مواخات
مہاجرین اپنے وطن سے اہل وعیال اور بھائی بندوں کو چھوڑ کر بے سر وسامان چھپ کر نکلے تھے، اس لئے رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے مسجد جامع کی تعمیر کے بعد مہاجرین وانصار میں رشتہ اخوت قائم کیاتاکہ مہاجرین غربت کی وحشت اور اہل و عیال کی مفارقت محسوس نہ کریں اور ایک کو دوسرے سے مدد ملے۔ مہاجرین کی تعداد پینتالیس یا پچاس تھی آپ ہر دوفریق میں سے دودو کو بلا کر فرماتے گئے کہ یہ اور تم بھائی بھائی ہو۔ آپ کا یہ فرمانا تھاکہ وہ در حقیقت بھائی بن گئے چنانچہ جب حضور انور بِاَبِیْ ہُوَ وَ اُ مِّیْ نے حضرت عبدالرحمن بن عَوف قرشی زُہری اور حضرت سعد بن ربیع انصاری خزرجی میں رشتۂ برادر ی قائم کر دیا تو حضرت سعد نے حضرت عبدالرحمن سے کہا کہ انصارمیں میرے پاس
سب سے زیادہ مال ہے۔ میں اپنا مال آپ کو بانٹ دیتا ہوں ۔ میری دوبیویاں ہیں ، ان میں سے ایک کو جو آپ پسند کریں میں طلاق دے دیتا ہوں ۔ عدت گزرنے پر آپ اس سے نکاح کر لیجئے۔ حضرت عبدالرحمن نے کہا کہ آپ کے اہل اور آپ کا مال آپ کو مبارک ہو۔ کیا یہاں کوئی بازار تجارت ہے؟ انہوں نے بنو قَیْنُقَاع کے بازار کا راستہ بتا دیا۔ حضرت عبدالرحمن رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ شام کو نفع کا پنیر اور مکھن ساتھ لائے۔ اسی طرح ہر روزباز ار میں چلے جایا کرتے۔ تھوڑے عرصہ میں وہ مالد ار ہوگئے۔ ایک روزر سول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے ان کے بدن پر خوشبو کا نشان تھا۔ حضور انور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے پوچھا کہ یہ کیا ہے؟ عرض کی کہ میں نے انصار کی ایک عورت سے شادی کی ہے۔ حضور اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے پوچھا کہ مہر کتنا دیا؟ عرض کی کہ پانچ درہم بھر سونا۔ فرمایا کہ ’’ ولیمہ دو، خواہ ایک بکری ہو۔ ‘‘ (1) حضرت عبدالرحمن رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی طرح کئی اور مہاجرین نے بھی تجارت کا کام شروع کر دیا۔
حضرت ابو ہر یرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کا بیان ہے کہ عقدبر ادری کے بعد انصارنے رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے درخواست کی کہ آپ ہمارے نخلستان ہمارے بھائیوں اور ہم میں تقسیم فرمادیں ۔ آپ نے فرمایا: نہیں ! یہ سن کر انصار نے مہاجرین سے کہا کہ کام (درختوں کو پانی دینا وغیرہ ) تم کیا کرو، ہم تمہیں پھل میں شریک کرلیں گے۔ اس پر سب نے کہا: ’’ بسر وچشم ‘‘ (2) ۔ (3) یہ مساقات (4) کی صورت تھی۔ مگر بعض نخلستان محض مَنِیْحہ (5) کے طور پر بھی دیئے ہوئے تھے۔ جن میں کام بھی خودانصار کرتے تھے اور مہاجرین کو پیداوار کانصف دیتے تھے۔
یہ عقدبرادری نُصْرَت و مُوئَ اسات و تَوارُث پر تھا اس لئے جب کوئی انصاری وفات پاتاتھا تو اس کی جائیداد و مال
مہاجر کو ملتا تھا اور قریبی رشتہ دار محروم رہتے تھے۔ چنانچہ قرآن مجید میں ہے:
وَ الَّذِیْنَ تَبَوَّؤُ الدَّارَ وَ الْاِیْمَانَ مِنْ قَبْلِهِمْ یُحِبُّوْنَ مَنْ هَاجَرَ اِلَیْهِمْ وَ لَا یَجِدُوْنَ فِیْ صُدُوْرِهِمْ حَاجَةً مِّمَّاۤ اُوْتُوْا وَ یُؤْثِرُوْنَ عَلٰۤى اَنْفُسِهِمْ وَ لَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ ﳴ وَ مَنْ یُّوْقَ شُحَّ نَفْسِهٖ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَۚ (۹) (حشر، ع۱)
اور (فی ٔہے واسطے) ان لوگوں کے جنہوں نے مہاجرین سے پہلے دار السلام (مدینہ) اور ایمان میں جگہ پکڑی وہ دوست رکھتے ہیں ان کو جو وطن چھوڑ کر ان کے پاس آتے ہیں اور اپنے دلوں میں کوئی دغدغہ نہیں پاتے اس چیز سے جو مہاجرین کو دی گئی اور انکو اپنی جانوں سے اول رکھتے ہیں اگر چہ خود ان کو تنگی ہو اور جو کوئی اپنے نفس کے حرص سے بچایا جائے وہی لوگ ہیں فلاح پانے والے۔ (1)
