ہاتھ میں کینسر(2)
حضرت عبداللہ بن عمررضی اللہ تعالیٰ عنہما راوی ہیں کہ امیر المؤمنین حضرت عثمان
غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ مسجد نبوی شریف کے منبر اقدس پر خطبہ پڑھ رہے تھے کہ بالکل ہی اچانک ایک بدنصیب اورخبیث النفس انسان جس کا نام "جہجاہ غفاری”تھا کھڑا ہوگیا اور آپ کے دست مبارک سے عصا چھین کر اس کو توڑ ڈالا۔ آپ نے اپنے حلم وحیاء کی و جہ سے اس سے کوئی مواخذہ نہیں فرمایا لیکن خدا تعالیٰ کی قہاری وجباری نے اس بے ادبی اورگستاخی پر اس مردود کو یہ سزاد ی کہ ا سکے ہاتھ میں کینسر کا مرض ہوگیا اوراس کا ہاتھ گل سڑ کر گرپڑا اوروہ یہ سزا پاکر ایک سال کے اندرہی مرگیا۔(1)
(حجۃ اللہ علی العالمین ج۲،ص۸۶۲وتاریخ الخلفاء،ص۱۱۲)
2…تنبیہ:ہماری تحقیق کے مطابق حضرت سیدنا جہجاہ بن سعید غفاری رضی اﷲ تعالٰی عنہ صحابیِ رسول ہیں اور ہمیں کسی کا بھی کوئی قول ایسا نہیں ملا جس میں انکے صحابی ہونے کی نفی ہو لہذا انکے لئے ایسے الفاظ ہرگز استعمال نہ کئے جائیں.
مصنف کی طرف سے عذر:کسی عام مسلمان سے بھی یہ تصور بھی نہیں کیا جاسکتا کہ وہ کسی صحابی کے بارے میں جان بوجھ کرکوئی نازیبا کلمہ استعمال کرے۔ یقیناً حضرت مصنف علیہ الرحمۃ کے علم میں نہ ہوگا کہ یہ صحابی ہیں کیونکہ یہاں جو معاملہ تھا وہ سیدنا عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ کے عصا کے توڑنے کا تھا جس کی وجہ سے شاید مصنف سے تسامح ہوگیا ورنہ وہ ہرگز ایسی بات صحابی رسول کیلئے نہ لکھتے کیونکہ مصنف نے خود اپنی کتب میں صحابہ کرام علیہم الرضوان کے فضائل بیان فرمائے ہیں جوکہ ان کے راسخ سنی صحیح العقیدہ اور عاشقِ صحابہ کرام علیہم الرضوان ہونے کی دلیل ہے ۔ صحابۂ کرام(علیہم الرضوان)کے بارے میں اسلامی عقیدہ:صحابۂ کرام علیہم الرضوان کے متعلق اہلسنت کا موقف ہے کہ(۱)صحابہ کرام رضی اﷲ تعالیٰ عنھم کے باہم جو واقعات ہوئے، ان میں پڑنا حرام، حرام، سخت حرام ہے، مسلمانوں کو تو یہ دیکھنا چاہیے کہ وہ سب حضرات آقائے دو عالم صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کے جاں نثار اور سچے غلام ہیں۔(۲)صحابہ کر ام رضی اﷲ تعالیٰ عنھم انبیا ء نہ تھے، فرشتہ نہ تھے کہ معصوم ہوں۔ ان میں بعض کے لیے لغزشیں ہوئیں مگر ان کی کسی بات پر گرفت اﷲو رسول عزوجل و صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے خلاف ہے۔ (بہار شریعت ۱؍253مطبوعہ مکتبۃ المدینہ)تفصیل: مذکورہ واقعہ کی تفتیش کرتے ہوئے ہم نے متعددعربی کتبِ سیر وتاریخ وغیرہ دیکھیں لیکن ان میں "بدنصیب اور خبیث النفس” یا اسکی مثل کلمات نہیں ملے چنانچہ "الاستیعاب” میں ہے:وروی أنّ جہجاہ ھذا ھو الذی تَناوَل العصا مِن یَدِ عثمان وھو یَخطبُ فکَسَرَھا یومئذ, فأَخَذتْہ الأَکِلۃُ فی رکبتہ وکانت عصا رسولِ اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم.(الاستیعاب فی معرفۃ الأصحاب334 /1) وفی "الإصابۃ” بلفظِ: فوضعہا علی رکبتہ فکسرھا….حتی مات. (الإصابۃ فی تمییز الصحابۃ – 1 ؍ 622)۔۔ترجمہ: اور مروی ہے کہ یہ وہی جہجاہ (بن سعید غفاری رضی اللہ عنہ)ہیں جنھوں نے بحالتِ خطبہ عثمانِ غنی (رضی اللہ عنہ)کے دستِ مبارک سے عصا (چھڑی ) چھین کر اپنے گھٹنے پر رکھ کر توڑ دیا تھا تو (سیدنا)جہجاہ (رضی اللہ عنہ)کو گھٹنے میں زخم ہوگیا یہاں تک کہ وہ رحلت فرما گئے۔ وہ عصا مبارک رسول ِ اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کا تھا.اِن کی صحابیت کے دلائل: کتب تراجم میں اِن کے متعلق بیان کیا گیا ہے کہ”وہ بیعتِ رضوان میں حاٖضر تھے” شَہِدَ بیعۃَ الرضوانِ بالحدیبیۃ۔ (الإصابۃ فی تمییز الصحابۃ 1؍621)اور متعدد کتب میں عصا توڑنے والا واقعہ انہی کا لکھا ہے ، جس کی تائید "استیعاب” سے بالخصوص ہوتی ہے کہ انھوں نے پہلے اِن کے ایمان لانے کا واقعہ بیان کیا اور پھر ” ھذا ھو الذی تَنَاوَلَ العَصَا” کے الفاظ کے ذریعے یہ واضح کر دیا کہ عصا توڑنے والا واقعہ انہی کا ہے۔ (الإستیعاب فی معرفۃ الأصحاب،1 ؍ 334)انکے صحابی ہونےکی صراحت اِن کتب میں بھی کی گئی ہے.(۱) (التمہید لما فی الموطأ من المعانی والأسانید) فلما أسلمتُ دعانی
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم إلی منزلہ فحلب لی عنزا ،7 . (230 (۲) (الثقات لابن حبان)وکان جہجاہ من فقراء المہاجرین وھو الذی أکل عند النبی صلی اللہ علیہ و سلم وهو کافر فأکثر ثم أسلم فأکل فقال لہ النبی صلی اللہ علیہ وسلم المؤمن یأکل فی معی واحد والکافر یأکل فی سبعۃ أمعاء (1؍280) (۳)(أسد الغابۃ) ثم أسلم فلم یستتم حلاب شاۃ واحدۃ (1؍451) (۴)(شرح مشکل الآثار للطحاوی) ثم إنہ أصبح فأسلم (1؍280)(حصہ دوم( (۵) شرح الزرقانی علی المؤطا. ثم أصبح فأسلم۔ (4،393)