اسلاممقاصد الاسلام

وعید کی پرواہ نہ کرنے کی قباحت

وعید کی پرواہ نہ کرنے کی قباحت

اب غور کیا جائے کہ جب آنحضرت ؐ نے ہمیشہ برے کاموںسے منع اور ان کے مرتکبوں کے لئے خاص خاص قسم کے عذا ب بیان فرمائے تو کیا نعوذ باللہ حضرت ؐ کا یہ فعل عبث ہو سکتا ہے ؟!!اگر فرض کیا جائے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی مجلس میں لوگوں سے فرمایا ہو کہ فلاں کام کرنے والے کو اس قسم کا عذاب ہوگا اور کوئی شخص ان لوگوں سے کہتا کہ مسلمانوں کو کچھ عذاب نہ ہوگا یہ صرف دھمکی اور ڈرانے کے لئے تے ہیں ، اور اس کی اطلاع حضرت ؐ کو ہوجا تی تو کیا حضرت ؐ اس شخص سے راضی رہتے ؟!عقل توہرگز قبول نہیں کرتی کہ جس کام کو حضرت علی اللہ علیہ وسلم بہ نفس نفیس اہتمام فرمائیں اورکوئی شخص اس کے خلاف میں گفتگو کرے وہ خلاف مرضی نہ ہو ؟! جب ہم جانتے ہیں کہ اب بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے امتیوں کے کاموں کی اطلاع ہوتی ہے تو یہ تسلیم کرناپڑے گا کہ اس قسم کی گفتگو کہ گناہ کرنے سے مسلمانوں کوکچھ ضرر نہ ہوگا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف مرضی ضررہوتی ہے،اورعلاوہ اس کا برا اثر تمدن پرپڑتا ہے کہ مسلمان جو جی چاہے کریں ان کوسب معاف ہے !حالانکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اسی غرض سے مبعوث ہوئے تھے کہ دنیا میں امن وامان قائم کرکے اس کو مزرعۃ الآخرہ بنائیں ۔ اور امن وامان بغیر اصلاح تمدن کے ممکن نہیں ۔
چند احادیث وعید :
اب ہم چند حدیثیں بطور مشتے نمونہ از خر وارے ’’نقل کر تے ہیں جن سے معلوم ہوگا کہ خدا ورسول کو عبادات اور اصلاح تمدن میں کس قدر اہتمام ہے :