صحیح (2) بخاری میں یہ قصہ مذکورہے کہ ایک بھوکا سائل جناب پیغمبر خدا صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی خدمت میں آیا۔ آپ نے گھر میں دریافت کیا کہ کچھ کھانے کوہے؟ جواب آیا: صرف پانی۔ آپ نے فرمایا کہ کون ہے جو اس کو اپنا مہمان بنا ئے؟ ایک انصاری نے کہا: میں حاضر ہوں چنانچہ وہ اسے اپنے گھر لے گیا اور بیوی سے کہا کہ رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے مہمان کو کھانا کھلاؤ، وہ بولی کہ صرف بچوں کی خوراک موجود ہے، کہا کہ تو وہ کھانا تیار کر اور چراغ روشن کر کے کھانے کے وقت بچوں کو سلا دینا، چنانچہ اس نے ایسا ہی کیا۔ جب میاں بیوی اور مہمان کھانے پر بیٹھے تو بیوی نے بتی اکسانے کے بہانہ سے اٹھ کر چراغ گل کر دیا۔ میاں بیوی بھوکے رہے اور اس طرح ہاتھ چلا تے رہے کہ گویا کھارہے ہیں ۔ صبح کووہ انصاری رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ نے فرمایا کہ رات اللّٰہ تعالٰی تمہارے نیک کام سے راضی ہوا اور وَ یُؤْثِرُوْنَ عَلٰیٓ اَنْفُسِہِم الآیۃ نازل فرمائی۔ (3)
جب ۴ھ میں بنو نَضِیر جِلاو طن ہوئے اور ان کے اَموال (اراضی ونخلستان) رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ
وَسَلَّم کے قبضہ میں آئے تو آپ نے تمام انصار کو بلا کر فرمایا: (1) اگر تم چاہتے ہو تو میں بنو نضیر کے اموال تم میں اور مہاجرین میں تقسیم کر دیتا ہوں اور مہاجرین تمہارے گھر وں اور اموال میں بد ستور رہیں گے اور اگر تم چاہتے ہو تو یہ اموال مہاجرین کو بانٹ دیتا ہوں اور وہ تمہارے گھروں اور اموال سے بے دخل ہوجائیں گے۔ حضرات سعد بن عُبَادہ اور سعد بن مُعاذ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا نے عرض کیا: یارسول اللّٰہ! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ان اموال کو آپ مہاجرین میں تقسیم کر دیجئے، وہ ہمارے گھر وں اور اموال میں بد ستور رہیں گے، یہ سن کر انصار بو لے یارسول اللّٰہ! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ہم اس پر راضی ہیں ۔ اس پر رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا: ’’ خدا یا! تو اَنصار اور اَبنائے اَنصار (2) پر رحم فرما۔ ‘‘ اس طرح حضور عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اموال بنی نضیر صرف مہاجرین میں تقسیم فرمادیئے۔ (3)
۸ ہجری میں رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے حضرت عَلاء بن الحَضْرَمی کو بغر ضِ تبلیغ ولایت بحرین (4) میں بھیجا۔ مُنْذِرْبن ساویٰ حاکم ِبحرین اور وہاں کے تمام عرب ایمان لا ئے باقی اہل ِبحرین (مجوس ویہودو نصاریٰ) نے جِزْیَہ پر صلح کرلی۔ رسول اللّٰہصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے انصار کو بلا یاتا کہ بحر ین کا جز یہ وخراج انصار کے لئے لکھ دیں ، مگر انصارنے عرض کیا: ’’ نہیں ! (5) اللّٰہ کی قسم! ایسا نہ کیجئے، یہاں تک کہ حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ہمارے قریشی بھائیوں کے لئے اتنا ہی مال لکھ دیں ۔ ‘‘ (6)
جب ۷ھ میں خیبر فتح ہو ا تو مہاجرین کے حصہ میں اس قدر مال آیا کہ ان کو انصار کے نخلستان کی حاجت نہ رہی، اس لئے انہوں نے وہ نخلستان جو بطورِ اباحت ان کے پاس تھے انصارکو واپس کر دیئے۔ (7)
________________________________
1 – صحیح بخار ی، کتاب المناقب، باب اخاء النبی صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم بین المہاجرین والانصار (صحیح البخاری، کتاب مناقب الانصار،باب اِخاء النبی۔۔۔الخ، الحدیث: ۳۷۸۰۔ ۳۷۸۱،ج۲،ص۵۵۴ملخصاً ۔علمیہ)
2 – بڑی خوشی سے۔
3 – صحیح بخاری، ابواب الحرث والمزارعۃ۔ (صحیح البخاری،کتاب الحرث والمزارعۃ،باب اذا قال اکفنی۔۔۔الخ، الحدیث: ۲۳۲۵،ج۲،ص۸۶۔ علمیہ)
4 – بیع کی ایک قِسْم۔
5 – تحفہ۔