اِجابت دعا
حضورِ اَقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے معجزات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ آپ جو دعا فرماتے وہ بارگاہِ رب العزت میں قبول ہوتی یہ باب نہایت وسیع ہے نظر بر اِختصار صرف چند مثالیں درج کی جاتی ہیں ۔ (2 )
حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی ماں نے حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی خدمت میں عرض کی: یارسول اللّٰہ ! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم انس آپ کا ادنیٰ خادم ہے اس کے حق میں دعائے خیر فرمائیں ۔ پس آپ نے یوں دعا فرمائی: ’’ یااللّٰہ ! تو اس کا مال و اولاد زیادہ کراور جو نعمت تو نے اسے دی ہے اس میں برکت دے۔ ‘‘ (3 ) ایک روایت یہ بھی ہے کہ تو اس کی عمر زیادہ کر اور بہشت ( 4) میں میرا رفیق بنا۔ یہ دعا ایسی مقبول ہوئی کہ حضرت انس رَضِیَ اللّٰہُ
تَعَالٰی عَنْہُ کے باغ میں کھجوروں کے درخت سال میں دو دفعہ پھل دیتے۔ ان کی اولاد سو سے زیادہ تھی۔ ایک کم سو برس کی عمر پائی۔ اخیر عمر میں فرماتے تھے کہ مجھے امید ہے کہ حسب دعائے جناب مصطفی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم میں بہشت میں آپ کا رفیق بھی ہوں گا۔
اسی طرح حضور عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام نے حضرت عبدالرحمن بن عوف رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے حق میں دعا فرمائی تھی کہ اللّٰہ تجھے برکت دے۔ اس دعا کی برکت سے اللّٰہ تعالٰی نے حضرت عبدالرحمن رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کوتجارت میں اس قدر نفع دیا کہ جب ۳۱ھ میں انہوں نے وفات پائی تو ان کے ترکہ کا سونا کلہاڑیوں سے کھودا گیا یہاں تک کہ کثرت کا رسے ہاتھ زخمی ہوگئے اور ان کی چار بیویوں میں سے ہر ایک کو اسی ہزار دینار ملے۔ انہوں نے وصیت کی تھی کہ ایک ہزار گھوڑے اورپچاس ہزار دینار فی سبیل اللّٰہ خیرات کردیئے جائیں ۔ یہ تمام علاوہ ان صدقات کے تھا جو انہوں نے اپنی زندگی میں کیے۔ چنانچہ ایک روز تیس غلام آزاد کیے۔ ایک مرتبہ سات سو اونٹوں کا کارواں مع مال واسباب تصدق کر دیا۔ ایک دفعہ اپنا آدھا مال راہِ خدا میں دے دیا پھر چالیس ہزار دینار پھر پانچ سو گھوڑے پھر پانچ سو اونٹ تصدق کیے۔ ( 1)
جنگ احد میں حضرت سعد بن ابی وقاص رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُجناب رسول اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے آگے بیٹھے ہوئے تیر چلارہے تھے اوریوں کہہ رہے تھے۔ ’’ یااللّٰہ ! یہ تیرا تیر ہے اس سے تو اپنے دشمن کو ہلاک کر۔ ‘‘ اور حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم فرما رہے تھے: ’’ یااللّٰہ! اس کا نشانہ درست کردے اور اس کی دعا قبول کرلے۔ ‘‘ ( 2) آپ کی دعا سے حضرت سعد رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ مستجاب الدعوات بن گئے جو دعا کرتے قبول ہوتی اور جو تیر پھینکتے وہ کبھی خطا نہ کرتا۔
اسی طرح حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے دعا فرمائی تھی کہ یااللّٰہ ! اسلام کو عمر بن الخطاب یا عمرو بن ہشام (ابوجہل) کے ساتھ عزت دے۔ ( 3) یہ دعا حضرت عمر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے حق میں قبول ہوئی وہ ایمان لائے اور اس دن سے اسلام کو عزت و غلبہ حاصل ہوا۔
