اسلام

نیک لوگون کی نرالی شانیں

  نیک لوگون کی نرالی شانیں

حمد ِ باری تعالیٰ:

سب خوبیاں اللہ عَزَّوَجَلَّ کے لئے جس نے اپنے حسنِ انتخاب سے نیکوکار اولیاء میں خواص کو خاص فرمایا۔اس نے حصولِ مقاصدوالی رات میں ان میں سے افضل واعلیٰ ہستیوں کو عالَمِ اسرار کی سیرکرائی ۔اوروہ اس کے حقوق کی ادائیگی کے لئے کمربستہ ہوگئے تواُس نے انہیں اپنے آزاد اور غلام سب بندوں پرامین بنا دیا۔ان کے ہاتھوں مانگنے والوں کو مرادیں ملتی اور ان کی برکتوں سے خطا کاروں کی خطائیں اورگناہ معاف ہوتے ہیں۔ یہ شہریوں اور دیہاتیوں کونفع پہنچانے کے لئے اللہ عَزَّوَجَلَّ کے حکم سے دنیامیں تصرف کرتے ہیں ۔ان میں کچھ نقباء ہیں تو کچھ ابدال ،بعض نجباء ہیں تو بعض رجال ، بعض اقطاب ہیں اورکوئی غوث کہ اس کے وسیلہ سے بارشیں برستی، اس کی برکت سے (چوپایوں کے)تھن دودھ سے بھرتے اورپھل اور کھیتیاں سر سبز و شاداب ہو تی ہیں۔٭۔۔۔۔۔۔نقباء 70 ہیں اور یہ مصر میں ہیں، کسی دوسرے شہر میں نہیں ہوتے ۔٭۔۔۔۔۔۔ ابدال 40 ہیں اور یہ شام میں ہیں اور معرفت و بصیرت رکھنے والوں کونظرآتے ہیں ۔٭۔۔۔۔۔۔ نجباء 300 ہیں ۔ اللہ عَزَّوَجَلَّ نے انہیں مغرب میں( شیاطین وکفارسے ) جنگ کے لئے مقررفرمایا۔یہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے دین کے محافظ و مدد گار ہیں۔٭۔۔۔۔۔۔رجالُ الغیب10ہیں اور یہ عراق میں ہیں۔ اور ان کاجامِ محبت ہر طرح کی آمیزش سے پاک و صاف اورشفاف ہے۔٭۔۔۔۔۔۔ اقطاب7ہیں۔ جنہیں اللہ عَزَّوَجَلَّ نے شہروں اوراطراف عالَم میں بسنے والوں کے نفع کے لئے سات مُلکوں میں پیدا فرمایا۔٭۔۔۔۔۔۔اور غوث (ہرزمانے میں)صرف ایک ہوتاہے۔جسے اللہ عَزَّوَجَلَّ عزت وعظمت والے شہر مَکَّۃُ الْمُکَرَّمَہ (زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَتَعْظِیْماً) پرمامورفرماتاہے۔(۱)
پس یہ برگزیدہ بندے اللہ عَزَّوَجَلَّ کے محفوظ رازاورپوشیدہ علم کے خزانوں پر امین ہیں حتی کہ عمریں ختم ہوجائیں۔اگر ان ہستیوں کا وجود نہ ہو تو چشمے اور نہریں خشک ہوجائیں ۔ اگر ان کے رکوع و سجود نہ ہوں تو بارشیں بند ہو جائیں ،زمین کھیتی اُگانا اور درخت پھل دینا چھوڑ ديں۔یہ ارادۂ الہٰی عَزَّوَجَلَّ کے دائرے میں رہتے ہیں۔انہیں بارگاہِ الہٰی عَزَّوَجَلَّ میں حاضر ہونے سے نہ تو غفلت روکتی ہے، نہ ہی اس سے دوری میں قرار آتا ہے۔جب بادشاہوں کے دروازے بندہوجاتے ہیں تو ان کے لئے پردوں کو اٹھا دیاجاتا ہے۔ جب سلاطین کے پردے آویزاں(آ۔وِے۔زاں) ہوجاتے ہیں تو ان کے لئےاللہ واحدوقہار عَزَّوَجَلَّ تجلِّی فرماتا ہے۔ پس اگر وہ تجلی ان میں سے کسی سے پلک جھپکنے کی دیر چھپ جائے تو پہاڑ ٹوٹ کرزمیں بوس ہوجائیں اوردنیامیں زلزلہ آجائے۔

