ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا
یہ امیر المؤمنین حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی صاحبزادی ہیں اور حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کی ازواج مطہرات رضی اللہ تعالیٰ عنہن میں سب سے زیادہ آپ کی محبوبہ ہیں۔ ان سے بہت زیادہ احادیث مروی ہیں ۔ فقہی معلومات میں بھی ان کا درجہ بہت ہی بلند ہے ۔ اکابر صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم ان سے مسائل دریافت فرمایا کرتے تھے ۔ صوم وصلوٰۃ اوردوسری عبادتوں وریاضتوں میں بھی آ پ ازواج مطہرات رضی اللہ تعالیٰ عنہن میں خصوصی امتیاز کے ساتھ ممتاز تھیں ۔
۵۷ھ یا ۵۸ھ میں بمقام مدینہ منورہ میں دنیائے فانی سے عالم آخرت کی طرف ان کی رحلت ہوئی اورجنت البقیع میں مدفون ہوئیں ۔ (2) (اکمال،ص۶۱۲)
کرامات
حضرت جبرائیل علیہ السلام ان کو سلام کرتے تھے
ان کی ایک کرامت یہ ہے کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام ان کو سلام کرتے تھے چنانچہ بخاری شریف میں ایک حدیث ہے کہ رسول اللہ عزوجل وصلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے فرمایا کہ اے عائشہ!یہ حضرت جبرائیل علیہ السلام ہیں جو تم کو سلام کہتے ہیں۔تو آپ نے
جواب میں عرض کیا: وَعَلَیْہِ السَّلَامُ وَرَحْمَۃُ اللہِ وَبَرَکَاتُہٗ.(1)
(بخاری،ج۱،ص۵۳۲)
ان کے لحاف میں وحی اُتری
حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے فرمایا کہ عائشہ( رضی اللہ تعالیٰ عنہا)کے سوا میری کسی دوسری بیوی کے کپڑوں میں مجھ پر وحی نہیں اتری اور حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہافرماتی ہیں کہ میں اور رسول اللہ عزوجل وصلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم ایک لحاف میں سوئے رہتے تھے اورآپ پر خدا تعالیٰ کی وحی نازل ہوا کرتی تھی ۔ (2) (مشکوٰۃ ،ج۲،ص۵۷۳ وکنزالعمال،ج۱۶،ص۲۹۷)
آپ کے توسل سے بارش
ایک مرتبہ مدینہ منورہ میں بارش نہیں ہوئی اورلوگ شدید قحط میں مبتلاہوکر بلبلا اٹھے جب لوگ قحط کی شکایت لے کر حضرت ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی خدمت اقدس میں پہنچے تو آپ نے فرمایا کہ میرے حجرہ میں جہاں حضور انور صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کی قبر انور ہے ،اس حجرہ مبارکہ کی چھت میں ایک سوراخ کردو تاکہ حجرہ منور ہ سے آسمان نظر آنے لگے ۔ چنانچہ جیسے ہی لوگوں نے چھت میں ایک سوراخ بنایافوراً ہی
بارش شروع ہوگئی اوراطراف مدینہ منورہ کی زمین سرسبزوشاداب ہوگئی اور اس سال گھاس اورجانوروں کا چارا بھی اس قدر زیادہ ہوا کہ کثرت خوراک سے اونٹ فربہ ہوگئے اور چربی کی زیادتی سے ان کے بدن پھول گئے ۔ (1)(مشکوٰۃ ،ج۲،ص۵۴۵)