حضرت عبداللّٰہ بن عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا کے حق میں حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے دعا کی تھی کہ ’’ یااللّٰہ! اس کو دین میں فقیہ بنادے۔ ‘‘ ( 1) اس دعا کی برکت سے حضرت ابن عباس رئیس المفسرین اور حَبْرالا مت بن گئے۔
ایک روز آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا کہ جو شخص میری اس دعا کے تمام ہونے تک اپنا کپڑا بچھائے رکھے گا وہ میری احادیث میں سے کبھی کچھ نہ بھولے گا۔ حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ بیان کرتے ہیں کہ میرے پاس ایک کملی کے سوا کوئی کپڑا نہ تھا میں نے کملی ہی بچھادی یہاں تک کہ آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے اپنی دعا تمام کی پھر میں نے اپنی کملی لپیٹ کر اپنے سینے سے لگا دی۔ قسم ہے اس ذات کی جس نے آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو حق دے کر بھیجا ہے کہ میں آپ کی احادیث کو آج تک نہیں بھولا۔ (2 )
جب حضرت طفیل بن عمرو دوسی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے دست مبارک پر اسلام لائے تو انہوں نے یوں عرض کیا: ’’ یارسول اللّٰہ! میری قوم میری اطاعت کرتی ہے۔ میں اس کے پاس جاتا ہوں اور اس کو دعوت اسلام دیتا ہوں آپ دعا فرمائیں کہ اللّٰہ تعالٰی مجھے ایسی نشانی عطا کرے جو ان کے برخلاف میری معاون ہو۔ ‘‘ حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے دعا فرمائی کہ یااللّٰہ! اس کے لئے ایک نشانی پیدا کر دے۔ یہ سن کر میں اپنی قوم کی طرف آیا جب میں گھاٹی ِکداء (3 ) میں پہنچا تو میری دونوں آنکھوں کے درمیان چراغ کی مانند ایک نور پیدا ہوا۔ میں نے دعا کی: یااللّٰہ ! اس نور کو میری پیشانی کے سوا کسی اور جگہ پیدا کردے کیونکہ میں ڈرتاہوں کہ میری قوم اس کو میری پیشانی میں مثلہ خیال کرے گی۔ پس وہ نور میرے چابک کے سرے پر لٹکتی ہوئی قندیل کی طر ح ہوگیا۔ پھر میں نے اپنی قوم کو دعوت اسلام دی مگروہ ایمان نہ لائے۔ میں نے رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی خدمت میں حاضر ہو
کر عرض کیا کہ قبیلہ دَوس نے میری اطاعت سے انکار کردیاہے آپ ان پر بددعا فرمائیں ۔ آپ نے بجائے بد دعا کے دعائے ہدایت فرمائی اور مجھ سے ارشاد فرمایا کہ ان کو نرمی سے دعوتِ اسلام دو۔ میں تعمیل ارشاد کرتارہایہاں تک کہ رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ہجرت کرکے مدینہ میں تشریف لے آئے پھر میں اپنی قوم کے ستر یا اسی اشخاص کے ساتھ جو ایمان لائے تھے خدمت اقدس میں حاضرہوا۔ ( 1)
حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی خدمت میں عرض کیا: یارسول اللّٰہ! میں اپنی ماں کو اسلام کی دعوت دیتا ہوں مگر وہ قبول نہیں کرتیں آپ دعا فرمائیں ۔ حضور نے یہ سن کر دعا فرمائی اور وہ ایمان لائی۔ جیسا کہ پہلے آچکا ہے۔
حضرت نابغہ (نابغہ بنی جعدہ ) بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو شعر سنایا۔ آپ نے پسند فرمایا اور میرے حق میں یوں دعا فرمائی: ’’ اللّٰہ تیرا دانت نہ گرائے۔ ‘‘ حضرت نابغہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی عمر سو سال سے زائد ہوگئی مگر آپ کا کوئی دانت نہ گرا۔ (2 )
