حالات بعثت شریف تاہجرت
اس عنوان پر قلم اٹھا نے سے پہلے مناسب بلکہ ضروری معلوم ہو تا ہے کہ اس وقت عرب اور باقی دنیا کی دینی اور اَخلاقی اور رُوحانی حالت جو تھی اس کا مُجمل بیان پیش کیاجائے جس سے حضور نبی آخر الزَّمَان صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی بعثت کی ضرورت واہمیت ثا بت ہو جائے۔
دنیا کی حالت
عرب پہلے دین ِابر اہیم عَلَیْہِ السَّلَام پر تھے۔حضرت اسمٰعیل عَلَیْہِ السَّلَام کے بعد ان کے صاحبزاد ے حضرت نابت کعبہ کے متو لی ہو ئے ان کے بعد قبیلہ جرہم متولی ہوا، اس قبیلہ کو عَمْرْو بن لُحَیِّ (1) نے جو قبیلہ خزاعہ کا مورِثِ اعلیٰ تھا، بیت اللّٰہ شریف سے نکال دیا اور خود متولی بن گیا اس کا اصلی نام عَمرْ وبن رَبیعہ بن حارِثہ بن عَمرْو بن عامر اَزْدِی تھا عرب میں بت پر ستی کابانی یہی شخص تھا اسی نے سائبہ، وصیلہ، بحیرہ، حا ِمیہ کی رسم ایجاد کی تھی۔ (2) ایک دفعہ یہ سخت بیمار ہو گیا کسی نے کہا کہ بلقاء واقع شام میں ایک گر م پانی کا چشمہ ہے، اگر تم اس میں غسل کر وتو تندرست ہو جاؤ گے۔اس لئے یہ بلقاء میں پہنچا اور اس چشمہ میں غسل کر نے سے اچھا ہو گیا، وہاں اس نے لوگوں کو بتوں کی پوجا کر تے دیکھا، پوچھا کہ
یہ کیا ہیں ؟ انہوں نے کہا کہ ہم ان کے وسیلہ سے بارش کی دعا کر تے ہیں اور ان ہی کے وسیلہ سے دشمن پر فتح پاتے ہیں ۔ یہ سن کر اس نے درخواست کی کہ ان میں سے کچھ مجھے بھی عنایت کیجئے۔غرض اس نے وہ بت لا کر کعبہ کے گر دنصب کر دئیے اور عرب کو ان کی پوجا کی دعوت دی، اس طرح عرب میں بت پرستی شائع ہوگئی۔ جس کا اجمالی (1) خاکہ ذیل میں درج کیا جاتا ہے:
بت کا نام مقام جہاں وہ بت تھا قبیلہ جو اس بت کو پوجتا تھا کیفیت
وُدّ دُوْمَۃُ الْجَنْدَ ل جو دِ مشق ومدینہ کے وسط میں ہے۔ کلب یہ بت بشکل انسان بزر گ جثہ تھا جس پر دو حُلَّۂ منقوش تھے، (2) ایک حُلَّہ بطور ِاِز ار دوسرابطور چادر، تلوار آڑے لٹکا ئے ہوئے اور کمان شانے پر، سامنے ایک تھیلے میں نیزہ اور جھنڈا تھا اور ایک تَرْکَش (3) تھی جس میں تیر تھے۔ حارِثہ اَجداری اپنے بیٹے مالک کو دود ھ دے کر اس بت کے پاس بھیجا کرتا تھا اور کہا کرتا تھا کہ اپنے معبود کو پلا لاؤ۔
سُوَاع رُہاط ہُذَیْل بنو لِحْیان اس بت کے خادم یا پجاری تھے۔
یَغُوْث مَذْحِج مَذْحِج واہلِ جُرَش مَذْحِجیمن میں ایک ٹیلہ کانام ہے۔
یَعُوْق خیوان ہمدان اور اسکے نواح کے لوگ یمن میں خیوان صَنْعائِ یمن سے مکہ کی طرف دود ن کا راستہ ہے۔
نَسْر بلخع حِمْیَر بلخع سر زمین سباواقع یَمَن میں ہے۔ حمیر نَسْر کو پوجتے رہے یہاں تک کہ ذونواس نے ان کو یہودی بنا لیا، اس طرح حِمْیَر کے لئے تبدیل مذہب سے پہلے صَنْعَاء یَمَن میں ایک مندر رِیام تھا جس پر وہ قربانیاں چڑھاتے تھے۔
