لذت گنا ہ :
لذت گنا ہ :
جو لوگ پناہِ الٰہی میں پورے طورسے آکر شیطان کی وسوسہ اندازی اور مکر تز ویر بمقتضا ئے بشریت گناہ کے مرتکب ہو بھی جا تے ہیں تو ان کو گناہ کچھ ضروری نہیں دیتا،کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ گناہ سے جو لذت حاصل ہوئی وہ ایک نعمت الٰہی تھی جس کی
تخلیق میں سوائے خداے تعالیٰ کے کسی کو دخل نہیں ۔ اگر بجائے لذت کے اس میں مصیبت ہوتی تو ممکن نہیں کہ اس کا ارتکاب ہو سکتا ۔ مثلا ً دیکھئے کیسے ہی لذیذ کھانے مہیا ہو ں اگر منہ میں چھالے پڑجا ئیں تو بجائے لذت کے ان کو کھانے میں اذیت ہوتی ہے ۔علیٰ ہذ االقیاس ہر ایک عضو جس میں حسّ کو لذت کا احساس ہوتا ہے اس میں کوئی اافت آجائے تو جس کام سے التذاذ ہو تا ہے وہی کام اس کے حق میں عذاب ہوجا تا ہے ۔غرض کہ لذت دینا خداے تعالیٰ کا کام ہے ۔
اعلیٰ درجہ کا لشکر :
صحیح حدیث میں وارد ہے کہ حق تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام پر وحی نازل کی کہ : اے موسیٰ تم میرا ایسا شکر کرو جیسا کہ شکر کرنے کا حق ہے !انہوں نے عرض کی : یا اللہ کس کو یہ طاقت ہے کہ ایسا شکر ادا کر سکے ؟ ارشاد ہوا : اے موسیٰ جب تم سمجھ لوگے کہ نعمت میری طرف سے ہے تو یہی اعلیٰ درجہ کا شکر ہو جائے گا ۔
خلق افعال وا رتکاب افعال میں فرق :
اگر چہ جائز نہیں کہ گناہ کر کے آدمی اللہ تعالیٰ کا شکر کرے ۔ مگر یہ اعتقاد رکھنا بھی لازمی تھا کہ جتنے افعال بندے سے صادر ہو تے ہیں سب کا خالق خداے تعالیٰ ہے ۔بخلاف اس کے اگر یہ اعتقاد کرے کہ شیطان اس فعل کا خالق ہے اس وجہ سے کہ یہ شیطانی فعل تھا تو یہ اعتقاد حد کفر کو پہنونچ جائے گا ۔ پھر اس اعتقاد کے موافق جب اس فعل میں خدا ے تعالیٰ کے خالق ہو نے کا خیال کیا جائے تو بحسب شرع شریف اس پر کوئی الزام عائد نہیں ہو سکتا ،بشرطیکہ اس کے ساتھ یہ اعتقاد بھی ہو کہ اس فعل سے خدا ے تعالیٰ منع فرمایا ہے اور اس کا مرتکب مستحق عقاب ہے۔ کیونکہ خلق افعال اور ارتکاب افعال میں بین فرق ہے ،اُس کا تعلق خداے تعالیٰ سے ہے اور اِس کا تعلق بندے سے ۔اس کا حسن اس وجہ سے ہے کہ وہ فعل خاص خداے تعالیٰ کا پید ا کیا ہوا ہے ، او ر قبح اس وجہ سے کہ خدا ے تعالیٰ نے اس کے ارتکاب سے منع فر مایا ہے
بری چیز کی تخلیق بری نہیں :
