توبہ کی شرائط
توبہ کی شرائط
شرح فقہ اکبر میں ہے :”مشائخ عظام نے فرمايا کہ تو بہ کے تين ارکان ہيں ۔ (۱)ماضی پرندامت۔(۲)حال ميں اس گناہ کو چھوڑ دينا۔(۳)اور مستقبل ميں اس کی طرف نہ لوٹنے کا پختہ ارادہ ۔يہ شرائط اس وقت ہوں گی کہ جب يہ توبہ ايسے گناہوں سے ہو کہ جو توبہ کرنے والے اور اللہ تعالیٰ کے درميان ہوں جيسے شراب پينا۔
اور اگر اللہ تعالی کے حقوق کی ادائیگی ميں کمی پر توبہ کی ہے جيسے نماز،روزے اور زکوۃ تو ان کی توبہ يہ ہے کہ اولاًان ميں کمی پر نادم وشرمندہ ہو پھر اس بات کا پکا ارادہ کرے کہ آئندہ انہيں فوت نہ کریگا اگرچہ نماز کو اس کے وقت سے مؤخر کرنے کے ساتھ ہوپھر تمام فوت شدہ کو قضا کرے۔
اور اگر توبہ ان گناہوں پر تھی کہ جن کا تعلق بندوں سے ہے ،پس اگر وہ توبہ
مظالم اموال سے تھی تو يہ توبہ ان چيزوں کے ساتھ ساتھ کہ جن کو ہم حقوق اللہ ميں پہلے بيان کر چکے ہيں،مال کی ذمہ داری سے نکلنے اور مظلوم کو راضی کرنے پر موقوف ہو گی ،اس صورت کے ساتھ کہ يا تو ان سے اس مال کو حلال کرو الے (يعنی معاف کروا لے)يا انہيں لوٹا دے ،يا (اگر وہ نہ ہوں تو )انہیں (دے کہ)جو ان کے قائم مقام ہوں جيسے وکيل يا وارث وغيرہ ۔
اور قنيہ ميں ہے کہ :”ايک شخص پر کچھ ايسے لوگوں کے دَين مثلا غصب شدہ چيز، مظالم اور ديگر جرائم ہيں کہ جن کو يہ نہيں پہچانتا ،تو ادائیگی کی نيت سے ديون کی مقدار مال،فقيروں پر صدقہ کرے ،(پھر)اگر وہ انہيں ،اللہ تعالی کی بارگاہ ميں توبہ کرنے کے بعد پائے تو ان سے معافی طلب کرے ۔”
اور اگر توبہ ايسے مظالم سے ہو کہ جو اعراض (يعنی کسی کی عزت سے تعلق رکھتے) ہيں جيسے زنا کی تہمت لگانااور غيبت ،تو ان کی توبہ ميں ،حقوق اللہ کے سلسلے ميں بيان کردہ چيزوں کے علاوہ يہ ہے کہ جن پر تہمت لگائی يا جن کی غيبت کی انہيں اس بات کی خبر دے کہ جو اس نے ان کے بارے ميں کہی تھی اور (پھر)ان سے معافی طلب کرے۔ پھر اگر يہ دشوار ہو تو ارادہ کرے کہ جب بھی ان کو پائے گاتو معافی طلب کریگا ۔پھر اگر يہ عاجز آ جائے بايں طور کہ مظلوم مر گيا تو اسے چاہيے کہ اللہ تعالی سے مغفرت طلب کرے اور اس کے فضل و کرم سے اميد رکھے کہ وہ اس کے مد مقابل کو اپنے احسان کے خزانوں کے ذريعے ،اس سے راضی فرما دے گا ،کيونکہ وہ جواد،کريم ،رؤف اور رحيم ہے۔” (فتاویٰ رضویہ ج ۱۰،نصف اول ، ص ۹۷)
مشائخ کرام رحمھم اللہ کی تصریح کے مطابق توبہ کے لئے چار امور کا ہوناضروری ہے۔
(i)پہلے اس گناہ کا ارتکاب ہوچکا ہو،
(ii)اس گناہ کو اللہ تعالیٰ کی نافرمانی سمجھ کر اس پر نادم ہو ،
(iii)اسے آئندہ نہ کرنے کا پختہ ارادہ کیاجائے،…اور…
(iv) اس گناہ کی تلافی کرے ۔
ان شرائط کی تفصیل
(i)پہلے اس گناہ کا ارتکاب ہوچکا ہو:
