محاصرۂ طائف
آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے غَنائم و اَسیر ان (2 ) جنگ کی نسبت حکم دیا کہ سب کو جمع کر کے جِعْرانہ (3 ) میں بھیج دیا جائے۔ بذات اقدس طائف (4 ) کی طرف روانہ ہوئے۔ روانگی کے وقت طفیل بن عَمرودُوسی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو بت ذُو الْکَفَّیْنکے منہدم کر نے کے لئے بھیجا اور حکم دیا کہ اپنی قوم سے مدد لے کر ہم سے طائف میں آملو، حضرت طفیل رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ اپنی قوم کے رئیس تھے انہوں نے بت کو جلا دیا اور قبیلہ دُوس کے چار سو آدمی اور دبابہ و منجنیق لے کر طائف میں حاضر خد مت اقدس ہوئے۔
ثَقِیف اَوطاس سے بھاگ کر طائف میں چلے آئے تھے۔ یہاں ایک قلعہ تھااس کی مرمت کر کے ایک سال کا سامان رسد (5) لے کر اس میں پناہ گزین تھے۔ لشکر اسلام اس قلعہ کے قریب اتر ا اسلام میں یہ پہلا موقع تھا کہ قلعہ شکن آلا ت استعمال میں لائے گئے۔مسلمانوں نے منجنیق (6 ) نصب کیا تو اہل قلعہ نے تیروں کا مینہ برسانا شروع کیا بار ہ غازی شہید ہو گئے۔دبابہ ( 7) استعمال کیا گیا تو ثقیف نے لوہے کی گرم سلاخیں بر سائیں جن سے دبابہ جل گیا اور نقصانِ جان بھی ہوا، پھر رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی طرف سے منادی کردی گئی کہ کفار کا جو غلام قلعہ سے ہمارے پاس آئے گاوہ آزاد کر دیا جائے گا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ تیس غلام قلعہ سے اتر کر حاضر خدمت ہوئے، وہ سب آزاد کر دیئے گئے اور
ایک ایک کرکے مسلمانوں کے حوالہ کر دیئے گئے کہ ان کی ضروریات کے مُتَکَفِّل ہوں اور ان کو تعلیم اسلام دیں ۔ ان غلاموں میں حضرت نُفَیع بن حارِث رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ تھے جو چرخ چاہ (1 ) پر لٹک کر قلعہ کی دیوار سے اتر ے تھے۔ اس لئے رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ان کی کنیت ابو بکرہ (2 ) رکھ دی۔
دو ہفتہ بلکہ اس سے زیادہ محاصرہ قائم رہامگر قلعہ فتح نہ ہوا۔آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے حضرت نوفل بن معاویہ دَیْلی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے مشورہ کیا۔ انہوں نے عرض کیا کہ ’’ لو مڑی بَھٹ میں ہے۔اگر آپ کو شش جاری رکھیں گے تو اسے پکڑلیں گے اور اگر اسے چھوڑ جائیں تو آپ کو مضر نہیں ۔ ‘‘ غرض محاصرہ اٹھا لیا گیا۔جب واپس آنے لگے تو صحابہ کرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُم نے آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے عرض کیا: ’’ یا رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ! ثقیف کے تیروں نے ہم کو جلادیا، آپ ان پر بددعا فرمائیں ۔ ‘‘ اس پر آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے یوں دعا فرمائی : ’’ اَللّٰھُمَّ اھْدِ ثَقِیْفًا وَائْتِ بِھِمْ مُسْلِمِیْن ‘‘ (3 ) اے خدا! تو ثقیف کو ہدایت دے اور ان کو (مسلمان بنا کر ) لا۔ اس دعا ئے رحمۃ للعالمین کا نتیجہ یہ ہوا کہ ۹ھ میں ثقیف کے وفد نے حاضر خدمت اقدس ہو کر اظہار اسلام کیا۔
آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم طائف سے جعرانہ میں تشریف لائے۔ یہاں غنائم حنین واو طاس جمع تھیں ، جن کی تفصیل یہ ہے :