پاک ہے وہ ذات جس نے بعض بندوں کو اپنی بارگاہ کے قریب فرمایااورانہیں اپنے ماسواسے چھپالیا۔اور کچھ بندوں کو دُور کیااور دُوری وفاصلے کی تلواران پرچلادی۔اس نے سید(یعنی حضرت سیدناذوالنون مصری علیہ رحمۃ اللہ القوی ) کے لئے دامِ محبت کو نصب کر لیا۔اورطنابِ محبت سے حضرت سیدناجنیدبغدادی علیہ رحمۃ اللہ الہادی کو وابستہ کر دیاتو وہ قابلِ عزت وباعثِ فخرمقام پرفائز ہو گئے ۔ اس نے تیزنگاہ توفیق کو حضرت سیدنا شقیق بلخی علیہ رحمۃ اللہ الولی کی طرف بھیجا تو انہوں نے شکستگی اورفقر کی رسی سے اسے اپنی طرف کھینچ لیا۔ اُس نے حضرت سیدنا ابو یزیدعلیہ رحمۃ اللہ المجید پردوسروں سے بڑھ کر کرم فرمایاتو انہوں نے دنیا سے کنارہ کشی کولازم کر لیا اور مزیدفضل وکرم کے طلب گار ہوئے۔ اُس نے حضرت سیدنا معروف کرخی علیہ رحمۃ اللہ القوی پر بھلائی کی سخاوت فرمائی تو ان کا دل معرفت و بصیرت سے آبادہوگیا۔اُس نے حضرت سیدنا فضیل رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ پر فضلِ خاص فرمایا تووہ انتہادرجہ کی عبادت کے لئے مُستَعِدّ(مُس۔تَ۔عِدّ۔۔۔۔۔۔یعنی آمادہ وتیار)ہوگئے اورقربِ الہٰی عَزَّوَجَلَّ کے حصول کے لئے شب بیداریاں شروع کردیں ۔ اور اُس نے حضرت سیدنامنصور حلاج علیہ رحمۃ اللہ الوہاب کو مزاج کی تبدیلی کاجام پلایاتووہ عشقِ حقیقی کے نشے میں مست ہوگئے، جوش بڑھ گیا،اسرارِالہٰی عَزَّوَجَلَّ کوظاہرکردیا،زبانِ وجدسے ایسی بات ظاہرہوئی کہ ظاہری حدودسے باہر ہوگئے اور صبر کاپیمانہ لبریز ہو گیا۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

(1) اَلَاۤ اِنَّ اَوْلِیَآءَ اللہِ لَاخَوْفٌ عَلَیۡہِمْ وَلَا ہُمْ یَحْزَنُوۡنَ ﴿ۚۖ62﴾

ترجمۂ کنز الایمان :سن لو! بے شک اللہ کے ولیوں پرنہ کچھ خوف ہے نہ کچھ غم۔ (پ11،یونس :62)
اس آیتِ مبارکہ کی تفسیر میں مفسِّرِ قرآن، حِبْرُ الأُمَّہ حضرت سیِّدُناابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما فرماتے ہیں: ”اولیائے کرام رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین پر دُنیامیں کوئی خوف نہیں، نہ ہی وہ آخرت میں غمگین ہوں گے بلکہ ربّ تعالیٰ خوشی وعزت کے ساتھ ان کا استقبال فرمائے گا اور انہیں ہمیشہ رہنے والی نعمتیں عطا کریگا۔”