حضرت ثابت بن زید رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے عرض کیا: ’’ یارسول اللّٰہ! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم میرا ایک پاؤں لنگڑا ہے زمین پر نہیں لگتا۔ ‘‘ حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے میرے حق میں دعا فرمائی وہ پاؤں چنگا (3 ) ہو گیا اور دوسرے کی طرح زمین پر برابر لگنے لگا۔ (4 )
حضرت عروۃ البارقی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے لئے حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے دعا فرمائی کہ یااللّٰہ! اس کے سودے میں برکت دے۔ اس کے بعد حضرت عروہ جو چیز خریدتے خواہ وہ مٹی ہو اس میں نفع ہی ہوتا۔ (5 )
ہجرت کے وقت جب حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم غار ثو ر سے نکل کر مدینہ کی طرف روانہ ہوئے تو سراقہ
بن مالک گھوڑے پر سوار آپ کے تعاقب میں بالکل قریب آگیا۔ حضرت صدیق اکبر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے عرض کیا: یارسول اللّٰہ! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ہمیں تو آلیا۔ آ پ نے فرمایا کہ غم نہ کر کیونکہ اللّٰہ ہمارے ساتھ ہے۔ جب دو تین نیزے کا فاصلہ رہ گیا تو آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے دعا فرمائی کہ یااللّٰہ ! تو جس طرح چاہے ہم کو بچا۔ اس پر سراقہ کا گھوڑا پیٹ تک زمین میں دھنس گیا۔ یہ دیکھ کر سراقہ نے عرض کیا: یامحمد ! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم میں جانتا ہوں کہ یہ آپ کا کام ہے۔ آپ اس مصیبت سے میری نجات کے لئے دعا فرمائیں ۔ اللّٰہ کی قسم! میں کسی کو تعاقب میں آپ تک نہیں آنے دوں گا۔ چنانچہ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی دعا سے سراقہ نے نجات پائی اوروہ واپس چلاگیا۔ راستے میں جس سے ملتا اسے یہ کہہ کر موڑ لیتا کہ میں نے بہت ڈھونڈاحضرت ادھر نہیں ہیں ۔ (1 )
حضورصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی تشریف آوری سے پہلے مدینہ میں طاعون ووباسب سے زیادہ رہا کرتی تھی۔ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی دعا سے ایسی دور ہوئی کہ آج تک وہ مبارک شہر وباء و طاعون سے محفوظ ہے اور محفوظ رہے گا۔
آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ابو لہب کے بیٹے عتیبہ پر بد دعا فرمائی چنانچہ اس کوایک شیر نے پھاڑ ڈالا (2 ) جیسا کہ آگے مفصل بیان ہوگا۔
جب قریش نے ایمان لانے سے انکار کردیا توحضورصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے دعافرمائی: یااللّٰہ! ان پر حضرت یوسف کے سات سالوں کی طرح سات سال قحط لا، چنانچہ ایسا ہی ہوا اور یہاں تک نوبت پہنچی کہ قریش نے مردار اور ہڈیاں کھائیں ۔ ابوسفیان نے آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی خدمت میں عرض کیا: یامحمد ! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم آپ کی قوم ہلاک ہوگئی اللّٰہ سے دعا کیجئے کہ قحط دور ہوجائے۔ پس آپ نے دعا فرمائی اور وہ مصیبت دور ہوگئی۔ ( 3)
حضورصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے کسریٰ پرویز کو جودعوت اسلام کا خط لکھا تھا، اس نے اسے پڑھ کر پھاڑ دیا، جب آپ نے یہ سنا تو فرمایا کہ اس کا ملک پارہ پارہ ہوجائے۔ چنانچہ ایساہی ہو ا کہ فارس سے اکاسرہ کی سلطنت ہمیشہ کے لئے جاتی رہی۔ ( 1)
