اسلام

بابا فرید الدین گنج شکر

بابا فرید الدین گنج شکر

آج جس عظیم شخصیت کا ذکر خیر کر رہے ہیں ۔ان نام حضرت بابافرید الدین مسعود گنج شکر ؒ تھا ’’نور العارفین بابا فرید الدین مسعود گنج شکر ؒ‘‘ کا عہد572 ہجری سے 665 ہجری تک بنتا ہے آپ کا عرصہ حیات تقریباً 93 برس پر محیط ہے بابا فریدالدین ؒ کے بے شمار خلفائے تھے ، جو کا ملین میں شمار ہوتے ہیں میں مختصر نام قلمبند کروں گا ، تاکہ قارئین جان سکیں ۔ حضرت شیخ علائو الدین علی احمد صابرؒ ، حضرت شیخ نظام الدین اولیاء ؒ ، شیخ شمس الدین ترک پانی پتیؒ ، شیخ جمال الدین ہانسوی ؒ ، شیخ یعقوب ابن بابا فرید ؒ شیخ بدر الدین ؒ ، شیخ نجیب الدین متوکل ؒ شیخ عارف سیو ستانی ؒ اور بہت سے ان گنت خلفائے تھے جہنوں نے دُنیا ئے تصوف میں نام پید اکیا اور دین اسلام کو فروغ دیا۔بابا فرید گنج شکرؒ نے اپنے کردار و عمل اور تعلیمات سے برصغیر میں اسلام کا بول بالا کیااولیائے کرام کا بنیادی فریضہ قلوب کی اصلاح ہے اور بابا فرید نے ہزاروں سینوں میں اسلام کی شمع روشن کی اور یہی وجہ ہے کہ آج پونے آٹھ سو سال کے بعد بھی حضرت بابا فرید ؒ کے فیوض و برکات کا سلسلہ جاری و ساری ہے برصغیر پاک و ہند میں تبلیغ اسلام کا تمام تر کام اولیاء کرام اور بزرگان دین کے ہاتھوں انجام پایا اور یقینا یہ تاریخ عالم کی بہت اہم مثالوں میں سے ایک ہے حضرت بابا فرید گنج شکرؒ بھی اللہ کے ان پیارے بندوں میں شامل ہیں جنہوں نے اپنی تمام زندگی اللہ کی رضا کے حصول کیلئے وقف کر دی وہ نہ صرف اپنے دور کے عظیم صوفی ،عالم اور مبلغ ہیں بلکہ انہیں پنجابی شاعری کے بانی ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے بابا فرید کی شاعری کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ ان کے اکثر شعر جنہیں اشلوک کہاجاتا ہے قرآن مجید کی آیات کی تفسیر یا احادیث کے تراجم ہیں اور یہ ان کی شاعری ہی تھی جسے انہوں نے تبلیغ اسلام کیلئے استعمال کیا بابا فریدؒ کی شاعری کے حوالے سے سب سے زیادہ دکھ دینے والی بات یہ ہے کہ ان کا کلام محفوظ نہیں رہ سکا ان کے صرف وہ اشعار یااشلوک آج ہم تک پہنچے ہیں جو سکھ مذہب کے بانی بابا گرونانک نے سکھوں کی مذہبی کتاب ’’گرو گرنتھ صاحب‘‘میں تحریر کروا دئیے تھے اب ہمارے پاس اس کلام کے علاوہ بابا فریدؒ کی کوئی شاعری موجود نہیں ان کے شعر جنہیں شلوک یا اشلوک کہا جاتا ہے ان کی شاعری میں دنیا کی بے ثباتی، ہجر و فراق کی کیفیت قرآن مجید کی سچی تعلیم اور اخلاقی قدروں کی پہچان کے اعلیٰ نمونے موجود ہیں
آفتاب ولایت حضرت بابا فرید الدین مسعود گنج شکر رحمتہ اللہ کا شمار چشتیہ سلاسل کے معروف ترین بزرگان دین میں ہوتا ہے، سلسلہ چشتیہ میں سلطان الہند حضرت خواجہ غریب نوازؒ کے بعد سب سے زیادہ شہرت آپ ہی کے حصے میں آئی، آپ کے مریدین کی تعداد لاکھوں اور خلفا کی تعداد 700 ہے، چھ سو خلفا انسانوں میں اور سو خلفا جنات میں سے تھے، آپ مجذوب السالک تھے یعنی آپ کی روحانیت کے تین حصے جذب کے اور ایک حصہ سلوک پر مشتمل تھا۔