فَلْس (بشکل انسان) اَجَأ طَیْ قبیلہ طَیْ کے دوپہاڑاَجأ وسلمیٰ مدینہ منورہ سے جانب شمال تین مرحلہ (1) کے فاصلہ پر ہیں اس بت پر قربانی چڑھا تے تھے، اگر کوئی جانور بھاگ کر اس کی پناہ میں آتا تو وہ اسی کا ہو جاتا۔ ایک روز اس کا پجاری صَیْفِی نام ایک عورت کی اونٹنی بھگا لایا اور اس بت کے پاس لاکر باندھ دی۔عورت نے اپنے ہمسایہ سے شکایت کی، وہ اونٹنی کو کھول کر لے گیا، پجاری نے بت سے فریاد کی مگر کچھ نہ بنا۔ عَدِی بن حاتِم نے یہ دیکھ کر بت پر ستی چھوڑدی اور عیسائی ہوگئے، پھر ۹ھ میں مشرف با سلام ہوئے۔ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ
مَنات قُدَیْد کے قریب ساحل بحر پر کوہ مُشَلَّل (2) کے نواح میں ۔ اوس و خزرج ہذیل و خزاعہ قریش اور باقی تمام عرب اس کی عبادت کرتے تھے اور اس پر قربانیاں چڑھاتے تھے۔ اوس و خزرج جب مدینہ سے حج کر نے آتے تو ارکان حج ادا کر کے اپنے سر اس بت کے پاس منڈواتے تھے اور اس کے بغیر حج کو ناتمام سمجھتے تھے۔
لات طائف ثَقِیْف مربع (3) پتھر تھا، تمام عرب اس کی تعظیم کر تے تھے۔
عُزّٰی وادی حُرَّاض واقع نخلہ شامیہ (مکہ سے جانب شمال دودن کا راستہ) قریش یہ ایک شیطانہ تھی، جس کا تھان (4) ببول کے تین درختوں میں تھا۔فتح مکہ کے بعد حضرت خالد بن ولید رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ نے ان درختوں کو کاٹ دیا اور عُزّٰی کو قتل کر دیا قریش دیگر اَصنام کی نسبت اس کی تعظیم زیادہ کیا کرتے تھے، انہوں نے حرم کعبہ کی طرح وادی حُرَّاض میں ایک درَّہ کو اس کاحرم قرار دیا تھا، اس دَرَّہ کا نام سَقام تھا اور قربانیوں کے لئے ایک
مَذبَح بنایا تھا جسے غَبْغَب کہتے تھے ۔عرب لات و مَنات وعُزّٰی کو خدا کی بیٹیاں کہتے تھے اور ان کا عقیدہ تھا کہ یہ ہماری شفاعت کریں گی۔
ذُو الخَلَصَہ تَبَالہ خَثْعَم، بَجِیْلَہ، اَزْدْ، سراۃ تَبَالہ مکہ ویَمَن کے درمیان مکہ سے سات یا آٹھ دن کی راہ ہے۔یہ بت سفید پتھر پر منقوش تھا جس پر تاج کی مثل کوئی شے تھی۔
سَعْد ساحل ِجدّہ مالک ومِلکان پِسرانِ کِنانہ طویل پتھر تھا ، اس پر خون بہایاجاتا تھا۔
ذو (1) الکَفَّیْن ارض دَوس واقع یَمَن دَوس فتح مکہ کے بعد حضرت طفیل بن عَمْرو دَوسی نے اس بت کو بحکم رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰى عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم آگ سے جلا دیا تھا۔
ذُو الشَّریٰ ذُو الشِّریٰ بنو حارث بن یشکر اَزْدی ذوالشریٰ مکہ معظمہ کے قریب ایک مقام کا نام ہے۔
اُقَیصِر مَشارِف ِشام قُضاعَہ، لَخْم، جُذَام، عامِلہ، غَطَفان اس کا حج کر تے، قربانی دیتے اور اس کے پاس اپنا سر منڈایا کر تے سر منڈوانے والا ہر بال پر گیہوں کے آٹے کی ایک مٹھی پھینکا کر تا تھا۔
