رزق کی برکت سے محروم کون…..؟
رزق کی برکت سے محروم کون…..؟
حضرت ابراہیم بن ادہم علیہ رحمۃ اللہ الاعظم فرماتے ہیں،ایک مرتبہ میں ا سکندریہ کے ایک شخص سے ملا جسے اسلم بن زید اَلجھنی کہا جاتاتھا ۔ و ہ مجھ سے کہنے لگا :”اے نوجوان ! تم کون ہو؟” میں نے کہا:” میں خراسان کا رہنے والا ہوں۔” اس نے پوچھا: ”تجھے دنیا سے بے رغبتی پر کس چیز نے ابھارا؟” میں نے جواب دیا :” دنیوی خواہشات کو ترک کرنے اور ا ن کے ترک پر اللہ عزوجل کی طرف سے ملنے والے ثوا ب کی امید نے۔”وہ کہنے لگا :” بندے کی اللہ عزوجل سے اجر وثواب کی امید اس وقت تک پوری نہیں ہوسکتی جب تک وہ اپنے نفس کو صبر کرنے کا عادی نہ بنالے ۔ یہ سن کر اُس کے پاس کھڑے ایک شخص نے پوچھا :” صبر کیا ہے؟ ”اس نے جواب دیا:” صبر کی سب سے پہلی منزل یہ ہے کہ انسان ان باتوں کو بھی (خوشی سے) برداشت کرلے جو اس کے دل کو اچھی نہ لگیں۔”میں نے کہا:”اگروہ ایساکر لے تو پھر کیا ہوگا؟”
اس نے کہا :” جب وہ ناپسند یدہ باتوں کو برداشت کرلے گا تو اللہ عزوجل اس کے دل کو نور سے بھردے گا ۔پھر میں نے اس سے پوچھا:” نور کیا ہے ؟ ” اس نے مجھے بتایا:”یہ اس شخص کے دل میں موجود ایسا چراغ ہوتا ہے جو حق وباطل اور متشابہ میں فرق کرتا ہے ۔ اے نوجوان ! جب تو اولیاء کرا م رحمہم اللہ تعالیٰ کی صحبت اختیار کرے یا صالحین سے گفتگوکر ے تو ان کی ناراضگی سے ہمیشہ بچتے رہناکیونکہ ان کی ناراضگی میں اللہ عزوجل کی ناراضگی اور ان کی خوشی میں اللہ عزوجل کی خوشی پوشیدہ ہے۔ اے نوجوان! میری یہ باتیں یاد کرلے ، اپنے اندر برداشت کا مادہ پیدا کر اور سمجھدار ہوجا۔”
یہ نصیحت آموز باتیں سن کرمیری آنکھوں سے سیل ِاشک رواں ہوگیا۔میں نے کہا :” اللہ عزوجل کی قسم ! میں نے اللہ عزوجل کی محبت ،اس کی رضاکے حصول اور دنیوی خواہشات کو تر ک کرنے کی خاطر اپنے والدین اورمال و دولت کو چھوڑ اہے۔” اس نے کہا:” بُخل سے کوسوں دور بھاگنا۔ میں نے پوچھا:” بُخل کیا ہے؟” اس نے کہا:” دنیا والوں کے نزدیک توبخل یہ ہے کہ کوئی آدمی اپنے مال میں کنجوسی کرے جبکہ آخرت کے طلبگار وں کے نزدیک بخل یہ ہے کہ کوئی اپنے نفس کے ساتھ اللہ عزوجل سے کنجوسی کرے ۔ یا د رکھ ! جب انسان اللہ عزوجل کی رضا کی خاطر اپنے دل سے سخاوت کرتا ہے تو اللہ عزوجل اس کے دل کوہدایت او ر تقوی سے بھر دیتا ہے اور اسے سکون ،وقار ، اچھا عمل اورعقل سلیم جیسی نعمتیں ملتی ہیں۔اس کے لئے آسمان کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں اور وہ مسرور و شاداں ان دروازوں کے کھلنے کی کیفیت کو دیکھتا ہے۔”
یہ سن کراس کے رفقاء میں سے ایک شخص نے کہا :” حضور !اس کی آتشِ عشق کو مزید بھڑکایئے۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ اس نوجوان کو اللہ عزوجل کی طر ف سے ولایت کی توفیق عطا کی گئی ہے۔ ”
وہ شخص اپنے رفیق کی اس بات سے بہت متعجب ہو ا کہ” اسے اللہ عزوجل کی ولایت کی تو فیق عطا کی گئی ہے۔” پھر میری طرف متوجہ ہو ا اور کہنے لگا:” اے عزیز ! عنقریب تو اچھے لوگوں کی صحبت اختیار کریگا۔ جب تجھے یہ سعادت نصیب ہو تو ان کے لئے ایسی زمین کی مانند ہوجا کہ اگر وہ چاہیں تو تجھے پاؤں کے نیچے روند ڈالیں ۔ اوراگر وہ تجھے ماریں،جھڑکیں یا دھتکاردیں تو تُو اپنے دل میں سوچنا کہ تو آیاکہاں سے ہے ؟ اگر تو غور وفکر کریگا تو اللہ عزوجل کی نصرت تیری مؤید ہوگی اور اللہ عزو جل تجھے دین کی سمجھ بوجھ عطا فرمائے گا،پھر لوگ دل وجان سے تجھے مان لیں گے ۔