نام اور شجرہ نسب:

آپ کا نام مسعود اور والدین کا نام سلیمان تھا اسی نسبت سے مسعود بن سلیمان کہلائے، آپ فاروقی ہیں، آپ کا شجرہ نسب عمر بن الخطابؒ سے جاملتا ہے۔

القابات:

گنج شکر ، شکر گنج، بابا فرید، شہباز لامکاں، باباصاحب کے القابات سے آپ کو یاد کیا جاتا ہے۔

پیر طریقت:

آپ نے قطب الاقطاب حضرت قطب الدین بختیار کاکی اوشیؒ کے دست حق پر بیعت کی جو خواجہ معین الدین چشتیؒ کے جانشین تھے۔
آپ کویہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ آپ کو بیک وقت آپ کے پیرو مرشد خواجہ قطب الدین بختیار کاکی سمیت سلطان الہند خواجہ معین الدین چشتی المعروف خواجہ غریب نواز رحمتہ اللہ نے بیک وقت روحانی قوت عطا کی اس موقع پر سلطان الہند نے تاریخی الفاظ ادا کیے کہ قطب الدین تم ایک شہباز کو زیر دام لائے ہو جس کے بعد آپ کو شہباز لامکاں کا لقب عطا ہوا کہ جس کا ٹھکانہ کہیں نہیں صرف سدرۃ المنتہیٰ پر ہے۔

مریدین خاص:

قطب عالم شیخ جمال الدین ہانسویؒ(محبوب ترین مرید)
حضرت خواجہ نظام الدین اولیاءمحبوب الٰہیؒ(نظامی سلسلے کے بانی)
حضرت مخدوم علاء الدین احمد صابر کلیریؒ(صابری سلسلے کے بانی)
حضرت خواجہ بدرالدین اسحاقؒ (داماد)
بابا منگھوپیرؒ(کراچی میں مدفون ہوئے)
حضرت شمس الدین ترک پانی پتیؒ(جنہیں آپ نے صابر کلیری ؒ کے ساتھ کردیا تھا)
شیخ نجیب الدین متوکلؒ(بھائی)

چار ہم عصر اولیائے کرام:

حضرت شیخ بہا الدین زکریا ملتانیؒ: آپ سہروردی سلسلے کے بزگ ہیں، ملتان میں مدفون ہوئے۔
بابا فرید الدین مسعود گنج شکر: صاحب عرس، آپ سے فریدی سلسلہ جاری ہوا، پاک پتن میں مدفون ہوئے۔
حضرت جلال الدین سرخ بخاریؒ: نام سے ہی ظاہر ہے، آپ جلالی کیفیت کے حامل تھے
حضرت عثمان بن مروندی المعروف حضرت لعل شہباز قلندرؒ : آپ چاروں دوستوں میں سب سے کم عمر تھے، سیہون میں آپ کا مزار مرجع الخلائق ہے۔
درگاہ خاص حضرت خواجہ نظام الدین اولیاءؒ کے صاحب شجرہ خواجہ امین الدین نظامی کے مطابق آپ چاروں دوست تھے، سب سے کم عمر لعل شہباز قلندر ؒ تھے، آپ چاروں سہروردی سلسلے کے بانی پیر طریقت شیخ شہاب الدین سہرودری کی خدمت میں حاضری کے لیے بغداد روانہ ہوئے، نصف شب کو پہنچے، شیخ شہابؒ نے حضرت عثمانؒ کو بلایا، ان سے خدمت لی، سینے سے لگا کر علم منتقل کیا اور انہیں لعل شہباز قلندرؒبنادیا، بعدازاں باری باری تینوں بزرگوں کو بلایا اور اپنی تصنیف عوارف المعارف(تصوف کی شہرہ آفاق کتاب) کا درس دیا اور مراتب سے نوازا۔
بابا فریدؒ نے اپنے چھ خلفا کبیر کو چھ علاقہ ولایت عطا کیے، قطب عالم شیخ جمال الدین ہانسویؒ کو ہانسی، خواجہ نظام الدین اولیاءؒ کو غیاث پور(دلی)، مخدوم صابر کلیریؒ کو کلیر شریف، منگھوپیر بابا کو کراچی کا علاقہ عطا کیا جبکہ اپنے داماد شیخ بدر الدین اسحاقؒ کو اپنے ساتھ رکھا جب کہ لعل شہباز قلندرؒ کو سیہون شریف بھیجا، ہر خلفا کبیر کے ماتحت سوسو خلفا رکھے جو کہ چھ سو ہوئے جب کہ سو خلفا جنات میں سے تھے یوں 700 کی تعداد پوری ہوتی ہے۔
حضرت لعل شہباز قلندرؒ بابا فریدؒ کا بہت احترام کرتے تھے، آپ کے حکم پر لعل شہباز قلندرؒ بابا منگھوپیر بابا سے ملنے کراچی تشریف لائے اس وقت یہ جگہ غیر آباد تھی، آپ کا مسکن ندی کنارے تھے، لعل شہاز قلندر ندی سے آپ کے گھر تک مگرمچھ پر سفر کرکے گئے، بعدازاں آپ کے چند خلفا منگھوپیر بابا کی خدمت میں آئے تو آپ بھی اپنے پیرو مرشد شیخ لعل شہبازؒ کی تقلید مگر مچھ پر سواری کرکے گئے بعدازاں وہ سارے مگر مچھ منگھوپیربابا کے مزار پررہ گئے اور انہیں وہاں کے مجاوروں نے باقاعدہ خوراک دی، ان ہی مگرمچھوں کی نسل کے مگر مچھ آج تک مزار کے احاطے میں موجود ہیں۔