حکم ابن ابی العاص نے حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے ساتھ استہزاء کرنے کے لئے اپنا منہ ٹیڑھا کر لیا۔ حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا کہ اسی طرح رہے۔ چنانچہ وہ کج دہان ہی رہا یہاں تک کہ مرگیا۔ (2 )
جناب سرور کائنات عَلَیْہِ اُلُوْفُ التَّحِیَّۃ وَالصَّلٰوۃ نے محلم بن جثامہ (3 ) کوایک سریہ میں بھیجا تھا جس پر عامر بن الاضبط کو امیر بنایاتھا۔ جب وہ ایک وادی کے درمیان پہنچے تو محلم نے عامر کو ایک معاملے کے سبب جو دونوں میں تھا دھوکے سے قتل کردیا۔ جب حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو اس کی اطلاع ہوئی تو آپ نے دعا فرمائی کہ محلم کو زمین قبول نہ کرے۔ اس دعا کے سات دن بعد محلم مرگیا جب اس کو دفن کیا گیا تو زمین نے اس کو پھینک دیا۔ اسی طرح کئی دفعہ کیا گیا مگر زمین نے قبول نہ کیا آخرکار اس کو ایک غارمیں پھینک دیا گیااور پتھروں کی ایک دیوار اس پر بنادی گئی۔ ( 4)
حضرت انس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے زمانے میں قحط پڑا۔ جمعہ کے دن حضور منبر پر خطبہ پڑھ رہے تھے کہ ایک بادیہ نشین عرب ( 5) آ پ کے پاس آیا اور یوں عرض کرنے لگا: ’’ یارسول اللّٰہ! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ہمارے مال ضائع ہوگئے اور بال بچے بھوکے مررہے ہیں ۔ آپ ہمارے حق میں دعا فرمائیں ۔ ‘‘ یہ سن کر آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے دونوں ہاتھ اٹھائے اس وقت آسمان پر کوئی بادل نظر نہ آتا تھا۔ ( 6) قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے آپ نے ہاتھ نہ چھوڑے تھے کہ پہاڑوں کی
مثل بادل اٹھا۔ پھر آپ منبر سے نہ اترے یہاں تک کہ میں نے دیکھا کہ بارش کا پانی آپ کی ریش مبارک پر سے نیچے گررہاہے۔ اس طرح جمعۂ آیندہ تک بارش ہوتی رہی۔ پھروہی بادیہ نشین عرب آیا اور عرض کرنے لگا: ’’ یارسول اللّٰہ! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ہمارے مکانات گرگئے۔ ‘‘ آپ نے ہاتھ اٹھاکے دعا فرمائی: ’’ یااللّٰہ! ہمارے گرد مینہ برسا اور ہمارے مکانات سے دور رکھ۔ ‘‘ پس جس طرف آپ اشارہ فرماتے بادل دور ہوجاتا یہاں تک کہ مدینہ گول گڑھے کی مانند ہوگیا اور وادیٔ قنات ( 1) میں ایک مہینہ تک پانی جاری رہا جس طرف سے کوئی آتاباران کثیر کی خبر لاتا۔ ( 2)
جب مسلمان غزوۂ تبوک (3 ) کے لئے نکلے تو گرمی کی شدت تھی۔ ایک پڑاؤ پر پیاس کی شدت سے یہ نوبت پہنچی کہ اونٹ ذبح کرتے اس کی لید نچوڑ کر پانی پی لیتے اور بقیہ کو اپنے جگر پر باندھتے۔ حضرت صدیق اکبر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے عرض کیا کہ دعا فرمائیے۔ چنانچہ حضور انور کی دعا سے پانی برسا اور مسلمانوں نے اپنے برتن بھر لئے۔ پھر جو دیکھا تو یہ بار ش حدود لشکر سے متجاوز نہ تھی۔ (4 )
آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ایک نابینا کواپنی ذات شریف سے توسل کا طریق بتایا اس نے ایسا ہی کیا اور بینا ہوگیا، (5 )
________________________________
1 – اشعۃ اللمعات،کتاب الفتن،باب فی المعجزات،ج۴،فصل اوَّل،ص۵۷۰ ۔علمیہ
2 – ان مثالوں کے لئے بخاری ومسلم وترمذی اور دلائل ابی نعیم ودلائل بیہقی اور طبرانی دیکھو ۔۱۲منہ
