خوفِ خدا عَزَّوَجَلَّ کے سبب آنکھ نکال دی:
خوفِ خدا عَزَّوَجَلَّ کے سبب آنکھ نکال دی:
منقول ہے، ایک مرتبہ حضرت سیِّدُنا عیسیٰ بن مریم علٰی نبیناوعلیہما الصلٰوۃ والسلام شہرسے باہر تشریف لائے تاکہ لوگوں
کے لئے بارش طلب کریں لیکن اللہ عَزَّوَجَلَّ نے وحی فرمائی : ”اے عیسیٰ! بارش کامطالبہ نہ کرو کیونکہ تمہارے ساتھ خطاکار ہیں۔” حضرت سیِّدُنا عیسیٰ بن مریم علٰی نبیناوعلیہما الصلٰوۃ والسلام نے انہیں اس با ت کی خبر دی اور اعلان فرمایا:” ہمارے ساتھ جو بھی گنہگار ہے وہ جدا ہو جائے۔” راوی فرماتے ہیں:”سوائے ایک شخص کے تمام لوگ چلے گئے۔ اس کی دائیں انکھ خراب تھی۔ آپ علیہ الصلٰوۃ والسلام نے اس سے پوچھا:”تم لوگوں کے ساتھ کیوں نہیں گئے ۔”اس نے عرض کی :”اے روح اللہ(علیہ الصلٰوۃ والسلام)! میں نے ایک لمحہ بھی اللہ تعالیٰ کی نافرمانی نہیں کی۔ ایک دن بلا ارادہ ایک عورت کے پاؤں پر نظر پڑی تھی تو میں نے اس آنکھ کو نکال دیا۔اگر میری دوسری آنکھ پڑتی تو اسے بھی نکال پھینکتا۔”راوی فرماتے ہیں:”یہ سن کرحضرت سیِّدُناعیسیٰ بن مریم علٰی نبینا وعلیہما الصلٰوۃ والسلام رونے لگ گئے یہاں تک کہ آنسوؤں سے رِیش مبارک تر ہو گئی۔پھر آپ علیہ الصلٰوۃ والسلام نے اس نیک بندے سے ارشاد فرمایا:”ہمارے لئے بارگاہِ الٰہی عَزَّوَجَلَّ میں دعاکریں۔”اس نے عرض کی : ”اللہ عَزَّوَجَلَّ کی پناہ کہ (آپ کے ہوتے ہوئے )میں دعا کروں حالانکہ آپ رُوحُ اللہ اورکَلِمَۃُ اللہ ہیں ۔ ” پھرحضرت سیِّدُنا عیسیٰ بن مریم علٰی نبینا وعلیہما الصلٰوۃ والسّلام نے دعا کے لئے اپنے ہاتھ بلند کر لئے اور عرض کی : ”یااللہ عَزَّوَجَلَّ ! تو نے ہمیں پیدا فرمایا اور تو ہی ہمارے رزق کاکفیل ہے لہٰذا اب ہم پرموسلا دھار بارش نازل فرما۔” ا بھی حضرت سیِّدُنا عیسیٰ علیہ السلام کی دعا ختم نہ ہوئی تھی کہ بارانِ رحمت برسنے لگی اور تمام شہروں اور مخلوق پر کھل کر برسی۔ (عیون الحکایات ، الحکایۃخامس والاربعون،ص۶۴)
اے میرے اسلامی بھائی! دنوں اور مہینوں کے گزرنے کے ساتھ زمانے نے ہمیں نصیحت کی، ہم نے مسرت کے بعد غم دیکھ لیا اور جان لیا کہ زمانہ اپنے اہل کو مصائب وآلام میں مبتلا کرتا ہے اور ہمیں یقین ہو گیاکہ بالآخر قبروں کا منہ دیکھنا ہے۔ پس پرہیز گار ہی حقیقی شکر گزار ہے۔ دنیا نے کتنے چاند جیسے حسینوں کو چھپا دیا اور کتنے محلات ومکانات ویران ہو گئے۔ تو کیا اب بھی ہماری آنکھیں نابینایا اندھی ہیں۔بلکہ،اللہُ بصیرعَزَّوَجَلَّ تو ارشاد فرماتا ہے:
(4) فَاِنَّہَا لَا تَعْمَی الْاَبْصَارُ وَلٰکِنۡ تَعْمَی الْقُلُوۡبُ الَّتِیۡ فِی الصُّدُوۡرِ ﴿46﴾
ترجمۂ کنزالایمان:تو یہ کہ آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں بلکہ وہ دل اندھے ہوتے ہیں جو سینوں میں ہیں۔(پ17،الحج :46)