بداخلاقی پر بھی حسنِ سلوک
حکایت نمبر:292 بداخلاقی پر بھی حسنِ سلوک
حضرتِ سیِّدُناعمیر بن عبد الباقی علیہ رحمۃ اللہ الکافی بہت بڑے زمیندار تھے۔ حضرتِ سیِّدُنا ابراہیم بن اَ دْہَم علیہ رحمۃ اللہ الاعظم اپنی سلطنت چھوڑ کر د رویشی زندگی اختیار کر چکے تھے اور رزقِ حلال کے حصول کے لئے اُجرت پر لوگو ں کی کھیتی وغیرہ کاٹا کرتے
تھے۔حضرتِ سیِّدُنا عمیر بن عبدالباقی علیہ رحمۃ اللہ الکافی کے ہاں آپ اورآپ کے ایک دوست نے مزدوری کی اور بیس دینار کمائے۔ حضرتِ سیِّدُنا ابراہیم بن اَ دْہَم علیہ رحمۃ اللہ الاعظم نے اپنے رفیق سے کہا: ” آؤ، ہم حلق کروا لیں(یعنی سر منڈوا لیں)۔” چنانچہ، دونوں حجام کے پاس آئے، حجام نے انہیں کوئی وقعت نہ دی اور بڑے تحقیر آمیز لہجے میں کہا: ” تم لوگوں سے زیادہ ناپسندیدہ میرے نزدیک دُنیا بھر میں کوئی نہیں، کیا میرے علاوہ کوئی اور شخص تمہیں نہ ملا جو تمہاری خدمت کرتا ۔”یہ کہہ کر وہ دوسرے گاہکوں میں مصروف ہوگیا۔ آپ کے رفیق کو حجام کا ذِلت آمیز لہجہ بہت برا لگا تھا اس لئے اس نے حلق کروانے سے انکار کردیا۔ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ خاموشی سے بیٹھے رہے۔ جب سب لوگ چلے گئے توحجام نے نفرت بھرے لہجے میں کہا: ” تم کیا چاہتے ہو؟” فرمایا: ”میں اپنا حلق کروانا چاہتا ہوں۔”
حجام نے بڑی حقارت سے آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا حلق کیا۔خدا عَزَّوَجَلَّ کی شان کہ دو ٹَکے کا حجام بھی آج اس مرد ِقلندر کو دُرویشانہ لباس میں دیکھ کر حقارت بھری نظر وں سے دیکھ رہا تھا جس نے اپنے پاک پروردگار عَزَّوَجَلَّ کی رضا کی خاطر سلطنت، شان وشوکت ، شاہی محلات اور زَر وزمین سب کچھ ٹھکرادیا تھا ۔ کسی نے درست کہاہے کہ موتی کی قدر جوہری ہی جانتا ہے ۔ وہ نادان حجام اس گوہرِبے بَہا کی قدر نہ جان سکا۔ بہر حال جب آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے حلق کروالیا تو اپنے رفیق سے کہا :” جو بیس دینار تمہارے پاس ہیں وہ سب اس حجام کو دے دو۔” اس نے کہا:” حضور !یہ آپ کیا فرما رہے ہیں ؟ اتنی شدید گرمی میں خون پسینہ ایک کر کے آ پ نے مزدوری کی پھر یہ رقم ملی ، اب اس حجام کو اتنی بڑی رقم دے رہے ہیں۔” فرمایا:”یہ رقم اس حجام کو دے دو تا کہ پھر کبھی یہ کسی درویش کو حقیر نہ جانے۔” آپ کے رفیق نے ساری رقم حجام کو دے دی۔پھر آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ” طَرَسُوْس ” کی طرف لوٹ آئے ۔ صبح ہوئی تو اپنے دوست سے فرمایا :” یہ چند کتابیں کسی کے پاس رہن رکھ کر قرض لو اور کھانے کے لئے کچھ خرید لاؤ۔” آپ کا دوست حسبِ ارشادکتابیں لے کربازار کی جانب چل دیا۔ راستے میں ایک شخص کو دیکھا جو بڑی شان وشوکت سے خیمہ لگائے بیٹھاتھا ۔ اس کے سامنے غلے کا ڈھیر ، قیمتی گھوڑے ، خچر اور ایسے بڑے بڑے صندوق تھے ، جن میں ساٹھ ہزار سے زیادہ دینارہوں گے۔وہ شخص اس طرح صدائیں بلندکر رہا تھا، ”ان تمام چیزوں کا مالک سفیدی مائل سرخ رنگت والا شخص ہے جو ابراہیم بن اَدْہَم علیہ رحمۃ اللہ الاعظم کے نام سے مشہور ہے۔ کوئی ہے جو مجھے اس کے متعلق بتائے۔” یہ اعلان سن کر آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا دوست اس شخص کے پاس گیا اور کہا: ” جسے تم ڈھونڈ رہے ہو وہ ایسی شہرت وثروت کو پسند نہیں کرتا ، آؤ، میں تمہیں اس کے پاس لے چلتا ہوں۔”
وہ دونوں حضرت سیِّدُنا ابراہیم بن اَ دْہَم علیہ رحمۃ اللہ الاکرم کے پاس آئے۔آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کو مزدوروں کے لباس میں دیکھ کر وہ شخص ہکاّ بکاّرہ گیا ،ہا تھ جوڑکر عرض کی: میرے آقا! میرے سردار! خُرَاسَان کی سلطنت چھوڑ کر آپ اس حالت کو پہنچ گئے ہیں؟” آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا :” ان باتوں کو چھوڑ و اور یہ بتاؤ، تمہارا معاملہ کیا ہے ؟” کہا :” حضور! آپ کے بعد جو شخص
