشخص نظر آیا جو کسی کو ڈھونڈ رہا تھا۔ میں نے کہا:” اے بندۂ خدا!تجھے کس کی تلاش ہے؟” کہا: ”میں آپ ہی کو ڈھونڈ رہا ہوں۔” میں نے کہا:” کہو! کیا کام ہے؟”اس نے بیٹھتے ہوئے کہا: ” میں نے آپ سے بہت عمدہ خوشبو سونگھ کر یہ گمان کیا ہے کہ آپ مالدار لوگوں میں سے ہیں۔ میں آپ سے کچھ کہناچاہتا ہوں، اگر اجازت ہو توعرض کروں؟” میں نے کہا: ” بتاؤ! کیا بات ہے؟” اس نے قریب ہی موجود ایک عمدہ محل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا:” آپ اس محل کو دیکھ رہے ہیں ؟” میں نے کہا :” ہاں۔” کہا:” یہ عظیم الشان محل میرے والد کا تھا اسے بیچ کر ہم خراسان چلے گئے۔ گردشِ ایام کی زَد میں آکر ہم اپنی نعمتوں سے محروم ہوتے چلے گئے، تنگدستی و مفلسی نے ہمارے آنگن میں ڈیرے ڈال لئے، بالآخر میں مجبور ہو کر یہاں آیاتاکہ اس نئے مالک سے کچھ امداد کا مطالبہ کروں اور اپنے والد کے بہترین دوست سَوَّار کے پاس پہنچ کر اپنی حالت سے آگاہ کروں۔”
نابینے نوجوان کی گفتگو سُن کر میں نے پوچھا:”تمہارے والد کا نام کیا ہے؟” جب اس نے اپنے والد کا نام بتایا تووہ واقعی میرا بہترین اور سچا دوست تھا۔ میں نے اس نوجوان سے کہا:” اے نوجوان! اللہ عَزَّوَجَلَّ نے تجھے تیرے مطلوب تک پہنچا دیا، اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس سے نیند اور کھانے پینے کو روکے رکھا یہاں تک کہ اسے تیرے پاس لے آیا۔ سنو! میں ہی تمہارے والد کا دو ست ”سَوَّار” ہوں۔ آؤ! میرے قریب آکر بیٹھو۔” نوجوان یہ سن کر حیرانی و خوشی کے عالَم میں میرے قریب آبیٹھا۔ میں نے اپنے کاروباری وکیل سے دو ہزار درہم لئے اور اس نوجوان کو دیتے ہوئے کہا:” ابھی یہ رقم اپنے پاس رکھ لو اور کل میرے گھر چلے آنا۔ یہ کہہ کر میں وہاں سے چلا آیا۔ میں نے سوچا کیوں نہ اس واقعہ کی اطلاع خلیفہ مہدی کو دی جائے۔ چنانچہ، میں خلیفہ کے پاس پہنچا اور اوّل سے آخر تک سب واقعہ کہہ سُنایا۔ خلیفہ یہ سن کر بہت متعجب ہوا اور میرے لئے دو ہزار درہم دینے کا حکم دیا۔میں واپس آنے لگا تو کہا: ” بیٹھو اور یہ بتاؤ کہ کیا تم پر کسی کا قرض وغیرہ ہے ؟” میں نے کہا :” ہاں! میں پچاس ہزار (50,000) دینار کا مقروض ہوں۔” خلیفہ چند لمحے خاموش رہا پھر تھوڑی دیر گفتگو کرنے کے بعد کہا : ” اب تم اپنے گھر چلے جاؤ۔” میں واپس آنے لگا تو میرے ساتھ ایک غلام تھاجس کے پاس پچاس ہزار دینار تھے۔ اس نے مجھ سے کہا:” خلیفہ نے حکم دیا ہے کہ اس رقم کے ذریعے اپنا قرض ادا کیجئے۔”میں نے وہ رقم لے لی۔
آج دوسرا دن تھالیکن وہ نابینا نوجوان ابھی تک نہ آیا تھا۔ میں اسی کے انتظار میں تھا کہ خلیفہ کی طرف سے بلاوا آگیا۔ میں وہاں پہنچا تو خلیفہ نے کہا:” ہم نے تمہارے معاملے میں غور کیا تو اس نتیجے پر پہنچے کہ تمہارا قرض تو ادا ہوجائے گا لیکن اس کے بعد دیگر ضروریات کے لئے تمہیں پھر کسی سے قرض لینا پڑے گا یا اورکسی اور امر کی طرف محتاجی ہوگی، لہٰذا میں تمہیں مزید پچاس ہزار
دینار دے رہا ہوں ،جاؤ! یہ تمہیں مُبَارَک ہوں۔” میں پچاس ہزار دینار لے کر دربار سے چلا آیا۔ ابھی کچھ ہی دیر گزری تھی کہ وہ نابینانوجوان آگیا۔ میں نے کہا:”اللہ عَزَّوَجَلَّ بڑا جَوَادوکریم ہے اس نے اپنے فضل و کرم کی خوب بارش برسائی ہے۔ یہ لو!یہ دوہزار دینارلے جاؤ۔ اللہ تبارک و تعالیٰ بہت رحیم و کریم ہے۔” نوجوان نے وہ رقم لی اور مجھے دعائیں دیتا ہوارخصت ہوگیا۔
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلي اللہ عليہ وسلم)