نَہم = مُزَینہ اس کا پجاری خزاعی بن عبد نہم مزنی تھا، اس نے جب رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰى عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کاحال سنا تو اس بت کو توڑ کر حاضر خدمت ہوا اور ایمان لا یا۔
عائم = اَزْد سَرَات =
رُضَاء یا رُضٰی = بنو رَبیعہ بن کعب بن سعد تَمِیمی اس بت کا ذکر صَنْعَاء کے پر انے کتبوں (2) میں بھی پایا جاتا ہے۔ اس کو مُستَوغر یعنی عَمْرو بن رُبیعہ تمیمی نے زمانہ اسلام میں منہد م کر دیا۔
سَعِیر = عَنَزَہ (3) اس پر قربانیاں چڑ ھا تے تھے۔
عُمیانِس مَوضَع خَولان واقعہ یَمَن خولان مویشیوں اور کھیتوں کو اس بت اور خدا تعالٰی کے درمیان تقسیم کیا کرتے تھے۔بقولِ ہشام کلبی ’’ وَجَعَلُوْا لِلّٰہِ مِمَّا ذَرَاَ مِنَ الْحَرْثِ وَالْاَنْعَام نَصِیْبًا الآیۃ ‘‘ خولان ہی کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ ()
عُمیانِس مَوضَع خَولان واقعہ یَمَن خولان مویشیوں اور کھیتوں کو اس بت اور خدا تعالٰی کے درمیان تقسیم کیا کرتے تھے۔بقولِ ہشام کلبی ’’ وَجَعَلُوْا لِلّٰہِ مِمَّا ذَرَاَ مِنَ الْحَرْثِ وَالْاَنْعَام نَصِیْبًا الآیۃ ‘‘ خولان ہی کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ (1)
ہُبَل مکہ قریش کعبۃ اللّٰہ جو خانۂ خدا تھا بت خانہ بنا ہواتھا، اس میں تین سو ساٹھ بت تھے جن میں ہبل بہت بڑا اور جوفِ کعبہ (2) میں نصب کیا ہو ا تھا یہ بت بشکل انسان عقیق اَحمر (3) کا بناہوا تھا۔اس کا بایاں ہاتھ ٹوٹا ہوا تھا قریش کو اسی حالت میں ملا تھا، انہوں نے اس کے لئے سو نے کا ہاتھ بنا دیا تھا، اس کے سامنے سات تیررکھے ہوئے تھے، جن سے پجاری قرعہ اندازی کیا کر تا تھا۔اِساف اور نائلہ (4) دونوں زمز م کی جگہ پر تھے قریش ان کے پاس قربانیاں دیا کرتے تھے، قریش کا ایک بت مَناف تھا علاوہ ان کے مکہ کے گھر گھر میں ایک ایک بت تھا جب کوئی سفر کو جاتا تو بطور تبر ک اس کو مسح کرتا جب واپس آتا تو گھر میں داخل ہو کر سب سے پہلے اس کو مسح کر تا۔
مندرجہ بالا بتوں کے علاوہ عرب میں اور بھی بت تھے۔ستاروں کی بھی پوجا ہو تی تھی چنانچہ قبیلۂ حِمْیَ سورج کی پر ستش کر تا تھا، کِنانہ چاند کو، بنو تمیم دَبَر ان کو، قیس شِعْریٰ کو، اسد عُطا رِد کو اور لَخْم و جُذام مُشْتَری کو پوجتے تھے۔ (5)