1۔۔۔۔۔۔مجدّ ِدِاعظم ،امامِ اہلسنت،حضرت سیِّدُناامام احمدرضاخان علیہ رحمۃ الرحمن ارشادفرماتے ہیں: ”غوث بالیقین اس (یعنی ولی مسمّٰی با لخضر )سے افضل ہوتا ہے کہ وہ اپنے دورے میں سلطان کل اولیاء ہے ۔ یونہی امامین،یونہی افراد،یونہی اوتاد، یونہی بُدلاء، یونہی ابدال کہ یہ سب یکے بعد دیگرے باقی اولیائے دورہ (یعنی زمانہ)سے افضل ہوتے ہیں۔امام عبد الوہاب شعرانی قدس سرہ الربانی کتاب ”الیواقیت والجواہر فی بیان عقائد الاکابر”میں فرماتے ہیں:

اِنَّ اَکْبَرَالْأوْلِیَاءِ بَعْدَ الصَحَابَۃِرضی اللہ تعالٰی عنھماَلْقُطْبُ ثُمَّ الاَفْرَادُ عَلٰی خِلَافٍ فِیْ ذَالِکَ ثُمَّ الْاِمَامَانِ ثُمَّ الْاَوْتَادُ ثُمَّ الْاَبْدَالُ اہ ـ اَقُوْلُ: وَالْمُرَادُ بِالْاَبْدَالِ اَلْبُدَلَاءُ السَّبْعَۃُ لِمَا ذُکِرَ بَعْدَہٗ اَنَّ الْاَبْدَالَ السَّبْعَۃُ لَایَزِیْدُوْنَ وَلَا یَنْقُصُوْنَ وَھٰؤُلَاءِ ھُمُ الْبُدَلَاءُ اَمَّا الْاَبْدَالُ فَاَرْبَعُوْنَ بَلْ سَبْعُوْنَ کَمَا فِیْ الْاَحَادِیْثِ۔ (الفتاوی الرضویۃ،ج ۳0، ص۸۷)

صحابۂ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے بعد سب سے بڑا ولی قطب ہوتا ہے ،پھر افراد ،اس میں اختلاف ہے ، پھر امامان، پھر اوتاد ، پھر ابدال اہ ـ میں کہتا ہوں: ابدال سے مراد سات بُدلاء ہیں، اس دلیل کی وجہ سے جو اس کے بعد مذکور ہے کہ بے شک ابدال سات ہیں، نہ زیادہ ہوتے ہیں نہ کم،اور یہی بدلاء ہیں ۔رہے ابدال تو وہ چالیس بلکہ ستر ہیں جیسا کہ احادیث میں ہے۔(ت)۔۔۔