یعنی توبہ سے ماضی میں کئے گئے گناہ معاف ہوں گے نہ کہ زمانہ مستقبل میں ارتکاب گناہ کی اجازت ملے گی ،لہذا! آئندہ زمانے میں گناہ کرنے کا ارادہ رکھتے ہوئے اس پر پیشگی توبہ کرنا ،پھر ِ گناہ کرنا بہت بڑی جرأت ہے ،کیا معلوم کہ انسان گناہ کرنے کے بعد توبہ کرنے کے لئے زندہ رہے گا بھی یا نہیں؟
(ii)اس گناہ کو اللہ تعالیٰ کی نافرمانی سمجھ کر اس پر نادم ہو :
توبہ گناہ کو چھوڑنے کانام ہے اور کسی چیز کو چھوڑنااسی وقت ممکن ہے جب اس کی پہچان ہو ،لہذا! سب سے پہلے گناہوں کی معرفت کا ہونا بے حد ضروری ہے کیونکہ جب تک بندہ گناہ کو گناہ نہیں سمجھے گا اس سے توبہ کیسے کریگا ؟گناہوں کی معرفت کے لئے سیدنا امام محمد غزالی علیہ الرحمۃ کی تصنیف لطیف” احیاء العلوم” اور علامہ شمس الدین ذھبی علیہ الرحمۃ کی تالیف” کتاب الکبائر ”، مکتبۃ المدینہ کی شائع کردہ کتاب ”جہنم میں لے جانے والے اعمال ”اور ”رسائل ِ امیرِاہل ِ سنت مدظلہ العالی ”کا مطالعہ بے حد مفید ہے۔
نیزتوبہ کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ کسی گناہ کو اس لئے چھوڑے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی ہے ،لہذا! اگر کسی شخص کے خوف یا طبعی نقصان کی وجہ سے کسی گناہ کو ترک کیا مثلاً جگر کے امراض کی وجہ سے شراب نوشی ترک کی یا بدنامی کے خوف سے زناء کرنا چھوڑدیا تو ایسا شخص تائب نہیں کہلائے گااور نہ ہی اسے توبہ کا ثواب اور فضائل حاصل ہوں گے اگرچہ گناہ کو چھوڑنا بھی ایک سعادت ہے ۔
اب رہا یہ سوال کہ ندامتِ قلبی کس طرح حاصل ہوکیونکہ قلبی جذبات پر تو انسان کا اختیار نہیں ؟ اس کے لئے درج ذیل گزارشات پر عمل کریں ،۔۔۔۔۔۔
(۱) اللہ تعالیٰ کی نعمتوں پر اس طرح غور وفکر کريں کہ” اس نے مجھے کروڑہا نعمتوں سے نوازا مثلاً مجھے پیدا کیا ،۔۔۔۔۔۔ مجھے زندگی باقی رکھنے کے لئے سانسیں عطا فرمائیں ،۔۔۔۔۔۔ چلنے کے لئے پاؤں دئيے۔۔۔۔۔۔، چھونے کے لئے ہاتھ دئيے۔۔۔۔۔۔، دیکھنے کے لئے آنکھیں عطا فرمائیں۔۔۔۔۔۔ ، سننے کے لئے کان دئيے۔۔۔۔۔۔، سونگھنے کے لئے ناک دی۔۔۔۔۔۔، بولنے کے لئے زبان عطا کی اور کروڑ ہا ایسی نعمتیں عطا فرمائیں جن پر آج تک میں نے کبھی غور نہیں کیا ۔”پھر اپنے آپ سے یوں سوال کرے:”کیا اتنے احسانات کرنے والے رب تعالیٰ کی نافرمانی کرنامجھے زیب دیتا ہے ؟”
(۲) گناہوں کے انجام کے طور پر جہنم میں دئيے جانے والے عذاب ِ الہٰی کی شدت کو اپنے دل ودماغ میں حاضر کريں مثلاًسرورِ عالم ا نے فرمایا کہ
”دوزخیوں میں سب سے ہلکا عذاب جس کو ہو گا اسے آگ کے جوتے پہنائے جائیں گے جن سے اس کا دماغ کھولنے لگے گا۔”
(صحیح مسلم ،کتاب الایمان ، باب اھون اھل النار عذابا ،رقم ۴۶۷ ، ص ۱۳۴)
” اگراس زرد پانی کا ایک ڈول جو دوزخیوں کے زخموں سے جاری ہو گا دنیا میں ڈال دیا جائے تو دنیا والے بدبودار ہو جائیں۔”
(جامع التر مذی ،کتاب صفۃ جھنم ،باب ماجاء فی صفۃ شراب اھل النار ،رقم ۲۵۹۳ ، ج ۴، ص ۲۶۳ )