اسیر ان جنگ (زَنان و اَطفال ) 6000
اُونٹ 24000
بکریاں 40000سے زائد
چاندی 4000 ۱وقیہ
آپ نے دس دن سے کچھ زیادہ ہَو ازِن کا انتظار کیا۔وہ نہ آئے تو آپ نے مال غنیمت میں سے طُلَقا ء و مہاجرین کو دیا اور اَنصار کو کچھ نہ دیا۔ اس پر اَنصار کو رنج ہواان میں سے بعضے کہنے لگے: ’’ خدا رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو معاف کر دے۔ وہ قریش کو عطا فرماتے ہیں اور ہم کو محروم رکھتے ہیں حالانکہ ہماری تلواروں سے قریش کے خون
کے قطرے ٹپکتے ہیں ‘‘ اور بعض بولے: ’’ جب مشکل پیش آتی ہے تو ہمیں بلا یا جاتا ہے اور غنیمت اَوروں کو دی جاتی ہے۔ ‘‘
آنحضرتصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ سَلَّم نے یہ چر چا سناتو اَنصار کو طلب فرمایا۔ایک چرمی (1 ) خیمہ نصب کیا گیا جس میں آپ نے انصار کے سوا کسی اور کونہ رہنے دیا۔ جب انصار جمع ہو گئے تو آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے پو چھا کہ ’’ وہ کیا بات ہے جو تمہا ری نسبت میرے کان میں پہنچی ہے۔ ‘‘ انصار جھوٹ نہ بولا کر تے تھے کہنے لگے کہ سچ ہے جو آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے سنا مگر ہم میں سے کسی دانا نے ایسا نہیں کہا نو خیز جوانوں نے ایسا کہا تھا۔ یہ سن کر آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے حمد وثنا کے بعد یوں خطاب فرمایا:
یَامَعْشَرَ الْاَنْصَارِ اَلَمْ اَجِدْکُمْضُلَّالًا (2 ) فَھَدَاکُمُ اللّٰہُ بِیْ وَکُنْتُمْ مُتَفَرِّقِیْنَ فَاَلَّفَکُمُ اللّٰہُ بِیْ وَکُنْتُمْ عَالَۃً فَاَغْنَاکُمُ اللّٰہُ بِیْ ۔اے گر وہ انصار! کیا یہ سچ نہیں کہ تم گمراہ تھے، خدا نے میرے ذریعہ سے تم کو ہدایت دی اور تم پرا گندہ (3 ) تھے، خدا نے میرے ذریعہ سے تم کو جمع کر دیا اور تم مفلس تھے، خدا نے میرے ذریعہ سے تم کو دولت مند کر دیا۔
آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم یہ فرماتے جاتے تھے اور انصار ہر فقرے پر کہتے جاتے تھے کہ ’’ خدا اور رسول کا احسان اس سے بڑھ کرہے۔ ‘‘
آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایاکہ تم مجھے جو اب کیوں نہیں دیتے۔انصار نے عرض کیا یارسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ہم کیا جواب دیں خدا اور رسول کا احسان اور فضل ہے۔ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا: بخدا! اگر تم چاہوتویہ جواب دومیں ساتھ ساتھ تمہاری تصدیق کر تا جا ؤں گا:
اَتَیْتَنَا مُکَذَّبًا فَصَدَّقْنَاکَ وَ مَخْذُوْلًا فَنَصَرْنَاکَ وَ طَرِیْدًا فَاٰوَیْنَاکَ وَ عَآئِلاً فَوَاسَیْنَاکَ
تو ہمارے پاس اس حال میں آیا کہ لوگوں نے تیری تکذیب کی تھی، ہم نے تیری تصدیق کی، لوگوں نے تیرا ساتھ چھوڑ دیا تھا، ہم نے تیری مدد کی، لوگوں نے تجھ کو نکال دیا تھا ہم نے تجھے پناہ دی، تو مفلس تھا ہم نے جان ومال سے تیری ہمدردی کی۔
پھر فرمایا کہ میں نے تا لیف قلوب کے لئے اہل مکہ کے ساتھ یہ سلوک کیا ہے ’’ اے انصار! کیا تمہیں یہ پسند نہیں