تخت نشین ہوا اس کا انتقال ہوگیا۔” آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا :”اللہ عَزَّوَجَلَّ اس پر رحم فرمائے ، جس طر ح اسے موت آئی اسی طرح ہر ذی روح کو موت آئے گی۔جس نے خوشیوں کا گنج پایا وہ موت کے رنج سے بھی دو چار ہوگا۔ اب یہ بتاؤ تم کیا چاہتے ہو اور یہاں کیوں آئے ہو؟” کہا :” میرے آقا! آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے بعد جب تخت نشین شیخ کا انتقال ہوگیا توآپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے سارے غلاموں نے جو چاہا وہ کیا، تمام شاہی چیزیں لوگو ں نے آپس میں تقسیم کرلیں۔میں نے بھی بہت سی چیزیں لے لیں،یہ تمام چیزیں جو میرے پاس ہیں سب آپ کی ہیں او رمیں بھی آپ کا بھاگا ہوا غلام ہوں ۔ اب معافی طلب کرنے آیا ہوں ، میں نے علماء کرام علیہم رحمۃاللہ المنان سے اپنے متعلق پوچھا تو انہوں نے فرمایا:” جب تک تم اپنے آقا کے پاس واپس نہ جاؤگے اس وقت تک تمہارے اعمال قبول نہ ہوں گے تم مال و متا ع لے کر اپنے آقا کے پاس جاؤ وہ جس طرح چاہے تمہارے ساتھ معاملہ کرے۔” میرے آقا! اب میں آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے سامنے حاضر ہوں، میرے بارے میں جو چاہیں فیصلہ فرمائیں ۔”
حضرتِ سیِّدُنا ابراہیم بن اَ دْہَم علیہ رحمۃ اللہ الاعظم نے فرمایا :” اگر تم اپنی بات میں سچے ہو تو میں نے تمہیں اللہ عَزَّوَجَلَّ کی رضا کی خاطر آزاد کیا۔اور جو کچھ مال ومتاع تمہارے پاس ہے وہ سب تمہیں دیا ، اب جہاں چاہو یہ مال خرچ کرو ۔جاؤ! یہ سارامال تمہیں مُبَارَک ہو۔” پھر آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اپنے دوست کی طر ف متوجہ ہوئے اور فرمایا: ”جاؤ ! کسی کے پاس یہ کتابیں رہن رکھ کر قرض لو اور کھانے کے لئے کچھ خرید لاؤ۔”
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم)
( سُبْحَانَ اللہ عَزَّوَجَلَّ! صد ہزار آفریں ان مُبَارَک ہستیوں پر جنہوں نے خدائے بزرگ وبَر تر کی رضا کے لئے شاہی شان وشوکت، محلات وباغات، غِلمان وخُدّام اور دنیوی زیب وزینت کو ٹھکرا کر سادگی وعاجزی اختیار کی۔ بھوک وپیاس کی مصیبتیں ہنس کر برداشت کیں ، کبھی بھی حرفِ شکایت لب پر نہ لائے اورر زقِ حلال کی خاطر محنت مزدوری کی۔یقینا یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے آخرت کی قدر جان لی۔ ان پر دنیا کی حقیقت آشْکار ہوچکی تھی کہ دنیا بے وفاہے اس کی نعمتیں زوال پذیر ہیں۔ان عارضی لذتوں کی خاطر دائمی خوشیوں کو نظر انداز کر دینا عقل مندوں کا کام نہیں۔ سمجھدار وہی ہیں جو باقی رہنے والی خوشیوں کو فانی خوشیوں پر تر جیح دیتے ہیں اور دُنیوی مصائب و تکالیف کو صبر و شکر کے ساتھ برداشت کرتے ہیں۔اللہ عَزَّوَجَلَّ ان پاکیزہ ہستیوں کے صَدْقے ہمیں بھی ا عمالِ صالحہ پر استقامت عطا فرمائے۔ ہر حال میں اپنی رضا پر راضی رہنے کی تو فیق عطا فرمائے ۔ بے صبری وناشکر ی سے بچا کر صبر وشکر کی دولت سے مالا مال فرمائے۔
ہر شخص کو چاہے کہ ہر آنے والی مصیبت پر صبر کر کے اجر کا مستحق ہو۔ مصائب وآلام کے ذریعے ہمیں آزمایا جاتا ہے اور مردانگی یہی ہے کہ امتحان وآزمائش آ جائے تو منہ نہ پھیرا جائے بلکہ خوش دِلی سے آزمائشوں سے نمٹا جائے ۔ مصیبت خود نہ مانگی
جائے بلکہ عفو و کرم کی بھیک طلب کی جائے ۔اگر مصیبت آجائے تو اس پر صبر کیا جائے۔ اللہ کریم ہمیں اپنے حفظ وامان میں رکھے اور ہمارا خاتمہ بالخیر فرمائے۔آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم)
؎ میری مشکلیں گر تیرا امتحاں ہیں
تو ہر غم قسَم سے خوشی کا سماں ہے
گناہوں کی میرے اگر یہ سزا ہے
تو سب مشکلوں کو مٹا میرے مولیٰ عَزَّوَجَلَّ!