مکاید شیطان :
مکاید شیطان :
اور ارشاد ہوا کہ جس طرح تجھ سے ہو سکے اپنی ذات سے اور اپنے لشکر کی مدد سے اطمینان کے ساتھ اپنے دل کے حوصلے پورے کر ، کماقال تعالیٰ وأ جلب علیہم بخیلک ورجلک بلکہ ان کے دلو ں پر بھی تجھے تصرب عنایت کر تے ہیں ،تو ان کی نظریں بچا کر اندر ہی اندر مخالفا نہ مشور ے دیا کر ‘ مگر یہ یا درکھنا کہ جو خاص ہمارے بندے ہیں ان پر تیرا غلبہ ہر گز نہ ہوسکے گا ۔عرضکہ خداسے پروانگی مل گئی۔اب کیا تھا نہایت بے باکی اور اطمینان سے ایل مستقل سلطنت اپنی قائم کرلی، اور ان ذرائع کی تلاش میںمصروف ہوا جن سے لوگ اللہ سے دور ہو کر لقب’’شیطان ‘‘ کے مستحق ہوں۔
دیکھا کہ ہر شخص بقائے شخصی اور بقائے نوعی کا دلداداہ ہے اور یہی چاہتا ہے کہ آپ اور اپنی نوع باقی رہے ، بس یہیں اس نے اپنا ٹکھانہ جمایا اور ہر ایک کویہ مشورہ دینے لگا کہ : تہماری پردرش بھی ماں باپ سے متعلق تھی ، اس کے بعد دوسرے اسباب وذرائع سے متعلق ہوئی ،جن کوتم خوب جانتے ہو او رتمہارے ذاتی تجربے ہیں،اور بقائے نوعی سلاطین سے متعلق ہے کیونکہ اگر ایسا نہ ہو تو تمدن درہم اور برہم ہو جائے اور درندے اور درندہ خولوگ تمہیں پھاڑ کھائیں اور بعض اولڈ فیشن کے (یا بنیاد پرست ) لوگ جو خداکا خیال کر تے ہیں سو اول تو خدا کو کس نے دیکھا اور اگر ہوبھی تو خدا جانے کہاں ہے ، نیو فیشن والوں (اور ترقی پسندوں ) کی عقل کا مقتضیٰ تو یہ نہیں کہ ایسے موہوم خیالات پر آدمی بھروسہ کرے اور اپنے ذاتی تجربوں پر اعتماد نہ کرے ہر بات میں اللہ کو پکا رے اور اس کی عبادت میں اپنا وقت ضائع کرے !!۔
ہر چند اللہ تعالیٰ نے اس کے مقابلے کے لئے انبیاء کو بھیجا کہ اپنے بھائیوں اولاد آدم علیہ السلام کو شیطان کے مکر و فریب پر مطلع کرکے خداے تعالیٰ سے ان کو قریب کردیں ۔ انہوں نے بہتیر ا سمجھا یا کہ : بھا ئیو !خدا ے تعالیٰ ہی رب العالمین اور سب کا پرورش کرنے والا ہے ،اور وہی تمام جہاں کا بادشاہ ہے اور بادشاہ بھی کیسا ’’مالک الملک یؤ تی الملک من یشاء ‘‘یعنی جس کو چاہے بادشاہ بنادے ۔ظاہراً انہوں نے بہت کچھ سمجھا یا مگر ان کی کچھ نہ چلی کیونکہ شیطان اندر ہی اندر دلوں میں یہ وسوسے ڈالتا جاتاہے کہ دیکھو اگر تم ان لوگوں کی بات مان لو گے او ردنیا کے کا روبار چھوڑ کر خداکی طرف متوجہ ہوجائوگے تو سردست تمہیں فقر وفاقہ کی مصیبت بھگتنی پڑے گی،چناچہ حق تعالیٰ فرما تا ہے الشیطان بعدکم الفقراس کا مطلب یہ ہے کہ شیطان فقر سے متعلق وسوے ڈالتا ہے او رگویا وعدہ کر تا ہے کہ جہاں تم نے انبیاء کی سنی فقیری تم پر آگئی!اور بادشاہ اور تمہارے آقا جب تمہیں دیکھیں گے کہ تم خدا کی طرف متوجہ ہوتو یہی کہیں گے کہ یہ ہمارے کام کے نہیں اور کوئی عہدہ نہیں نہ ملے گا ۔ غرضکہ ان کو پیٹ کے دھندوں اور جا ہ طلبی میں ایسا مصروف کر دیتا ہے کہ خدا کا خیال بھی کبھی نہ آنے پائے ۔