”دوزخ میں بختی اونٹ کے برابر سانپ ہیں’ یہ سانپ ایک مرتبہ کسی کو کاٹے تو اس کا درد اور زہر چالیس برس تک رہے گا۔ اور دوزخ میں پالان بندھے ہوئے خچروں کے مثل بچھو ہیں تو ان کے ایک مرتبہ کاٹنے کا دردچالیس سال تک رہے گا۔”
(المسند للامام احمد بن حنبل ، حدیث عبداللہ ، بن الحارث بن جزء الزبیدی ، رقم ۱۷۷۲۹ ،ج۶ ،ص ۲۱۷)
”تمہاری یہ آگ جسے ابن آدم روشن کرتا ہے ، جہنم کی آگ سے ستر درجے کم ہے۔ ” یہ سن کر صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم نے عرض کی ” یا رسول اللہ ا! جلانے کے لئے تو یہی کافی ہے؟” ارشادفرمایا ” وہ اس سے اُنہتر(۶۹) درجے زیادہ ہے ، ہر درجے میں یہاں کی آگ کے برابر گرمی ہے۔”
( صحیح مسلم، کتاب الجنۃ وصفۃ نعیمھا واھلھا ،باب فی شدۃ حرنار جھنم ،رقم ۲۸۴۳ ، ص ۱۵۲۳)
پھر اپنے آپ سے یوں مخاطب ہوں :”اگر مجھے جہنم میں ڈال دیا گیا تو میرا یہ نرم ونازک بدن اس کے ہولناک عذابات کوکس طرح برداشت کر پائے گا ؟جبکہ جہنم میں پہنچنے والی تکالیف کی شدت کے سبب انسان پر نہ توبے ہوشی طاری ہوگی اور نہ ہی اسے موت آئے گی ۔ آہ! وہ وقت کتنی بے بسی کا ہوگاجس کے تصور سے ہی دل کانپ اٹھتا ہے ۔کیا یہ رونے کا مقام نہیں ؟ کیا اب بھی گناہوں سے وحشت محسوس نہیں ہوگی اور دل میں نیکیوں کی محبت نہیں بڑھے گی ؟کیا اب بھی بارگاہِ خداوندی عزوجل میں سچی توبہ پر دل مائل نہیں ہوگا ؟” امید ہے کہ بار بار اس انداز سے فکر ِ مدینہ کرنے کی برکت سے دل میں ندامت پیدا ہوجائے گی اور سچی توبہ کی توفیق مل جائے گی ۔ ان شاء اللہ عزوجل
(iii)گناہ کو آئندہ نہ کرنے کا پختہ ارادہ کیاجائے:
یعنی اپنے دل میں اس بات کا پختہ اور مضبوط ارادہ کرے کہ آئندہ کبھی ان گناہوں کا ارتکاب نہیں کروں گا ۔ چنانچہ اگر کوئی شخص فی الحال تو گناہ چھوڑ دے لیکن دل میں ہو کہ دوبارہ اگر موقع ملا تو کرلوں گا یا سرے سے اس گناہ کو چھوڑنے کا ارادہ متزلزل ہو تو ایسا شخص وقتی طور پر گناہوں سے رک جانے کے باوجود تائب نہیں کہلائے گا بلکہ گناہ پر قائم رہتے ہوئے توبہ کرنے والوں کو سرکارِ دو عالم انے اپنے رب عزوجل سے مذاق کرنے والا قراردیا ہے چنانچہ حضرت ابن عباس رضي الله تعا عنه سے مروی ہے کہ گناہ پر قائم رہ کر توبہ کرنے والااپنے رب عزوجل کا مذاق اُڑانے والے کی طرح ہے۔”
(شعب الایمان ، باب فی معالجۃ کل ذنب بالتو بۃ ، رقم ۷۱۷۸ ،ج ۵ ، ص ۴۳۶)
(iv) گناہوں کی تلافی کرے :
اس سلسلے میں انسان کو چاہيے کہ بالغ ہونے سے لے کر اب تک اپنی تمام سابقہ زندگی کے ہر لمحے ،ہرگھڑی ، ہر دن ، ہرسال کا تفصیلی محاسبہ کرے کہ وہ کن کن گناہوں اور کوتاہیوں میں ملوث رہا ہے ؟ اس کے کانوں، آنکھوں ، ہاتھ پاؤں، پیٹ ، زبان ،دل ، شرم گاہ اور دیگر اعضاء سے کون کون سے گناہ سرزد ہوئے ہیں ؟اس غوروفکر کے نتیجے میں سامنے آنے والے گناہوں کی ممکنہ طور پر چھ(6) قسمیں بن سکتی ہیں ،۔۔۔۔۔۔