3 – الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ،۲۷۷۔انس بن مالک،ج۱،ص۲۷۶-۲۷۷۔ علمیہ
4 – جنت۔
________________________________
1 – اسد الغابۃ،۳۳۶۴۔عبدالرحمن بن عوف،ج۳،ص۴۹۶۔۵۰۰ ۔علمیہ
2 – المستدرک علی الصحیحین،کتاب المغازی و السرایا،ذکر رمیۃ سعد یوم احد۔۔۔الخ، الحدیث:۴۳۷۰، ج۳، ص۵۶۶ ۔علمیہ
3 – سنن الترمذی،کتاب المناقب،باب فی مناقب ابی حفص عمر بن الخطاب، الحدیث:۳۷۰۳،ج۵،ص۳۸۴ ۔علمیہ
________________________________
1 – صحیح البخاری،کتاب الوضوئ،باب وضع الماء عند الخلائ، الحدیث:۱۴۳،ج۱،ص۷۴ ۔علمیہ
2 – مشکوٰۃ بحوالہ صحیحین، باب فی المعجزات۔ (مشکاۃ المصابیح،کتاب الفضائل والشمائل،باب فی المعجزات،الحدیث: ۵۸۹۶،ج۲،ص۳۸۷۔علمیہ)
3 – سیرتِ رسولِ عربی کے نسخوں میں یہاں ’’ گھاٹی ِکدار ‘‘ لکھا ہے یہ ہمیں نہیں ملا، البتہ الخصائص الکبریٰ اور دیگر کتب میں اس طرح ہے ’’ حتی اذا کنت بثنیۃ کداء وقع نور بین عینی ‘‘ لہٰذا کتابت کی غلطی پر محمول کرتے ہوئے ہم نے اس وادی کا نام ’’ کدار‘‘ کے بجائے’’ کداء ‘‘ لکھا ہے ۔علمیہ
________________________________
1 – الخصائص الکبریٰ،باب ما وقع فی اسلام الطفیل بن عمرو الدوسی،ج۱،ص۵ ۲۲ ۔علمیہ
2 – دلائل النبوۃ للبیہقی،باب ما جاء فی دعائہ لنابغۃ۔۔۔الخ،ج۶،ص۲۳۲ ۔علمیہ
3 – ٹھیک۔
4 – الخصائص الکبری للسیوطی،باب دعائہ لثابت بن زید،ج۲،ص۲۸۳ ۔علمیہ
5 – دلائل النبوۃ للبیہقی،باب ما جاء فی دعائہ لعروۃ البارقی۔۔۔الخ،ج۶،ص۲۲۰ ۔علمیہ
________________________________
1 – دلائل النبوۃ للبیہقی،باب اتباع سراقۃ بن مالک۔۔۔الخ،ج۲،ص۴۸۴۔۴۸۵ملتقطاً وملخصاً ۔علمیہ
2 – شرح الزرقانی علی المواہب،الفصل الثانی فی ذکر اولادہ الکرام،ج۴،ص۳۲۵ ۔علمیہ
3 – صحیح بخاری، تفسیر سورۂ دخان۔ (صحیح البخاری،کتاب التفسیر،سورۃ الدخان،الحدیث:۴۸۲۲۔۴۸۲۴،ج۳، ص۳۲۳ملتقطاً ۔علمیہ)
________________________________
1 – دلائل النبوۃ للبیہقی،باب ما جاء فی الجمع بین قولہ: اذا ہلک قیصر۔۔۔الخ،ج۴،ص۳۹۳۔۳۹۴ملتقطاً ۔علمیہ
2 – الخصائص الکبریٰ، باب الآیۃ فی الحکم ابن ابی العاص،ج۲،ص۱۳۲ ۔علمیہ
3 – سیرتِ رسولِ عربی کے نسخوں میں یہاں ’’ محلم بن جشامہ ‘‘ لکھا ہے جبکہ’’ دلائل النبوۃ للبیہقی ‘‘ اور دیگر کتب میں ’’ مُحَلِّم بن جَثَّامہ ‘‘ ہے لہٰذا کتابت کی غلطی پر محمول کرتے ہوئے ہم نے یہاں ’’ محلم بن جشامہ ‘‘ کے بجائے’’ مُحَلِّم بن جَثَّامہ ‘‘ لکھا ہے۔علمیہ
4 – دلائل النبوۃ للبیہقی،باب: السریۃ التی قتل فیھا محلم۔۔۔الخ،ج۴،ص۳۰۶ ۔علمیہ
5 – عرب کے دیہات میں رہنے والا۔
6 – یعنی مدینہ کے اطراف میں بادل تھا اور مینہ برستا تھا مگر مدینہ پر نہ بادل تھا نہ مینہ برستا تھا۔۱۲منہ
________________________________
1 – قنات ایک وادی کانام ہے جو طائف کی طرف سے آتی ہے اور کوہِ احد میں شہداء کی قبروں تک پہنچتی ہے۔۱۲منہ
2 – صحیح البخاری،کتاب الجمعۃ،باب الاستسقاء فی الخطبۃ۔۔۔الخ،الحدیث:۹۳۳،ج۱،ص۳۲۱ ۔علمیہ
3 – صحیح بخاری، تفسیر سورۂ دخان۔
4 – المواھب اللدنیۃ مع شرح زرقانی،المقصد الرابع۔۔۔الخ،تفجر الماء ببرکتہ۔۔۔الخ،ج۷، ص۳۶۔ ۳۷ملخصاً ۔علمیہ
5 – المعجم الکبیرللطبرانی،باب ما اسند الی عثمان بن حنیف،الحدیث:۸۳۱۱،ج۹،ص۳۱ ۔علمیہ
6 – یہ واقعہ صفحہ نمبر708 پر مُلاحظہ فرمائیے!