رَدُّ الشّمس
حضرت اَسماء بنت عمیس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا فرماتی ہیں کہ ایک دفعہ صہبائ (1 ) میں نبی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکی طرف وحی آرہی تھی اور آپ کا سر مبارک حضرت علی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی گود میں تھا اس وجہ سے حضرت علی نے نماز عصر نہ پڑھی یہاں تک کہ آفتاب غروب ہوگیااور نبیصَلَّیاللّٰہُتَعَالٰیعَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے نماز عصر پڑھ لی تھی۔ آپ نے حضرت علی سے دریافت فرمایا: کیا تم نے نما ز عصر پڑھ لی؟ حضرت علی نے عرض کیا: نہیں ! اس پر رسول اللّٰہصَلَّیاللّٰہ تعالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے فرمایا: (2 ) یااللّٰہ! یہ تیری طاعت میں اور تیرے رسول کی طاعت میں تھا تو اس کے لئے آفتاب کو واپس لا۔ حضرت اَسماء رَضِیَ اللّٰہ تَعَالٰی عَنْہَا فرماتی ہیں کہ میں نے آفتاب کو دیکھا کہ غروب ہوگیا تھاپھر میں نے دیکھا کہ غروب ہونے کے بعد نکل آیااور اس کی شعاع پہاڑوں اور زمین پر پڑی۔ ( 3)
رد الشمس (4 ) کی طرح حبس الشمس ( 5) بھی آنحضرتصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے لئے وقوع میں آیا ہے چنانچہ شب معراج کی صبح کو جب کفارِ قریش نے حضور صَلَّیاللّٰہ تعالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے اپنے قافلوں کے حالات پوچھے تو آپ نے ایک قافلہ کی نسبت فرمایا کہ وہ چہار شنبہ کے دن (6 ) آئے گا۔قریش نے اس کا انتظار کیا یہاں تک کہ سورج غروب ہونے لگا اور وہ قافلہ نہ آیا۔ اس وقت آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے دعا فرمائی تو اللّٰہ تعالٰی نے سورج کو
ٹھہرا رکھا اور دن میں اضافہ کردیا یہاں تک کہ وہ قافلہ آپہنچا۔ (1 )
________________________________
1 – عرب میں خیبر سے ایک منزل کے فاصلہ پر ایک مقام کانام ہے۔۱۲منہ
2 – اللّٰھمّ انّہ کان فی طاعتک وطاعت رسولک فاردد علیہ الشمس۔ ( شفاء و مواہب وخصائص کبریٰ) اس حدیث کو اما م طحاوی اور قاضی عیاض نے صحیح کہا ہے اور ابن منذر وابن شاہین وطبرانی نے اسے ایسے اسناد کے ساتھ ذکر کیاہے جن میں سے بعض صحیح کی شرط پر ہیں اور ابن مردویہ نے اسناد حسن کے ساتھ اسے روایت کیاہے۔۱۲منہ
3 – المواہب اللدنیۃ مع شرح الزرقانی،المقصد الرابع۔۔۔الخ،رد الشمس لہ،ج۶،ص۴۸۴-۴۸۵ والشفاء بتعریف حقوق المصطفی،الباب الرابع۔۔۔الخ،فصل فی انشقاق القمر وحبس الشمس،الجزء الاول،ص۲۸۴۔ علمیہ
4 – سورج کو واپس لانا۔
5 – سورج کو روک لینا۔
6 – بدھ کے دن۔