اسلامواقعات

مَدینہ میں نزولِ رحمت

مَدینہ میں نزولِ رحمت

قباء میں چار (چودہ یابیس) روز قیام رہا۔ یہاں سے جمعہ کے دن باطن مدینہ (5) کو روانہ ہوئے۔ مہاجرین وانصار ساتھ تھے۔انصار کے جس قبیلہ پر سے گز رہو تا اس کے سَربَرآوَردَہ (6) عقیدت مند عرض کرتے: ’’ یارسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ہماری نصرت وحمایت میں اترئیے۔ ‘‘ آپ اِظہارِ مِنَّت (7) و دعائے خیرکے بعد فرماتے کہ ’’ میرا ناقہ مامور ہے، اس کا راستہ چھوڑ دو۔ ‘‘ راستے میں بنو سالم خَزْرَجی کے محلہ میں جمعہ کا وقت آگیا۔ آپ نے وادی ذِی صَلْب کی مسجد میں نما زجمعہ مع خطبہ ادا کی۔ یہ آپ کاپہلا جمعہ اور پہلا خطبہ تھا۔ اس طرح بنی بَیَاضَہ، بنی ساعِدَہ اور بنی حارِث بن خَزْرَج سے گزرتے ہوئے بنی عَدِی بن نَجَّار میں پہنچے جو آپ کے دادا عبدالمُطَّلِب کے نَنِہَال تھے۔ سَلِیط بن قیس نجَّاری خَزْرَجی وغیرہ نے نَنِہَالی ر شتہ کو یاد دلا کر اِقامت کے لئے عرض کیا، مگر ان کو بھی وہی جواب ملا۔ بعد ازاں آپ کا ناقہ محلہ مالک بن نجار میں اس جگہ بیٹھ گیا جہاں اب مسجد نبوی ہے۔ پھر اٹھ کر قدرے آگے بڑھا اور مڑ کر پہلی جگہ بیٹھ گیا۔ آپ نے فرمایا: ان شآء اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ یہی منزل ہے۔ حضرت ابو ایوب انصاری خزرجی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ آپ کی اجازت سے آپ کا سامان اٹھا کر اپنے گھر لے گئے اور حضور عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام یہ فرماکر اَلْمَرْئُ مَعْ رَحْلِہِ وہیں تشریف فرما ہوئے۔ ؎
مبارک منزلے کاں خانہ را ماہے چنیں باشد
ہمایوں کشورے کاں عرصہ را شاہے چنیں باشد
حضور اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی تشریف آوری سے جو خوشی مدینہ میں مسلمانوں کو ہوئی اس کا بیان نہیں ہو سکتا۔حضور انور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی سواری نزدیک پہنچی تو جوش مسرت کا یہ عالم تھا کہ پر دہ نشین عورتیں چھتوں پر نکل آئیں اور یوں گا نے لگیں : ؎
طَلَعَ الْبَدْرُ عَلَیْنَا مِنْ ثَنِیَّاتِ الْوَدَاعٖ
وَجَبَ الشُّکْرُ عَلَیْنَا مَا دَعَا لِلّٰہِ دَاعٖ
’’ ہم پر چاند نکل آیا وَداع کی گھاٹیوں سے، ہم پر خدا کا شکر واجب ہے جب تک دعامانگنے والا دعامانگے۔ ‘‘ آپ کے ناقہ کابیٹھنا تھا کہ بنو نجار کی لڑ کیاں دَف بجاتی نکلیں اور یوں گانے لگیں :
نَحْنُ جَوَارٍ مِّنْ بَنِی النَّجَّارٖ
یَاحَبَّذَا محمد مِّنْ جَارٖ
’’ ہم بنو نجارکی لڑکیاں ہیں ، اے نجاریو! محمد صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کیسا اچھا ہمسایہ ہے۔ ‘‘
آپ نے یہ سن کر ان لڑ کیوں سے پو چھا: کیا تم مجھ کو دوست رکھتی ہو؟ وہ بولیں : ہاں ! آپ نے فرمایا: میں بھی تم کو دوست رکھتا ہوں ۔
اسی خوشی میں ز ن ومر د، چھوٹے بڑے، گلی کو چوں میں پکاررہے تھے: جَآئَ رَسُوْلُ اللّٰہِ جَآئَ نَبِیُّ اللّٰہِ حبشی غلام آپ کے قُدُوم مَیْمَنَت لُزُوم (1) کی خوشی میں ہتھیاروں سے کھیل رہے تھے۔ انسانوں پر کیا موقوف ہے وحوش (2) بھی اپنی حرکات وسکنات سے خوشی کا اظہار کر رہے تھے۔
جب مدینہ میں آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے قیام کا انتظام ہو چکا تو آپ نے زید بن حارثہ اور
اپنے غلام ابو رافع کو پانسودر ہم اوردو اونٹ دے کر مکہ میں بھیجا کہ آپ کے عیال کو مدینہ میں لے آئیں ۔ اسی وقت حضرت ابو بکر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے عبد اللّٰہ بن اُرَیْقَط دُئَلی (جو کہ مکہ کو واپس جارہا تھا ) کے ہاتھ اپنے صاحبزادے عبد اللّٰہ کو رُقْعَہ (1) دے دیا کہ میرے عیال کو مدینہ میں لے آؤ۔ آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی صاحبزادیوں میں سے حضرت زینب رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا کو ان کے خاوند ابو العاص نے آنے نہ دیا حضرت رُقَیَّہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا حبشہ میں تھیں ، اس لئے زید وابو رافع حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی صاحبزاد یوں حضرت ام کلثوم وفاطمہ اور زوجہ محترمہ حضرت سَودَہ کو اور اُم اَیمن زو جہ زید اور اسامہ بن زید کو لے آئے، اور ان کے ساتھ عبد اللّٰہبن ابی بکر، حضرت عائشہ اور ان کی والدہ ام رُومان اور حضرت اَسماء بنت ابی بکر کو لائے۔یہ سب حارِثہ بن نعمان کے ہاں اُترے۔ (2) رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ
حضور اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا قیام سات ماہ تک حضرت ابو ایوب رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے ہاں ہی رہا۔ جب مسجد نبوی کے ساتھ حجر ے تیار ہو گئے تو نقلِ مکان فرمایا۔ اس عرصہ میں بنو نجار نے مہمانی کا حق کَمَا حَقُّہٗ (3) ادا کیا۔ حضرت ابو ایوب اور سعدبن عبادہ اور سعد بن معاذ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُم نے خصوصیت سے اس میں حصہ لیا۔ جَزَاہُمُ اللّٰہُ تَعَالٰی خَیْرَالْجَزَاء ۔ (4)

Related Articles

Back to top button
error: Content is protected !!