پیغمبروں نے ہزار طرح سے سمجھا یا اور خدا کا کلام پڑھ پڑھ کر سنا یا تب بھی ان ’’وسو سوں ‘‘ کے مقابلے میں کچھ اثر نہ ہوا ۔ وسوسے جو فی الحقیقت شیطان ان کو مشورے دیتا ہے ان کے سامنے وہ ایسے متذلل اور فرماں بردار ہو جا تے ہیں کہ شیطان کے اِن احکام سے درا بھی سر تا بی نہیں کر سکتے، یہی معنی عبودیت کے ہیں ۔ اہل انصاف سمجھ سکتے ہیں کہ جوشخص خدا کی نہ مان کر شیطان کی مانے تو کیا وہ ’’عبد اللہ ‘‘ سمجھا جائے گا ؟ بر خلاف ان کے جو خاص اللہ کے بندے ہیں ان پر شیطان کا افسوں نہیں چل سکتا ،وہ جانتے ہیں کہ خدا ہی پرورش کرنے والا ہے ،اگر غذاء کی وجہ سے طاقت آتی ہے تو اس میں
طاقت دینے والا بھی خداہی ہے ،اور اگر کوئی پرورش کر تا ہے تو اس کو متوجہ کے نے والا بھی خدا ہے ، اور اگر بادشاہ کی طرف سے تمدن قائم ہے تو وہ ظلی طورپر حاکم ہے اصل مالک الملک وہی خدا ے تعالیٰ ہے ۔ غرضکہ و ہ وسا وس شیطانی پر ’’لا حول ‘‘ پڑھ کر ان کو دور کر دیتے ہیں وہ خدا ہی کو معبود او ر قابل اطاعت سمجھتے ہیں ،خدا کے مقابلے میں شیطان کی طاعت کو کفر جانتے ہیں ، ہر حال میں ان کی توجہ خداہی کی طرف ہو تی ہے او ر ہروقت تقرب الٰہی ان کوحاصل رہتا ہے ،اور شیطان جتنا ان کو اس بارگاہ سے دور کرنا چاہتا ہے وہ نزدیک ہو تے جا تے ہیں ۔ اس کی وجہ کیا ہے کہ ؟ یہی ہے کہ انہوں نے تسلیم کر لیا ہے کہ خداے تعالیٰ ہی سب آدمیوں کا بلکہ کل عالم کا رب اورمالک ہے ۔یہی مستحکم اعتقاد ان کا ایک محکم قلعہ ہے جس کے اندر جانے کا راستہ ہی شیطان کو نہیں مل سکتا ۔
یہاں یہ امر بھی قابل توجہ ہے کہ من شر الوسواس الخناس ارشاد ہوا ، یعنی وسوسہ انداز خناس کے شرسے پناہ مانگو ! یہ نہیں ارشاد ہوا کہ اس کے وسوسہ کے شر سے پناہ مانگو ۔ اس سے ظاہر ہے کہ سوائے وسوسہ اندازی کے اور بھی اس کے شر ہیں ،
اس لئے اس کی کل شرارتوں سے پناہ مانگنی چاہئے، مثلاً ایک شرارت اس کی یہ ہے کہ کسی دوسرے کو درغلا کر کوئی حرکت اس سے ایسی صادر کرا دیتا ہے کہ خواہ مخواہ آدمی کو غصہ آجائے ،اور غصہ کی حالت میں ایسے کام اس سے کر وادیتا ہے کہ دنیا وہ آخرت میں ذلت اور خرابی کے باعث ہو تے ہیں ۔چناچہ اکثر دیکھا جا تاہے کہ احباب کے مجمعوں میں کمالِ خوشی سے باہم گفت و شنید ہو رہی ہو تی ہے ،ہنسی ہنسی میں کوئی نہ کوئی صاحبِ کمال صفائی سے ایسی بات کہہ دیتے ہیں کہ مخاطب کو نا گوارا ہو مگر اہل مجمع اس سے لطف اٹھا تے ہیں ،اس بات کا اثر یہاں تک ہوتا ہے کہ سب وشتم بلکہ قتال و جدال تک نوبت پہونچ جا تی ہے ۔ دراصل یہ شرارت اسی وسوسہ اندازکی ہے کہ دوستی کے پیرایہ میں دوسرے سے وہ بات کہلوائی اور ادھر غصہ کی حالت میں اپنا کام کر گیا ۔ غالباً یہی وجہ ہوگی جو صحیح حدیث میں وارد ہے جس کو منذری ؒ نے کتاب الترغیب والترہیب میں نقل کیا ہے کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لا یبلغ العبد صریح الایمان حتی یدع المزا ح والکذاب یعنی : خالص ایمان تک آدمی نہیں پہونچ سکتا جب تک کہ مزاح یعنی ٹھٹہ دل لگی اور جھوٹ کو نہ چھوڑدے ‘‘۔