اولادیں

آپ نے دو شادیاں کی، چھ اولاد نرینہ اور تین اولاد زرینہ پائیں
شیخ بدرالدین سلیمان
شیخ شہاب الدین گنج علم
شیخ نظام الدین شہید
شیخ یعقوب
شیخ عبداللہ
شیخ نصراللہ
بی بی فاطمہ
بی بی شریفہ
بی بی مستورہ
کرامتیں:

پتھر سونا بن گیا

آپ سے بہت سی کرامتیں پیش آئیں، ایک بار ایک عورت بیٹیوں کی شادی کی درخواست کے لیے آئی اور رونے لگی، آپ نے پتھر پر قل ھو اللہ احد پڑھ کر دم کیا تو وہ سونا بن گیا بعدازاں عورت بھی اپنے گھر میں یہ کرنے لگی لیکن پتھر پتھر ہی رہا اس نے آکر آپ سے کہا تو آپ نے تاریخی جملہ ادا کیا کہ اٹھارہ برس تک فرید نے وہ کیا جو خدا نے کہا اب فرید جو چاہتا ہے خدا اسے پورا کردیتا ہے۔

والدہ کو کچھ مشکوک غذا کھانے نہ دی

ایک بار دوران حمل آپ کی والدہ نے کچھ بیر توڑ کر کھائے تو طبیعت ایک خراب ہوئی، قے ہوئی اور سارا کھایا باہر آگیا،جب آپ بڑے ہوئے تو والدہ نے کہا کہ میں نےدوران حمل کبھی مشکوک شے معدے میں داخل نہ کی تب ہی تمہیں اتنی عظمت نصیب ہوئی تو بابا فرید نے کہا آپ کھا بھی لیتی تو میں کھانے کہاں دیتا تھا، آپ نے والدہ کو بیروں کا واقعہ یاد دلایا تو والدہ حیرت زدہ رہ گئیں۔