عرب میں درخت پر ستی بھی پائی جاتی تھی۔مکہ مشرفہ کے قریب ایک بڑا سبز در خت تھا جاہلیت میں لوگ سال میں ایک دفعہ وہاں آتے اور اس درخت پر اپنے ہتھیار لٹکاتے اور اس کے پاس حیوانات ذبح کر تے۔ کہتے ہیں کہ عرب جب حج کو آتے تو اپنی چادر یں اس درخت پر لٹکادیتے اور حرم میں بغرض تعظیم بغیرچادروں کے داخل ہوتے اس لئے اس درخت کو اَنواط (1) کہتے تھے۔ (2) ابن اسحاق نے حدیث وَہب بن مُنَبہ میں ذکر کیا ہے کہ جب فَیْمِیُوْن نصر انی اپنی سیاحت میں نَجران میں بطور غلام فروخت ہوا تو اس وقت اہل نجران ایک بڑے درخت کی پوجا کیا کرتے تھے۔ اس درخت کے پاس سال میں ایک دفعہ عید ہو اکر تی تھی وہ عید کے موقع پر اپنے اچھے سے اچھے کپڑے اور عورتوں کے زیورات اس درخت پر ڈال دیا کرتے تھے۔پھر وہ فَیْمِیُوْن کی کر امت دیکھ کر عیسا ئی ہو گئے۔ (3)
بتوں پر عموماً حیوانات کا خون بہایا جاتا تھا مگر بعض دفعہ انسان کو بھی ذبح کر دیتے تھے چنانچہ نیلوس ایک قسم کی قربانی کاذکر جو ۴۱۰ ء میں دی گئی تھی بد یں الفاظ کرتا ہے :
حجاز کے وحشی عربوں کے ہاں دیوتا کی کوئی صورت نہ تھی۔ صرف اَن گھڑ پتھروں کی ایک قربان گاہ ہو ا کر تی تھی اس پروہ ستارۂ صبح (زُہْرَہ ) کے لئے کوئی انسان یا سفید اونٹ بڑی جلدی سے ذبح کیا کر تے تھے، یہ قربانی طلوع آفتاب سے پہلے بظاہر بد یں وجہ ہوا کر تی تھی کہ وہ ستارہ اس عمل میں پیش نظر رہے۔وہ مقام متبرک کے گرد بھجن ہ (4) گاتے ہوئے تین بار طواف کر تے تب سردار قوم یا بوڑ ھا پجاری اس بھینٹ پر پہلا و ار کر تااور ا س کا کچھ خون پیتا، بعد ازاں حاضرین کو دپڑ تے اور اس جانور کو کچااور صرف نیم پو ست کُنْدَہ (5) طلوع آفتاب سے پہلے کھاجا تے۔خود نیلوس کا بیٹا زُہْرَہ کی بھینٹ چڑھنے کو تھا کہ ایک اتفاقی امر سے بچ گیا۔نیلوس سے پیشترپور فری (6) بیان کرتا ہے کہ عرب میں دُومہ کے باشندے سال میں ایک بار ایک لڑکے کی بھینٹ دیتے اور اسے قربان گاہ کے نیچے دفن کر دیتے۔ (7)
اوپر کے بیان سے ظاہر ہے کہ عرب کے طول وعرض میں بت پر ستی کا جال بچھا ہوا تھا اس کے علاوہ یہودیت و نصرانیت ومجوسیت بھی کہیں کہیں رائج تھی۔چنانچہ (1) حِمْیَر ، کِنانہ، بنوحارِث بن َکعْب اور کندہ میں یہودیت تھی، مدینہ میں یہودیوں کا زور تھا، خیبر میں بھی یہودی بستے تھے، رَبیعہ، غَسَّان اور بعض قضاعہ میں نصرانیت تھی، مجوسیت بہت کم تھی، وہ بت پر ستی ویہودیت وعیسا ئیت میں جذْب ہوتے ہوتے صرف بنو تَمِیم میں رہ گئی تھی جن کے منازِل (2) نجد سے یمامہ تک پائے جاتے تھے۔ حضرت حاجب بن زرارہ تمیمی اسی قبیلہ سے تھے جنہوں نے کسریٰ کے ہاں اپنی کمان رہن رکھی تھی اور رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے زمانہ میں فک کرا کر (3) بطورِ ہدیہ خدمت اَقدس میں بھیجی تھی۔ (4)