(۱) بعض گناہ وہ ہوں گے جن کاتعلق حقوق اللہ عزوجل سے ہوتا ہے۔جیسے نماز ، روزہ ،حج،قربانی اورزکوۃ وغیرہ کی ادائیگی میں سستی کرنا،بدنگاہی کرنا، قرآن ِ پاک کو بے وضو ہاتھ لگانا، شراب نوشی کرنا ، فحش گانے سنناوغیرھا۔
(۲) بعض ایسے ہوں گے جن کا تعلق بندوں کے حقوق سے ہوتا ہے۔جیسے
چوری ،غیبت ،چغلی ،اذیت دینا ، ماں باپ کو ستانا ،امانت میں خیانت کرنا،قرض لے کر دبا لینا وغیرھا۔
(۳) ان میں سے بعض گناہ وہ ہوں گے جن کا تعلق انسان کے ظاہر سے ہوتا ہے ،مثلاً قتل کرناوغیرہ اور بعض وہ ہوں گے جن کا تعلق انسان کے باطن سے ہوتا ہے مثلاً بدگمانی کرنا ، کسی سے حسد کرنا ، تکبر میں مبتلاء ہونا وغیرہ ۔
(۴) بعض گناہ وہ ہوں گے جو صرف توبہ کرنے والے کی ذات تک محدود ہوں گے ،مثلاً خودشراب پینا اور بعض ایسے ہوں گے جن کی طرف اس شخص نے کسی دوسرے کوراغب کیا ہوگا ،اسے گناہِ جاریہ بھی کہتے ہیں ۔ مثلاً کسی کو شراب نوشی کی ترغیب دینا یا فحش ویب سائٹ دیکھنے کی ترغیب دینا وغیرہ۔
(۵) بعض گناہ ایسے ہوں گے جو پوشیدہ طورپر کئے ہوں گے مثلاً اپنے کمرے میں فحش فلمیں دیکھنا جبکہ کچھ گناہ وہ ہوں گے جو اعلانیہ کئے ہوں گے مثلاًداڑھی منڈانا، سرعام شراب پیناوغیرہ
(۶) کچھ گناہ ایسے ہوں گے جن کے ارتکاب پر آدمی دائرہ اسلام سے خارج ہوکر کافر ہوجاتا ہے ۔مثلاً اللہ تعالیٰ کو ظالم کہنا ، سرکارِ دو عالم ا کی شان میں گستاخی کرنا۔
اس تقسیم کی بنا پر توبہ بھی مختلف نوعیت کی ہو گی ۔چنانچہ
(1) حقوق اللہ عزوجل سے تعلق رکھنے والے گناہ اگر کسی عبادت میں کوتاہی کی وجہ سے سرزد ہوں تو توبہ کرنے کے ساتھ ساتھ ان عبادات کی قضا بھی واجب ہے مثلاً اگر نمازیں فوت ہوئی ہوں یا رمضان کے روزے چھوٹے ہوں تو ان کا حساب لگائے اور ان
کی قضا کرے ،اگر زکوۃ کی ادائیگی میں کوتاہی ہوئی ہو تو حساب لگا کر ادائیگی کرے، اگر حج فرض ہوجانے کے باوجود ادا نہیں کیا تھا تو اب ادا کرے ، کبھی قربانی واجب ہوئی لیکن نہیں کی تو قربانی کے جانور کی قیمت صدقہ کرے ۔(بہار شریعت ،حصہ۱۵،ص۱۳۸)
اور اگر گناہوں کا تعلق عبادات میں کوتاہی سے نہ ہومثلاً بدنگاہی کرنا، شراب نوشی کرنا وغیرہ ،تو اِن پر ندامت وحسرت کا اظہار کرتے ہوئے بارگاہ ِ الہٰی ل میں توبہ کرے اور نیکیاں کرنے میں مشغول ہو جائے۔
(2) بندوں کے حقوق سے متعلق گناہ اگر ان کی عزت وآبرو میں دست اندازی کی وجہ سے سرزد ہوئے ہوں مثلاً کسی کوگالی بکی تھی یا تہمت لگائی تھی یا ڈرایا دھمکایا تھا ، ۔۔۔۔۔۔ تو توبہ کی تکمیل اللہ تعالیٰ اور اس مظلوم سے معافی طلب کرنے سے ہوگی۔