کہ لوگ اونٹ بکریاں لے کر جائیں اور تم رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو لے کر گھر جاؤ۔ اللّٰہ کی قسم! تم جو کچھ لے جا رہے ہو وہ اس سے بہتر ہے جو وہ لے جارہے ہیں ۔ اگر لوگ کسی وادی یا دَرَّہ میں چلیں تو میں اَنصار کی وادی یا دَرَّہ میں چلوں گا۔ ‘‘ (1 ) یہ سن کر انصار پکا ر اٹھے: ’’ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ رَضِیْنَا ‘‘ (یا رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمہم راضی ہیں ) اور ان پر اس قدررقت طاری ہو ئی کہ روتے روتے ڈاڑ ھیاں تر ہوگئیں ۔ (2 )
جب جِعرانہ میں اسیر ان جنگ کی تقسیم بھی ہوچکی تو ہوازِ ن کی سفارت (وفد) حاضر خدمت اقدس ہو ئی۔ آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی رضا عی ماں حلیمہ قبیلہ سعد بن بکربن ہو ازِن سے تھیں ۔ اس سفارت میں آپ کا رضا ئی چچا ابو ثُر وان (یاابو بُرقان) بن عبد العزی سَعَد ی بھی تھا۔ سفارت کا رئیس زُہَیْر بن صُرَد سعدی جُشَمی تھا۔ وفد نے پہلے اپنی طرف سے اور اپنی قوم کی طرف سے اظہار اسلام کیا اور آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے دست مبارک پر بیعت کی پھر حضرت زُہَیْر بن صُرَد رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے یوں تقریر کی: (3 )
’’ یا رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم اَسیران جنگ میں سے جو عورتیں چھپروں میں ہیں وہ آپکی پھوپھیاں اور خالا ئیں اور دایہ ہیں جو آپ کی پر ور ش کی کفیل تھیں ۔ اگر ہم نے حارث بن ابی شِمْرْ (امیر شام ) یا نعمان بن مُنْذِر (شا ہِ عراق) کو دودھ پلا یا ہوتاپھر اس طرح کی مصیبت ہم پر آپڑتی تو ہمیں اس سے مہر بانی وفائدہ کی تو قع ہو تی مگر آپ سے تو زیادہ تو قع ہے کیونکہ آپ فضل وشرف میں ہر مَکْفُول سے بڑھ کرہیں ۔ ‘‘ (4 )
اس کے بعد حضرت ابو ثُروان رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُنے یوں عرض کیا : (5 ) ’’ یارسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ان چھپروں میں آپ کی پھو پھیاں خالا ئیں اور بہنیں ہیں جو آپ کی پرورش کی کفیل تھیں ۔ انہوں نے آپ کو اپنی گو دوں میں پا لا اور اپنے پستان سے دودھ پلا یا۔ میں نے آپ کو دودھ پیتے دیکھا کو ئی دودھ پیتا بچہ آپ سے بہتر نہ
دیکھا۔ میں نے آپ کو دودھ چھڑایا ہوا دیکھا کوئی دودھ چھڑایا بچہ میں نے آپ سے بہتر نہ دیکھا پھر میں نے آپ کو نوجوان دیکھا کوئی نوجوان آپ سے بہتر نہ دیکھا۔ آپ میں خصالِ خیر (1 ) کامل طور پر موجود ہیں اور باو جود اس کے ہم آپ کے اہل وکنبہ ہیں آپ ہم پر احسان کریں اللّٰہ تعالٰی آپ پر احسان کرے گا۔ ‘‘
یہ تقریر سن کر آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا کہ میں نے انتظار کے بعد تقسیم کی ہے۔ اب تم اسیران جنگ وغنائم میں ایک اختیار کر لو۔ انہوں نے کہا کہ ہم اسیر ان جنگ کی رہائی چاہتے ہیں ۔ آپ نے فرمایاکہ مجھے اپنے خاندان کے حصہ کا اختیار ہے۔ باقی کے لئے اوروں کی اجازت در کار ہے تم نماز ظہر کے بعد اپنی درخواست پیش کرنا۔ چنانچہ نماز ظہر کے بعد انہوں نے اظہار مطلب کیاپھر آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے حمد وثنا ء کے بعد یوں خطاب (2 ) فرمایا: ’’ تمہارے بھائی مسلمان ہو کر آئے ہیں ۔میری رائے ہے کہ اسیر ان جنگ ان کو واپس کردوں تم میں سے جو بغیر عوض واپس کر نا چاہتے ہیں کر دیں اور جو عوض لینا چاہتے ہیں ہم پہلی غنیمت میں سے جو ہاتھ آئے گی ادا کر دیں گے۔ ‘‘ قصہ کو تاہ تمام مہاجرین وانصار نے بغیر عوض واپس کر دینا منظور کر لیااس طرح چھ ہزار رہا کر دیئے گئے۔