عرب میں اِزدَواج کی کثرت تھی چنانچہ جب حضرت غَیْلان ثَقَفِی ایمان لائے تو ان کے تحت میں دس عورتیں تھیں ۔ جَمْع بَیْنَ الاُخْتَیْن (5) جائز سمجھتے تھے چنانچہ ضَحَّاک بن فَیر وزکابیان ہے کہ جب میرا باپ اسلام لایاتو اس کے تحت میں دو سگی بہنیں تھیں ۔ جب کوئی شخص مر جاتاتو اس کا سب سے بڑا بیٹا اپنی سو تیلی ماں کو میراث میں پاتا، چاہتا تو اس سے شادی کر لیتا ورنہ اپنے کسی اور بھائی یا رشتہ دار کو شادی کے لئے دے دیتا۔ زنا کاری کا عام رَواج تھا اور اسے جائز خیال کرتے تھے۔حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا کا بیان ہے کہ جاہلیت میں نکاح چار طرح (6) کا تھا: ایک نکاح متعارف، جیساکہ آج کل ہے کہ زوج وزوجہ کے ولی مہر مُعَیَّن پر متفق ہو جائیں اور ایجاب و قبول ہو جائے۔ دوسرانکاحِ اِسْتِبْضَاع، بد یں طور کہ شوہراپنی عورت کو حیض سے پاک ہو نے کے بعد کہتا کہ تو فلاں سے استبضاع (طلب ولد ) کر لے اور خوداس سے مقاربت نہ کر تایہاں تک کہ اس شخص سے حمل ظاہر ہو جاتا، اس وقت چاہتا تووہ اپنی زوجہ سے مُجَامَعت (7) کر تا یہ اِسْتِبْضَاع بغر ضِ نجابت ولد (8) کیا جاتاتھا۔ تیسرا نکاحِ جمع، بدیں طور کہ دس سے کم مردایک عورت پر یکے بعد دیگرے داخل ہو تے یہاں تک کہ وہ حاملہ ہو جاتی، وضع حمل کے چند روز بعد وہ عورت ان سب کوبلاتی اور ان سے کہتی کہ تم نے جو کیا وہ تمہیں معلوم ہے، میرے ہاں بچہ پیدا ہوا ہے، ان میں سے ایک کی طرف اشارہ کر کے کہتی کہ یہ تیرا بچہ ہے، پس وہ
اسی کا سمجھا جاتا تھا اور وہ شخص انکار نہ کر سکتا تھا۔ چوتھا نکاحِ بَغَایا، بدیں طور کہ بہت سے مر دجمع ہو کر بَغَایا (زناکار عورتیں ) میں سے کسی پر بے روک ٹوک داخل ہو تے۔یہ بَغَایا بطور ِعلامت کے اپنے دروازوں پر جھنڈے نصب کر تی تھیں ، جو چاہتا ان کے پاس جا تا جب ان میں سے کوئی حاملہ ہو جاتی تو وضع حمل کے بعد وہ سب مرد اس کے ہاں جمع ہو تے اور قافہ (1) کو بلاتے وہ قافہ اس بچہ کو (اس کے اعضاء دیکھ کر فراست سے ) جس سے منسوب کر تا اسی کا بیٹا سمجھا جاتا تھا اور اس سے انکار نہ ہو سکتا تھا۔ (2)
شراب خوری اور قِماربازی (3) بھی عرب میں کثرت سے رائج تھیں ۔مہمان نواز ی کی طرح ان دونوں میں مال ودولت لٹا نے پر فخر کیا کر تے تھے۔ملک عرب میں انگور وں یا کھجور وں وغیرہ سے جو شراب بنا تے تھے وہ ان کے لئے کافی نہ تھی اس لئے شراب کا بہت بڑا حصہ دیگر ممالک سے منگایا جاتا تھا، وہ بہت تیز ہوتی تھی۔ پانی میں ملا کر استعمال کیا کرتے تھے۔ شراب کی دکانوں پر جھنڈے لہرایا کرتے تھے جب کسی دکان میں شراب کا ذخیر ہ ختم ہو جاتا تو جھنڈا اتا رلیا جا تا تھا۔ اشعارِ عرب میں جن مقامات کی شراب کا ذکر آیا ہے ان کی تفصیل یوں ہے:
ملک کا نام مقامات جو شراب کے لئے مشہور تھے کیفیت
سِیر یا یعنی شام جَدَر، حِمْص، بیت راس، خص، اَند َرِین، بُصریٰ، صَرخَد، مَآب بیت راس دوشہروں کا نام ہے ایک بیت المقدس میں دوسرا انواع حلب میں ہے، دونوں میں انگوربکثرت اور شراب کے لئے مشہور تھے۔ جَدَر کی شراب کو جَدَرِیَّہ کہتے تھے۔