اور اگر مالی معاملہ میں شریعت کی خلاف ورزی کی وجہ سے گناہ واقع ہوا تھا مثلاً امانت میں خیانت کی تھی یا قرض لے کر دبا لیا تھا تو اللہ تعالیٰ اور اس مظلوم سے معافی طلب کرنے کے ساتھ ساتھ اسے اس کا مال بھی لوٹائے اور اگر وہ شخص انتقال کر گیا ہو تو اس کے ورثاء کو دے دے یا پھر اس شخص یااس کے ورثاء سے معاف کروا لے ،اگر یہ بھی نہ کر سکے تو اتنا مال اس مظلوم کی طرف سے اس نیت کے ساتھ صدقہ کردے کہ اگر وہ شخص یا اس کے ورثاء بعدمیں مل گئے اور انہوں نے اپنے حق کا مطالبہ کیا تو میں انہیں ان کا حق لوٹا دوں گا اور ان کے لئے دعائے مغفرت کرتا رہے ۔
(3) ظاہری گناہوں سے توبہ کا طریقہ تو اوپر گزر چکا لیکن باطنی گناہوں سے بھی توبہ کرنے سے ہرگز غفلت نہ کرے ۔چنانچہ اپنے دل پر غور کرے اور اگر حسد ، تکبر ، ریاء کاری، بغض، کینہ ، غرور، شماتت، اپنی ذات کے لئے غصہ کرنا اوربدگمانی جیسے
گناہ دکھائی دیں تو نادم وشرمسار ہوکر بارگاہ ِ الہٰیل میں معافی طلب کرے ۔
(4) جو گناہ اس کی ذات تک محدود ہوں ان سے مذکورہ طریقے کے مطابق توبہ کرے اور اگر گناہِ جاریہ کا ارتکاب کیا ہو توجس طرح اس گناہ سے خود تائب ہوا ہے اس کی ترغیب دینے سے بھی توبہ کرے اور دوسرے شخص کو جس طرح گناہ کی رغبت دی تھی اب توبہ کی ترغیب دے ، جہاں تک ممکن ہو نرمی یا سختی سے سمجھائے ،اگر وہ مان جائے تو فبھا ورنہ یہ بریئ الذمہ ہوجائے گا ۔
(فتاویٰ رضویہ،ج۱۰،نصف اول، ص۹۷)
(5) جو گناہ بندے اور اس کے رب عزوجل کے درمیان ہو یعنی کسی پر ظاہر نہ ہوا ہو تو اس کی توبہ پوشیدہ طور پر کرے یعنی اپنا گناہ کسی پر ظاہر نہ کرے اور اگر گناہ اعلانیہ کیا ہو تو اس کی توبہ بھی اعلانیہ کرے یعنی جن لوگوں کے سامنے گناہ کیا تھا ان کے سامنے توبہ کرے یا اتنی تعداد میں دوسرے لوگوں کے سامنے توبہ کر لے یا کسی حرج کی بنا پرکم ازکم دو افراد کے سامنے توبہ کر لے تو اس کی توبہ صحیح مانی جائے گی ۔
(فتاویٰ رضویہ،ج۱۰،نصف اول، ص۲۵۵)
حضرت سيدنا معاذ بن جبل رضي اللہ تعالی عنہ سے روايت ہے کہ ميں نے عرض کيا : ”يارسول اللہ امجھے کوئی نصيحت فرمائيں ۔”آپ انے ارشاد فرمايا :”جہاں تک ممکن ہو اپنے اوپر اللہ عزوجل کا خوف لازم کر لو ،ہر شجر کے پاس اللہ عزوجل کا ذکر کرتے رہواور جب کوئی برا کام کر بیٹھو تو ہر برے کام کے ليے نئی توبہ کرو ،اگر گناہ خفيہ کيا ہو تو توبہ بھی خفيہ کرو اوراگر گناہ علانيہ ہے تو توبہ بھی علانيہ کرو ۔” (المعجم الکبیر ،رقم ۳۳۱ ، ج ۲۰ ،ص ۱۵۹)
کنزالعمال میں ہے کہ سرورِ کونین ا نے فرمایا :”جب تجھ سے نیا گناہ ہو فوراً نئی توبہ کر ،پوشیدہ کی پوشیدہ اور اعلانیہ کی اعلانیہ ۔”
(کنز العمال ،کتاب التو بۃ ، الفصل الاول فی فضلھا ..الخ ،رقم ۱۰۲۴۴ ، ج ۴ ، ص ۹۲)
(6) اگر معاذ اللہ عزوجل کلمہ کفر یا کوئی ایسا فعل صادر ہوجائے جس سے انسان کافرہو جاتا ہے تو فوراً توبہ کر کے تجدیدایمان کر لینی چاہيے