کیا مؤمنین کی روحیں اپنے گھروں میں آتی ہیں ،اور کیا وہ دیکھتی ،سنتی ہیں؟
بسْم اللّہ الرّحْمٰن الرّحیْم
✒️ موت کے بعد مؤمنین کی روحیں آزاد ہو جاتی ہیں، جہاں چاہتی ہیں جاتی ہیں، اپنے گھروں میں بھی آتی ہیں، اپنے عزیز و اقارب اور بچوں سے ایصالِ ثواب کا مطالبہ بھی کرتی ہیں، اپنے گھر والوں کو دیکھتی بھی ہیں، ان کی باتیں بھی سُنتی ہیں اور ان کے اچھے اعمال پر خوش اور ان کے برے اعمال پر رنجیدہ بھی ہوتی ہیں، لہٰذا آپ چاہو یا نہ چاہو مؤمنین کی روحیں آپکے اعمال پر مطلع ہوتی ہیں🌻
📗حدیث شریف میں ہے
جب مسلمان مرتا ہے اس کی راہ کھول دی جاتی ہے کہ جہاں چاہے جائے”🌺
(مصنف ابن ابی شیبہ، کتاب الزہد، حدیث، 16571)
📓امامِ اہلسنت رضی اللّہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں
”موت کے بعد روح کی جاننے، سننے اور دیکھنے کی صلاحیت نہ صرف باقی رہتی ہے بلکہ پہلے سے بڑھ جاتی ہے”
(فتاویٰ رضویہ، ج9، ص658)
📔الاستذکار میں ہے
”کافروں کی روحیں مخصوص جگہوں پر قید ہوتی ہیں جبکہ مسلمانوں کی روحوں کے مختلف مقامات بھی مُقرر ہیں اور انہیں اور مقامات پر جانے کی اجازت بھی ہوتی ہے جیسا کہ حضرت سیدُنا امام مالک علیہ رحمۃ اللہ الخالق فرماتے ہیں:
”مؤمنوں کی اَرواح آزاد ہوتی ہیں جہاں چاہتی ہیں جاتی ہیں”💖
(الاستذکار، ج2، ص617، تحت الحدیث:292)
📙نبی کریمﷺ نے فرمایا:
”مؤمنین کی ارواح سبز پرندوں میں ہوتی ہیں، جنّت میں جہاں چاہیں سیر کرتی ہیں۔ عرض کی گئی: اور کافروں کی روحیں؟ ارشاد فرمایا: سِجین میں قید ہوتی ہیں”❇️
(اہوال القبور لابن رجب، ص182)
📒بہارِ شریعت میں ہے:
”مرنے کے بعد مسلمان کی روح حسبِ مرتبہ مختلف مقاموں میں رہتی ہے، بعض کی قبر پر، بعض کی چاہِ زمزم شریف (یعنی زم زم شریف کے کنویں) میں، بعض کی آسمان و زمین کے درمیان، بعض کی پہلے، دوسرے، ساتویں آسمان تک اور بعض کی آسمانوں سے بھی بلند اور بعض کی روحیں زیرِ عرش قندیلوں میں اور بعض کی اعلیٰ عِلیین میں مگر کہیں ہوں اپنے جسم سے اُن کو تعلق بدستور رہتا ہے۔ جو کوئی قبر پر آئے اُسے دیکھتے، پہچانتے، اُس کی بات سنتے ہیں بلکہ روح کا دیکھنا قُربِ قبر ہی سے مخصوص نہیں، اِس کی مثال حدیث میں یہ فرمائی ہے کہ ایک طائر (پرندہ) پہلے قفس (پنجرے) میں بند تھا اور اب آزاد کر دیا گیا”💛
(بہارِ شریعت، ج1، ص101)
📕فتاویٰ رضویہ شریف میں ہے
”غرائب اور خزانہ میں منقول ہے کہ مومنین کی روحیں ہر شب جمعہ، روز عید، روز عاشوراء اور شب براءت کو اپنے گھر آکر باہر کھڑی رہتی ہیں اور ہر روح غمناک بلند آواز سے ندا کرتی ہے کہ اے میرے گھر والو! اے میری اولاد! اے میرے قرابت دارو! صدقہ کرکے ہم پر مہربانی کرو”
(فتاویٰ رضویہ، جلد9، ص649−650)🌳
📓سیدی اعلیٰ حضرت علیہ الرحمۃ مزید ایک مقام پر فرماتے ہیں:
”بعض علماء محققین سے مروی ہے کہ روحیں شب جمعہ چھٹی پاتی اور پھیلتی جاتی ہیں، پہلے اپنی قبروں پر آتی ہیں پھر اپنے گھروں میں”💜
دستور القضاۃ مستند صاحب مائۃ مسائل میں فتاوی امام نسفی سے ہے:
”بے شک مسلمانوں کی روحیں ہر جمعہ کی رات اور جمعہ کے دن اپنے گھر آتی ہیں اور دروازے کے پاس کھڑی ہو کر درد ناک آواز سے پکارتی ہیں کہ اے میرے گھر والو! اے میرے بچو! اے میرے عزیزو! ہم پر صدقہ سے مہربانی کرو، ہمیں یاد کرو، بھول نہ جاؤ، ہماری غریبی میں ہم پر ترس کھاؤ”🔶
نیز خزانۃ الروایات مستند صاحب مائۃ مسائل میں ہے:
” ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنھما سے روایت ہے، جب عید یا جمعہ یا عاشورے کا دن یا شب براءت ہوتی ہے، اموات کی روحیں آ کر اپنے گھروں کے دروازوں پر کھڑی ہوتی اور کہتی ہیں: ہے کوئی کہ ہمیں یاد کرے؟ ہے کوئی کہ ہم پر ترس کھائے؟ ہے کوئی کہ ہماری غربت کی یاد دلائے؟“
(فتاوی رضویہ، جلد، 9ص،653)💟