فلسطین مقدّر، غور، بَیْسَان مقدر کی شراب کو مقدر ی یا مقدریہ اور بَیْسَان کی شراب کو بَیْسَانِیَّہ بولتے تھے۔
الجَزِیرَہ عانہ عانہ کی شراب کو عانِیَہ کہتے تھے۔
کلدیہ یا بابلونیا بابِل، صَرِیفُون ، قُطْرَبُّل صَرِیفُون عکبرا کے قریب ہے اور قُطْرَبُّلبغداد وعکبرا کے درمیان ہے۔ان مقامات کی شراب کو بابلیہ و صریفیہ و قطربلیہ کہتے تھے۔
خلاصہ کلام یہ کہ دین ابر اہیمی جو عرب کا اصلی دین تھا، سوائے چند رسموں کے جن سے عقل سلیم کو، قطع نظر اِرشادِ اَنبیاء عَلَیْہِمُ السَّلَام کے انکار نہیں ہو سکتا عرب میں معدوم ہو گیا تھا ۔بجائے تو حید کے عموماً شرک وبت پر ستی تھی وہ معبودانِ باطل کو قادرِ مطلق کی طرح اپنے حاجت رواجا نتے تھے۔بعضے اَجرامِ فلکیہ: آفتاب ماہتا ب وستار گان کی پوجا کرتے تھے۔ بعضے تشبیہ کے قائل تھے اور فرشتوں کو خدا کی بیٹیاں سمجھ کر ان کی پوجا کرتے اور خدا کے ہاں ان کی شفاعت کے امیدوار تھے۔شرک وتشبیہ کا کیا ذکر بعض کو خدا کی ہستی ہی سے انکار تھا۔ وہ شب ور وزشراب خوری، قِمار بازی ، زنا کاری اور قتل و غارت گری میں مشغول رہتے تھے۔قَسَاوَتِ قلب (1) کا یہ حال تھا کہ لڑکیوں کو پیدا ہوتے ہی زندہ دفن کر دیتے تھے، بتوں پر آدمیوں کی قربانی چڑھانے سے دَریغ نہ کر تے، لڑائیوں میں آدمیوں کو زندہ جلادینا، مستور ات کا پیٹ چاک کر نا اور بچوں کو تہ تیغ (2) کر نا عموماً جائز سمجھتے تھے۔ ان کے درمیان جو یہودو نصاریٰ تھے ان کی حالت بھی دگر گوں (3) تھی، ان کی کتابیں محر ف (4) ہو چکی تھیں ۔یہود خدا کو مغلولۃالید (5) اور حضرت عُزیر عَلَیْہِ السَّلامکو خدا کا بیٹا کہتے تھے اور نصاریٰ تین خدا مانتے تھے اور مسئلہ کَفَّارہ (6) کی آڑمیں اعمال حسنہ کی کوئی ضرورت ہی محسوس نہ کر تے تھے۔
یہ حالت صرف عرب کے ساتھ مخصوص نہ تھی بلکہ تمام دنیا میں اسی طرح کی تاریکی چھائی ہوئی تھی چنانچہ اہل فارِس (7) آگ کے پوجنے اور ماؤں کے ساتھ وطی کر نے میں مشغول تھے۔تُرک شب وروز بستیوں کے تباہ کرنے اور بندگان خدا کو اذیت دینے میں مصروف تھے، ان کا دین بتوں کی پو جا اور ان کی عادت مخلوقات پر ظلم کر نا تھا۔ہندوستان کے لوگ بتوں کی پو جا اور خود کو آگ میں جلانے کے سوا کچھ نہ جانتے تھے اور نیوگ (8) کو جائز سمجھتے تھے۔
یہ عالمگیر ظلمت (1) اس امر کی مُقْتَضِی (2) تھی کہ حسب عادتِ الٰہی ملک عرب میں جہاں دنیا بھر کے اَدیان باطلہ و عقائد قبیحہ واَخلاق رَدِّیہ (3) موجود تھے۔ایک ہادی (4) تمام دنیا کے لئے مبعوث ہو، چنانچہ ایساہی وقوع میں آیا۔