جادوگروں کے ٹولے کو شکست دی

آپ اجودھن میں تشریف فرما تھے کہ ایک گوالن دودھ لے کر گزری، آپ نے خریدنے کی پیشکش کی تو بولی کہ ایک جادوگر ہمارے جانوروں کا دودھ خریدتا ہے اسے نہ بیچیں تو جانورو مرجاتے ہیں، دودھ کی جگہ خون آتا ہے، آپ نے اسے روک لیا اور تسلی دی، اسے ڈھونڈتے ہوئے جادوگر کاایک چیلا آیا تو آپ نے اسے کہا بیٹھ جائو وہ بیٹھ گیا اور چاہنے کے باوجود اٹھ نہ سکا، دوسرا آیا تو آپ نے اسے بھی بٹھالیا اس طرح پورا گروہ آیا اور آپ فرماتے گئے بیٹھ جائو اور کوئی نہ اٹھ سکا، آکر میں جادوگر خود آیا اور وہاں بیٹھنے پر مجبور ہوگیا، جب اٹھ نہ سکا تو سر زمین پر رکھ کر معافی چاہی، آپ نے مشروط رہائی دی اور جادوگر تمام چیلوں سمیت وہ علاقہ فوری طور پر چھوڑ گیا۔
آپ کی کرامات بے شمار ہیں جنہیں مختصر وقت میں احاطہ تحریر میں لانا مشکل تھا اس لیے اختصار کے ساتھ صرف یہ تین کرامتیں تحریر کی گئی ہیں۔

گنج شکر کی وجہ تسمیہ:

اس ضمن میں کتب تصوف میں چار روایتیں ہمیں ملتی ہیں۔
اول روایت یہ ہے کہ بچپن میں آپ کی نماز کی عادت کوبرقرار کھنے کے لیے آپ کی والدہ قرسم خاتون آپ کے مصلے کے نیچے چپکے سے شکر رکھ دیا کرتی تھیں اور فرماتی تھیں کہ جو بچہ نماز پڑھتا ہے اسےاللہ تعالیٰ شکر عطا کرتا ہے ایک دن شکر رکھنا بھول گئیں لیکن غیب سے مصلے کےنیچے سے پھر بھی شکر نکل آئی جس پر قرسم خاتون کی آنکھیں بھر آئیں اور انہوں نے لاج رکھنے کا خدا کا شکر ادا کیا۔
دوسری روایت یہ ہے کہ آپ درخت کےنیچے آرام فرما تھا کچھ تاجر چینی لے کر گزرے آپ کے استفسار کہہ دیا کہ یہ تو نمک ہے تو آپ نے فرمایا کہ نمک ہی ہوگا، بعد ازاں تاجر وں نے بازار پہنچ کر بوریاں کھولیں تو نمک ملا، واپس آکر معافی کے طلب گار ہوئے تو آپ نے فرماُیا بوریوں میں چینی ہے تو چینی ہی ہوگی، بوریاں کھولی گئیں تو چینی نکلی۔
تیسری روایت یہ ہے کہ آپ ضعف کے سبب رات کے اندھیرے میں ذکر الٰہی کرتے ہوئے گزرے اور گرپڑے ، منہ میں جو مٹی آئی وہ شکر بن گئی تو آپ کے پیرو مرشد نے آپ کو شکر گنج قرار دیا
چوتھی روایت ہے کہ آپ نے پیرومرشد کے کہنے پر طے کے روزے رکھے، آپ پانچ سے چھ دن سے روزے سے تھے محض پانی سے روزہ رکھ رہے تھے، ضعف اور مدہوشی میں آپ نے مٹی اٹھا کر منہ میں ڈال لی جو چینی بن گئی۔

وصال:

سلسلہ چشتیہ کے یہ آفتاب ولایت 95 سال کی عمر میں 5محرم الحرام 690ہجری کو علالت کے سبب دنیا سے پردہ فرما گئے، آپ کے ُوصال کے وقت آپ کے عزیز ترین محبوب خواجہ نظام الدین اولیاؒ آپ کے پاس نہ تھے جس طرح آپ اپنے پیرومرشد قطب الدین بختیار کاکی کے وصال کےوقت موجود نہ تھے۔
آپ کا مزار مبارک ملتان کے قریب پاک پتن شریف میں واقع ہے جہاں عرس نہایت عقیدت و احترام کے ساتھ منایا جاتا ہے۔
مضمون کی تیاری میں درج ذیل کتب سے مدد لی گئی

سیرالاولیاء: مولف حضرت امیر خورد کرمانیؒ

فوائدالفواد: مولف حضرت امیر العلا سنجریؒ
خیر المجالس: ملفوظات خواجہ نصیر الدین چراغ دہلی ؒ
کتاب سیرالاقطاب، مولف شیخ اللہ دیا چشتی ،مترجم محمد علی جویا مراد آبادی
اللہ کے سفیر: تصنیف خان آصف

Related Articles

Back to top button
error: Content is protected !!