۔اورحضرت سیدناامام،محقق، علامہ محمدیوسف نبھانی قدس سرہ النورانی اپنی کتاب ”جامعِ کراماتِ اولیاء”میں ان مبارک ہستیوں کی اقسام کی وضاحت یوں کرتے ہیں:”اقطاب:یہ حضرات اصالتاًیا نیابتاً سب احوال ومقامات کے جامع ہوتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مشائخ کی اصطلاح میں جب یہ لفظ بغیر اضافت استعمال ہو تو ایسے عظیم انسان پر اس کا اطلاق ہوتا ہے جو زمانہ بھر میں صرف ایک ہی ہوتا ہے، اسی کو غوث بھی کہتے ہیں۔یہ مقرَّبینِ خدا سے ہوتے ہیں اور اپنے زمانے میں گروہِ اولیاء کے آقا ہوتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اوتاد:یہ صرف چار حضرات ہوتے ہیں۔ کسی دور میں ان میں کمی بیشی نہیں ہوتی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ان چار میں سے ایک کے ذریعے اللہ عَزَّوَجَلَّ مشرق کی حفاظت فرماتا ہے اور ایک کی ولایت مشرق میں ہوتی ہے، دوسرا مغرب میں،تیسرا جنوب اور چوتھاشمال میں ولایت کا مرکز ہوتا ہے۔ان کے معاملات کی تقسیم کعبہ (معظمہ)سے شروع ہوتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ان چاروں کے القاب اور صفاتی نام یہ ہیں:عبدالحی،عبدالعلیم،عبدالقادراور عبد المرید۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ابدال:یہ سات سے کم وبیش نہیں ہوتے ۔ اللہ عَزَّوَجَلَّ ان کے ذریعے اقالیمِ سبعہ کی حفاظت فرماتا ہے۔ ہر بدل کی ایک اقلیم ہوتی ہے جہاں اس کی ولایت کا سِکّہ چلتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔نقباء: ہر دور میں صرف بارہ نقیب ہوتے ہیں ۔آسمان کے بارہ ہی برج ہیں اور ہر ایک نقیب ایک ایک برج کی خاصیتوں کا عالم ہوتا ہے۔اللہ عَزَّوَجَلَّ نے ان نقبائے کرام کے ہاتھوں میں شریعتوں کے نازل کئے ہوئے علوم دے دئیے ہیں۔ نفوس میں چھپی اشیاء اور آفاتِ نفوس کا انہیں علم ہوتا ہے۔نفوس کے مکر و خداع کے استخراج پر یہ قادر ہوتے ہیں ۔ابلیس ان کے سامنے یوں منکشف ہوتا ہے کہ اس کی مخفی قوتوں کوبھی یہ جانتے ہیں جنہیں وہ خود نہیں جانتا۔ ان کے علم کی یہ کیفیت ہوتی ہے کہ اگر کسی کا نقشِ پا زمین پر لگا دیکھ لیں تو انہیں اس کے شقی و سعید ہونے کا پتہ چل جاتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔نجباء:ہر دور میں آٹھ سے کم و بیش نہیں ہوتے۔ ان حضرات کے احوال سے ہی قبولیت کے علامات ظاہر ہوتی ہیں حالانکہ ان علامات پر ضروری نہیں کہ انہیں اختیا ر بھی ہو۔ بس حال کا ان پر غلبہ ہوتا ہے، اس حال کے غلبہ کو صرف وہ حضرات پہچان سکتے ہیں جو رتبہ میں ان سے اوپر ہوتے ہیں۔ان سے کم مرتبہ لوگ نہیں پہچان سکتے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔رجال الغیب:یہ دس حضرات ہوتے ہیں۔کم وبیش نہیں ہوتے۔ ہمیشہ ان کے احوال پر انوارِ الہٰی کا نزول رہتا ہے لہٰذا یہ اہلِ خشوع ہوتے ہیں۔اور سرگوشی میں بات کرتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہ مستور(یعنی نظروں سے اوجھل) رہتے ہیں۔زمین و آسمان میں چھپے رہتے ہیں،ان کی مناجات صرف حق تعالیٰ سے ہوتی ہیں اور ان کے شہود کا مرکزبھی وہی ذاتِ بے مثال ہوتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔وہ مجسمۂ حیا ہوتے ہیں، اگر کسی کو بلند آواز سے بولتا سنتے ہیں تو حیران رہ جاتے ہیں اور ان کے پٹھے کانپنے لگتے ہیں ،اہل اللہ جب بھی لفظ رجالُ الغیب استعمال فرماتے ہیں تو ان کا مطلب یہی حضرات ہوتے ہیں۔ کبھی اس لفظ سے وہ انسان بھی مراد لئے جاتے ہیں جو نگاہوں سے اوجھل ہو جاتے ہیں۔ کبھی رجالُ الغیب سے نیک اور مومن جنّ بھی مراد لئے جاتے ہیں۔ کبھی ان لوگوں کو بھی رجالُ الغیب کہہ دیا جاتا ہے جو علم اور رزقِ محسوس حِسّی دنیا سے نہیں لیتے بلکہ غیب کی دنیا سے علم و رزق انہیں ملتا ہے۔” (جامع کرامات اولیاء (مترجم) ج1، ص230تا239ملخصاً)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
error: Content is protected !!