عرب جیسی قوم میں جس کی حالت اوپر بیان ہو ئی ، سیدنا محمد مصطفی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکی زندگی بعثت تک ہر پہلو کے لحاظ سے بالکل بے لوث رہی۔آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم اَخلاق حمید ہ سے متصف اور صدق و امانت میں مشہور تھے حتّٰی کہ قوم نے آپ کو امین کا لقب دیا ہوا تھا۔آپ مجالس لہوولعِب میں کبھی شریک نہ ہوئے وہ اَفعالِ جاہلیت جن کی آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی شریعت میں ممانعت وارد ہے آپ کبھی ان کے مر تکب نہ ہوئے۔ جو جانور بتوں پر ذبح کیے جاتے آپ ان کا گوشت نہ کھاتے، فسانہ گوئی ، شراب خوری، قِماربازی او ر بت پرستی جو قوم میں عام شائع تھیں ، آپ ان سب سے الگ رہے۔ سال میں ایک بار ماہ رمضان میں کوہِ حرامیں جو مکہ مشرفہ سے تین میل کے فاصلہ پر ِمنیٰ کوجاتے ہوئے بائیں طرف کو ہے اعتکاف فرمایا کر تے اور وہاں ذکر وفکر میں مشغول رہتے چند راتوں کا توشہ ساتھ لے جاتے، وہ ختم ہوچکتا تو گھر تشریف لاتے اور اسی قدر تو شہ لے کرحراء میں جا معتکف ہوتے۔
________________________________
1 – سیرتِ رسولِ عربی کے نسخوں میں یہاں ’’عَمْرْو بن لحمی‘‘ لکھا ہے یہ ہمیں نہیں ملا البتہ حدیث و سیرت کی کتب میں ’’ عَمْرْو بن لُحَیِّ‘‘ ہے لہٰذا کتابت کی غلطی پر محمول کرتے ہوئے ہم نے یہاں ’’ عَمْرْو بن لحمی ‘‘کے بجائے ’’ عَمْرْو بن لُحَیِّ ‘‘ لکھا ہے ۔ علمیہ
2 – زمانہ جاہلیت میں کُفّار کا یہ دستور تھا کہ جو اونٹنی پانچ مرتبہ بچّے جنتی اور آخری مرتبہ اس کے نَر ہوتا اس کا کان چیر دیتے پھر نہ اس پر سواریکرتے نہ اس کو ذبح کرتے ، نہ پانی اور چارے پر سے ہنکاتے، اس کو بحیرہ کہتے۔ اور جب سفر پیش ہوتا یا کوئی بیمار ہوتا تو یہ نذر کرتے کہ اگر میں سفر سے بخیریت واپس آؤں یا تندرست ہو جاؤں تو میری اونٹنی سائبہ ہے اور اس سے بھی نفع اٹھانا بحیرہ کی طرح حرام جانتے اور اس کو آزاد چھوڑ دیتے۔ اور بکری جب سات مرتبہ بچّے جن چُکتی تو اگر ساتواں بچّہ نَر ہوتا توا س کو مرد کھاتے اور اگر مادّہ ہوتا تو بکریوں میں چھوڑ دیتے اور ایسے ہی اگر نَر مادّہ دونوں ہوتے تو کہتے کہ یہ اپنے بھائی سے مل گئی اس کو وصیلہ کہتے۔ اور جب نَر اُونٹ سے دس گیابھ حاصل ہو جاتے تو اس کو چھوڑ دیتے نہ اس پر سواری کرتے ، نہ اس سے کام لیتے ، نہ اس کو چارے پانی پر سے روکتے اس کو حامِی کہتے ۔ (مدارک)بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے کہ بحیرہ وہ ہے جس کا دودھ بتوں کے لئے روکتے تھے کوئی اس جانور کا دودھ نہ دوہتا اور سائبہ وہ جس کو اپنے بتوں کے لئے چھوڑ دیتے تھے کوئی ان سے کام نہ لیتا ، یہ رسمیں زمانہ جاہلیّت سے ابتدائے عہدِ اسلام تک چلی آ رہی تھیں ۔ ( خزائن العرفان تحت پ۷،المائدہ:۱۰۳)