لوگوں کی تقدیر میں کیاہے؟
عبداللہ بن مسلمہ کہتے ہیں کہ ہمارے قبیلہ کا ایک وفد امیرالمؤمنین حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بارگاہ خلافت میں آیا تو اس جماعت میں اشترنام کا ایک شخص بھی تھا۔
امیرالمؤمنین رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس کو سر سے پیر تک باربار گرم گرم نگاہوں سے دیکھتے رہے پھر مجھ سے دریافت فرمایا کہ کیا یہ شخص تمہارے ہی قبیلہ کا ہے ؟میں نے کہا کہ ’’جی ہاں‘‘ اس وقت آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ خداعزوجل اس کو غارت کرے اور اس کے شروفساد سے اس امت کو محفوظ رکھے ۔ امیر المؤمنین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اس دعا کے بیس برس بعد جب باغیوں نے حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو شہید کیا تو یہی ’’اشتر‘‘اس باغی گروہ کا ایک بہت بڑا لیڈر تھا۔
اسی طرح ایک مرتبہ حضرت عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ ملک شام کے کفار سے جہاد کرنے کے لیے لشکر بھرتی فرمارہے تھے۔ ناگہاں ایک ٹولی آپ کے سامنے آئی تو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے انتہائی کراہت کے ساتھ ان لوگوں کی طرف سے منہ پھیرلیا۔ پھر دوبارہ یہ لوگ آپ کے روبروآئے تو آپ نے منہ پھیرکر ان لوگوں کو اسلامی فوج میں بھرتی کرنے سے انکار فرمادیا۔ لوگ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اس طرز عمل سے انتہائی حیران تھے لیکن آخر میں یہ راز کھلا کہ اس ٹولی میں "اسودتجیبی”بھی تھا جس نے اس واقعہ سے بیس برس بعد حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اپنی تلوار سے شہید کیا اوراس ٹولی میں عبدالرحمن بن ملجم مرادی بھی تھا جس نے اس واقعہ سے تقریباًچھبیس برس کے بعد حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اپنی تلوار سے شہید کرڈالا۔(1) (ازالۃ الخفاء،مقصد۲،ص۱۶۹و۱۷۲)
تبصرہ
مذکورہ بالا کرامتوں میں آپ نے ربیعہ بن امیہ بن خلف کے خاتمہ کے بارے میں برسوں پہلے یہ خبر دیدی کہ وہ کافر ہوکرمرے گا اوربیس برس پہلےآ پ نے
"اشتر”کے شروفساد سے امت کے محفوظ رہنے کی دعامانگی اور”اسودتجیبی”سے اس بناء پر منہ پھیرلیا اوراسلامی لشکر میں اس کو بھرتی کرنے سے انکار کردیا کہ یہ دونوں حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے قاتلوں میں سے تھے اورچھبیس برس پہلے آپ نے عبدالرحمن بن ملجم مرادی کو بنظر کراہت دیکھا اوراسلامی لشکر میں اس بناء پر بھرتی نہیں فرمایا کہ وہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا قاتل تھا۔
ان مستندروایتوں سے یہ ثابت ہوتاہے کہ اولیاء کرام کو خداوند قدوس کے بتادینے سے آدمیوں کی تقدیروں کا حال معلوم ہوجاتا ہے۔ اسی لئے حضرت مولانا جلال الدین رومی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اپنی مثنوی شریف میں فرمایا ہے ؎
لوح محفوظ است پیش اولیاء
از چہ محفوظ است محفوظ از خطاء
یعنی لوح محفوظ اولیاء کرام کے پیش نظر رہتی ہے جس کو دیکھ کر وہ انسانوں کی تقدیروں میں کیا لکھا ہے؟اس کو جان لیتے ہیں۔ لوح محفوظ کو اس لئے لوح محفوظ کہتے ہیں کہ وہ غلطیوں اورخطاؤں سے محفوظ ہے ۔