اے نوجوان !یا د رکھ ،جب کسی انسان کو اچھے لوگ چھوڑ دیں ، پرہیز گار اس کی صحبت سے بچنے لگیں اور نیک لوگ اس سے ناراض ہو جائیں تو یہ اس کے لئے نقصان دہ بات ہے۔ اب اسے جان لینا چاہے کہ اللہ عزوجل مجھ سے ناراض ہے ۔جو شخص اللہ عزوجل کی نافرمانی کر ے گا تو اللہ عزوجل اس کے دل کو گمراہی اور تاریکی سے بھر دے گا ۔اس کے ساتھ ساتھ وہ رزق( کی برکت )سے محرو م ہوجائے گا اور خاندان والوں کی جفا اور صاحبِ اقتدار لوگو ں کا بغض اس کا مقدّر بن جائے گا ۔پھر اللہ عزوجل جہاں چاہے اسے ہلاک کر دے۔”
میں نے کہا:” ایک مرتبہ میں نے ایک نیک شخص کی ہمراہی میں کوفہ سے مکہ مکرمہ تک سفر کیا۔جب شام ہوتی تو وہ دو رکعت نماز ادا کرتا۔ پھر آہستہ آہستہ کلام کرتا۔میں دیکھتا کہ ثرید سے بھرا ہوا پیالہ اور پانی سے بھرا ہوا ایک کوزہ اس کے دائیں جانب رکھا ہوتا۔ وہ اس کھانے میں سے خود بھی کھاتا اور مجھے بھی کھلاتا۔ میری یہ بات سن کر وہ شخص اور اس کے رفقاء رونے لگے۔”
پھراس نے مجھے بتایا:” اے میرے بیٹے! وہ میرے بھائی داؤد تھے اور ان کی رہائش بلخ سے پیچھے ایک گاؤں میں تھی۔ داؤد کے وہاں سکونت اختیار فرمانے کی وجہ سے وہ گاؤں دو سری جگہوں پر فخر کرتا ہے ۔اے عزیز ! انہوں نے تجھے کیا کہا تھا ، او رکہا سکھایا تھا ؟” میں نے کہا:” انہوں نے مجھے اسمِ اعظم سکھایا۔” اس شخص نے پوچھا: ”وہ کیا ہے ؟” میں نے کہا:” اس کا بولنا میرے لئے بہت بڑا معاملہ ہے۔ ایک بار میں نے اسم اعظم پڑھا تو فوراً ایک آدمی ظاہر ہوا اور میرا دامن پکڑ کر کہنے لگا:” سوال کر، عطا کیا جائے گا۔ ” مجھ پر گھبراہٹ طاری ہوگئی ۔ میری یہ حالت دیکھ کر وہ بولا:” گھبرانے کی کوئی بات نہیں ،میں خضر ہوں اورمیرے بھائی داؤد نے تمہیں اللہ عزوجل کا اسم ِاعظم سکھایا ہے ۔ا س اسم اعظم کے ذریعے کسی ایسے شخص کے لئے کبھی بھی بد دعا نہ کرنا جس سے تمہارا ذاتی جھگڑا اوراختلاف ہو، اگر ایساکروگے تو کہیں ایسا نہ ہو کہ تم اسے دنیا و آخرت کی ہلاکت میں مبتلا کردو اور پھر تم بھی نقصان اُٹھاؤ ۔ بلکہ اس اسمِ اعظم کے ذریعے اللہ عزوجل سے دعا کرو کہ وہ تمہارے دل کو دینِ اسلام پر ثابت رکھے ۔تمہارے پہلو
کو شجاعت وبہادری عطا فرمائے، تمہاری کمزوری کو قوت سے بدل دے ۔ تمہاری وحشت کو اُنسیَّت سے اور تمہارے خوف کو امن سے بدل دے۔ ”
پھر مجھ سے کہا:”اے نوجوان ! نفس کی خواہشات کو تر ک کرنے کی غرض سے دنیا کو چھوڑنے والوں نے اللہ عزوجل کی رضا کو (اپنا) لباس ، اس کی محبت کواپنی چادر اور اس کی عظمت وبزرگی کو اپنا شعار بنالیا ہے ۔ چنانچہ اللہ عزوجل نے ان پر ایسا فضل وانعام فرمایاکہ ایسا کسی پر نہ فرمایا۔ اتناکہنے کے بعد وہ چلا گیا۔ وہ شخص میری اس بات سے بہت متعجب ہوا۔ پھر کہنے لگا :” یقینا اللہ عزوجل ایسے ہدایت یافتہ لوگو ں سے ( دین اسلام کی) تبلیغ کا کام لیتا ہے ۔ اے عزیز ! ہم نے تجھے (ان باتوں سے) نفع پہنچا یا اور جو ہم نے سیکھا تھا وہ تجھے سکھادیا ۔ پھر ان میں سے بعض نے بعض سے کہا :” خوب سیرہوکر کھانے کے بعد رات جاگ کر گزارنے کی طمع نہیں کی جاسکتی۔ دنیا کی محبت کے ہوتے ہوئے اللہ عزوجل سے محبت کی طمع نہیں کی جاسکتی، تقوی اور پر ہیز گاری کو ترک کرنے کے باوجود حکمت کا الہام ہونا محض خام خیالی ہے ۔
ظلمت وتاریکی کی راہوں میں گم ہونے کے باوجود تیرے سب کام صحیح ہو جائیں یہ نہیں ہو سکتا ۔ اور جب تجھے مال سے محبت ہو توپھر تو اللہ عزوجل سے محبت کی طمع نہ کر ۔ لوگو ں پر ظلم وجفا کرنے کے با جود تمہارے دل کے نرم ہونے کا گمان نہیں کیا جاسکتا ۔ فضول کلام کرنے کے باوجود رقت قلبی ، مخلوق پر رحم نہ کرنے کے باوجود اللہ عزوجل کی رحمت اور علمائے کرام رحمہم اللہ تعالیٰ کی مجالس میں نہ بیٹھنے کے باوجود رشد وہدایت کی طمع محض خام خیالی ہی ہے ۔”
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبیالامین صلی اللہ تعالی علی وسلم)