ترغیب و ترہیب میںامام منذری ؒ نے کتب صحاح وغیرہ سے مندرجہء ذیل روایات نقل کی ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ ’’شرک و کفر میں فقط نماز کا فرق ہے ‘‘یعنی اگر نماز ترک کردی جائے تو آدمی مشرک اورکافر ہوجاتا ہے ۔ بلکہ یہ بھی صاف فرما دیا کہ جوشخص قصداً نماز ترک کرے وہ کافر ہوگیا ۔
اور فرمایا کہ : چار چیزوں کو خداے تعالیٰ نے اسلام میں فرض کیا ہے :رمضان کے روزے ،حج ، زکاۃ ، نماز ، اگر کوئی شخص ان میں سے تین کو بھی ادا کرے کچھ فائدہ نہیں جب تک کہ چاروں کو بجا نہ لائے ‘‘۔
اور :’’جو شخص نماز کی محا فظت نہ کرے یعنی ہر نماز کو وقت پر ادا نہ کرے وہ قیامت کے روز قارون ،فرعون ،ہامان، اور ابی ابن خلف کے ساتھ ہوگا ‘‘۔ یعنی بجائے اس سے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمرہ میں اس کا حشر ہو کفارکے ساتھ اس کا حشرہوگا ۔
اور فرمایا : جس شخص کے پاس سونا اور چاندی ہو اور وہ اس کی زکوۃ نہ دے تو قیامت کے روز اس اکی تختیاں بنائی جائیں گی اور ان کو دوزخ کی آگ میں گرم کرکے ان سے اس کی پیشانی اور بازو اور پیٹھ کو داغ دیتے جائیں گے ، جب وہ ٹھنڈے ہونے لگیں تو پھر گرم کرتے جائیں گے ، یہ عذاب دن بھر ہوتا رہا ہے گا جس کی مقدار پچاس ہزار سال کی ہے ، اس کے بعد دوزخی ہوتو دوزخ میں ڈال دیا جائے گا اور جنتی ہوتو جنت میں داخل کیا جائے گا ‘‘۔
اور فرمایا کہ : جو گوشت اور خون مال حرام کے کھانے سے پیدا ہو وہ جنت میں نہ جائے گا بلکہ نار جہنم کا وہ مستحق ہے ‘‘۔
اور فرمایا :جو شخص قسم کھاکر کچھ مال حاصل کرے یا کسی کاحق تلف کرے تو دوزخ اس کے لئے واجب ہوگی ‘‘ ۔
اور فرمایا :چار قسم کے لوگ ایسے ہیں جن کو اللہ تعالیٰ جنت میں نہ داخل کرے گا اورنہ اس کی کوئی نعمت اوک چکھا ئے گا :شرابی،ربا یعنی سود کھانے والا اور ماں باپ کا نافرمان ‘‘۔ اور فرمایا : کسی مسلمان کی بے عزتی کرنی ربا سے بڑھ کر گناہ ہے ‘‘۔ اور فرمایا : جس حاکم کا جور اور بے انصافی اس کے عدل پر غالب ہوا س کا مقام دوزخ ہے ‘‘۔
اور فرمایا کہ : ’’جس کو کوئی کام مسلمانوں سے متعلق تفویض کیا جائے اور وہ ان میں عدل اور انصاف نہ کرے تق تعالیٰ اس کودوزخ میںاوندھا ڈالے گا ‘‘۔
اور فرمایا کہ : رشوت دینے والا اورلینے والا اور جو رشوت پہو نچا نے میں واسطہ ہو ا ن سب پر خدا کی لعنت ہے ‘‘۔ یعنی آخرت میں رحمتِ الٰہی سے دور ہیں ۔
اور فرمایا کہ : رشوت دینے اور لینے والے دوزخ میں ڈالے جائیں گے ‘‘۔
اور فرمایا :تم جانتے ہو کہ مفلس کون ہے ؟صحابہ ؓ نے عرض کی :ہم تو اسی کومفلس سمجھتے ہیں جس کے پاس روپیہ اور متاع نہ ہو ۔ فرمایا :میری امت میں مفلس وہ شخص ہے جو قیامت میں ایسی حالت میں اٹھے کہ اس کے اعمال میں نماز ،روزہ اورزکاۃ سب کچھ موجود ہیں مگر اس کی حالت دنیا میں یہ تھی کہ کسی کو گالی دی ، کسی کا مال کھایا ، کسی کو مارا ،کسی کا خون بہا یا ،وہاں سب اہل حقوق آئیںگے اورہر ایک کواس کی نیکیاں دی جائیں گی اور کل حقوق کی ادئی سے پہلے اگر اس کی نیکیاں ختم ہو جائیں تو اہل حقوق کے گناہ اس پر ڈالے جائیں گے یہاں تک کہ وہ دوزخ میں ڈالا جائے گا‘‘۔ مطلب یہ کہ کوئی نیک کام اس کے کام نہ آئے گا ۔
اور فرمایا :’’جوشخص کسی ظالم کے ساتھ اس کی مدد کی غرض سے چلے اور وہ جانتا ہوکہ وہ ظالم ہے یعنی حق پر نہیں ہے تووہ اسلام سے خارج ہوگیا ‘‘۔
اور فرمایا : ’’ بادشاہ کوایسی بات سے راضی کرے جس میں خدا ے تعالیٰ کی ناخوشی ہو وہ اللہ کے دین سے نکل گیا ‘‘۔
اور فرمایا : ’’جو شحص مسلمان کے ضرر پر ایسی گواہی دے جو اس کے لائق نہیں تو چاۂے کہ وہ اپنا گھر دوزخ میں بنالے ‘‘۔ مطلب یہ کہ کوئی الزام

ناحق مسلمان کے ذمہ لگا نے والا گویا اپنے اختیار سے دوزخ میں جگہ لے لیتا ہے
اور فرمایا : ’’جھوٹی گواہی دینے والا میدان حشر میں قبل اس کے کہ اپنے مقام سے ہٹے حق تعالیٰ ا س کے لئے دوزخ واجب کردے گا اور وہ دوزخ میں ڈال دیا جائے گا ‘‘۔
اور فرمایا : جو شخص کسی مقدمہ کو جانتا ہے اورگواہی کے لئے بلانے پر واقعہ کو چپھا دے اورگواہی نہ دے اس کی بھی سزا ہوگی جو جھوٹی گواہی کی سزا ہے ‘‘۔
اور فرمایا : اللہ تعالیٰ نے شراب سے متعلق دس شخصوں کواپنی رحمت سے دور کردیا ہے :نچوڑنے والا ،جس نے اس کی فرمائش کی ،پینے والا ، لانے والا ، جس کے واسطے وہ لائی گئی ، ساقی ، بیچنے والا ، اس کی قیمت لینے والا ،خریدنے والا ، جس کے لئے وہ خریدی گئی ‘‘۔
اور فرمایا : شرابی کو مرنے کے بعد نہر غوطہ سے پلا یا جائے گا ،صحابہ نے عرض کی نہر غوطہ کیا چیزہے ؟ فرمایا : دوزخ میں زنا کا رعورتوں کے فرجوں سے رطو بتیں بہیں گی جس کی بدبو سے تمام دوزخیوں کو اذیت پہنچے گی ،وہ رطو بتیں شرابیوں کو پلا ئیجائیں گی۔
اور فرمایا کہ : خداے تعالیٰ پر حق ہے کہ شرابی کونہر خبال سے پلائے ،صحا بہ نے عرض کیا یا رسول اللہ( صلی اللہ علیہ وسلم ) نہر خبال کیا چیز ہے ؟فرمایا دوزخیوں کی پیپ وغیرہ آلائش بہنے کی جگہ ۔
اور فرمایا : زنا کرنے والوں کے چہرے آگے سے ایسے جلتے رہیں گے جیسی مشعلیں ‘‘۔اور فرمایا :زنا کرنے ولابت پرست کے جسیا ہے ‘‘۔بتوں کوپوجنے والوں کی جو سزائیں ہیں محتاج بیان نہیں ۔
اور فرمایا : لوگوں کو دھوکہ دینے والے اور احسان جتانے والے اور بخیل جنت میں داخل نہ ہوںگے ‘‘۔
اور فرمایا : بندہ حسن خلق کی وجہ سے آخرت کے بڑے درجوں اور بلند مقاموں تک پہونچتا ہے ،اور بد خلقی کی وجہ سے اس درجہ تک پہونچ جا تا ہے جودوزح میں سب سے نیچے ہے ‘‘۔ اور فرمایا : ’’بد خلقی سے بدتر کوئی گناہ نہیں ‘‘۔
اور فرمایا : دوشخص تین روز سے زیادہ ترک ملاقات کریں اور آپس میں بات چیت موقوف کریں اوراسی حالت پر مرجائیں تووہ دوزخ میں داخل ہوں گے ‘‘۔
ایک بار آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم البقیع کو تشریف لے گئے جو مدینہ طیبہ میں مسلمانوںکا مقبرہ ہے ،اور ایک مقام پر کھڑے ہوگئے جہاں دوقبریں نئی بنی تھیں اور پوچھا : کیا فلاں فلاں شخصوں کوتم نے ان قبروں میں دفن کیا ہے ؟ صحابہ نے عرض کی ہاں یا رسول اللہ ! حضرت ؐ نے فرمایا :فلاں شخص بٹھلا یا گیا ہے اورخدا کی قسم اُس پر اِس قدر مار پڑی کہ اس کا ہر عضو ٹوٹ گیا اوراس کی قبر میں آگ بھر گئی ہے اوراس نے اس زور سے چیخ ماری کہ سوائے انس وجن کے سب نے سنا ۔ لوگوں نے پوچھا : یا رسول اللہ ان کا کیا گناہ تھا ؟فرمایا : ایک شخص لوگوں کی غیبت کرتا تھا ، اوردوسرا پیشاب سے اپنے آپ کو بچا تا نہ تھا ۔ لوگوں نے عرض کی : یا رسو ل اللہ کب تک ان پر عذاب ہوتا رہے گا؟ فرمایا اس کا حال سوائے خداکے کسی کونہیں معلوم ۔
اور فرمایا :’’ جوشخص لوگوں کوہنسا نے کی غرض سے ایسی بات کہے جو مرضیِ الٰہی کے خلاف اور باعثِ غضب ہوتو خدا ے تعالیٰ اس سے کبھی راضی نہ ہوگا جب تک اس کو دوزخ میں نہ ڈالے ‘‘۔
اور فرمایا :’’حسد نیکیوں کو ایسا کھا جا تا ہے جسے آپ گھاس کو ‘‘۔اور فرمایا :’’جو شخص سخت گو متکبر ہے وہ دوزخی ہے ‘‘۔
اور فرمایا : دوزخ میں یہ لوگ داخل ہوںگے : حاکم جو لوگوں پر مسلط ہوگیا ہو یعنی زبر دستی اور ظلم کرتا ہو ، وہ مالدار جومال سے متعلق حقوق اللہ کو ادا نہیں کرتا ،فخر کرنے والا فقیر ‘‘۔اور فرمایا : جس کے دل میں رائی برابر تکبر ہو اس کو خدا ے تعالیٰ دوزخ میں ڈالے گا ‘‘۔
اور فرمایا : ایماندار میں اور دوسری خصلتیں ہوںگی مگر خیانت اور جھوٹ نہیںہوسکتیں ‘‘۔ اور فرمایا : جھوٹ منہ کوکالا کرنے والا ہے اور چغلی

باعث عذاب قبر ہے ‘‘۔ اور فرمایا :جس میں امانت داری نہیں اس میں ایمان نہیں ، او رجس کو عہد واقرار کی پا بندی کا پا سن نہیں اس کودین سے کوئی تعلق نہیں ‘‘۔
یہ تمام وعیدیں مسلمانوں سے متعلق ہیں کیونکہ نماز،روزہ وغیرہ فروع ہیں ،اور جب تک خدا اور اس رسول پر ایمان نہ لائے اس سے یہ احکام متعلق نہیں ہوتے ۔ اب اگر یہ خیال کیا جائے کہ کوئی مسلمان دوزخ میں نہ جائے گا خواہ کتنے ہی گنا ہ کرے تو قرآن و حدیث کی تکذیب لازم آتی ہے ۔ عقل بھی ہرگز یہ تسلیم نہیں کرتی کہ کوئی مسلمان کسی مسلمان کامال زبردستی لے لے اوراس کی عورت و بچوں پر قابض ہوجائے اور اقسام کی اذیتیں ان کودے اور ان کی بے حرمتی کرے ، باوجود اس کے اس عالم میں کوئی سزا اس کو نہ ہو ۔

Related Articles

Back to top button
error: Content is protected !!