خداے تعالیٰ نے جس چیز کو پیدا کیا خواہ وہ اچھی سمجھی جائے یا بری ،اس کا پیدا کرنا برا نہیں ہوسکتا ۔ بلکہ یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ جس چیز کو خدا ے تعالیٰ نے پیدا کیا وہ بری نہیں ہو سکتی کیونکہ برائی اور بھلائی باعتبار آثار و لوازم کے ہوا کر تی ہے ،نفس شئے کواس سے کوئی تعلق نہیں، اس لئے کہ یہ امور اس کی ذات سے خارج ہیں ۔مثلاً دیکھئے کہ آگ خداے تعالیٰ کی مخلوق ہے،اس کو نہ بری کہنے کی ضـرورت ہے نہ اچھی کہنے کی بلکہ صرف وہ آگ ہے ،اس کے بعد اگر وہ کسی کو جلادے تو وہ ضرور کہے گا کہ کیا ہی بری چیز ہے ، اور اگر کھانا پکادے تو اعلیٰ درجے کی نعمت سمجھے گا ۔اسی پر تمام چیزوں کو قیاس کر لیجئے ۔سانپ اس وجہ سے برا سمجھا جا تا ہے کہ آدمی اس کے زہر سے ہلاک ہو جا تاہے ،اور کہا جا تا ہے کہ اگر جذامی کو ڈس لے تو اس کو صحت ہو جا تی ہے ،اس صورت میں جذامی اس کا عاشق ہو گا اور تلاش کر کے اس سے ملنا چاہے گا ۔اس سے ظاہر ہے کہ کوئی شیز فی حدِ ذاتہ ٖ بری نہیں ،بلکہ موجود ہونے کی حیثیت سے اچھی ہے ، اگر کوئی بری چیز ہے تو عدم ہے ۔
یہ اشیاء کا حال تھا ،اسی طرح افعال کا حال بھی ہے کہ موجود ہو نے کی حیثیت سے کل افعال اچھے ہیں ،او رنیز اس وجہ سے کہ خاص خداے تعالیٰ کے پیدا کئے ہو ئے ہیں ،جس کی حکمت کا یہ مقتضیٰ نہیں ہو سکتا کہ دیدہ ودانستہ بری چیز کو پیدا کرے ۔غرض کہ فعل بھی فی نفسہ ایک موجود چیز ہے ،جس کی برائی یا بھلائی با عتبار آثار ولوازم کے ہوگی ۔ جتنے برے کام ہیں چونکہ ان کے لوازم برے ہیں اس وجہ سے وہ برے ہیں ، ورنہ ان کو برے کہنے کی کوئی ضرورت نہیں ۔ بسااوقات اچھے کام بھی کسی وجہ سے برے کام ہو جا تے ہیں اور برے کام اچھے ، مثلاً کثرت عبادت سے بہتر کوئی چیز نہیں مگر ریاء وغیرہ کی وجہ سے وہ بری ہو جا تی ہیں :
کلید درِ دوزخ است آں نماز
کہ از بہر مرد م گزاری دراز
لیجئے نماز جو باعث دخول جنت ہے وہ دوزخ کی کنجی ہو ئی جارہی ہے !!
حضرت عمرؓ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کے ارادے سے نکلے تھے تب ان کا اس ارادے سے راہ طے کرنا کیسا فعل تھا ؟ نبی کے قتل
سے بدتر کوئی فعل نہیں ہوسکتا ،مگر جب اس فعل کے ذریعہ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تک پہونچ کر مشرف باسلام ہو ئے تو ایسے فعل کو جو ابد الآباد تک فضیلت کا باعث ہوا اگر تمام اعمال حسنہ سے اچھا کہا جائے تو بے موقعہ نہ ہوگا !دیکھئے یہ ایک ہی فعل ہے یعنی چل کر رہ طے کر نا ایک اعتبار بدترین افعال تھا ،اور ایک اعتبارسے بہترین افعال ہوا ۔غرضکہ نفس فعل نہ برا ہے نہ اچھا ،بلکہ وجود کے اس کو اچھا بھی کہہ سکتے ہیں ۔جب یہ معلوم ہو گیا کہ افعال میں برائی او ربھالائی بحسب اعتبار ہے تو اس اعتبارسے کہ آدمی کو جس فعل میں تلذذ ہواسے نعمت کہنے میں کوئی تامل نہیں ، یہ صحیح ہے کہ شرعاً ممنوع ہو نے کی وجہ سے اس کا نتیجہ برا ہوگا ،ا س اعتبارسے اس کو براکہنا بھی ضروری ہے ،مگر ارتکاب کے وقت اس میں و ہ برائی موجود نہیں جو آئندہ جزاء کے وقت ہونے والی ہے ، اس لحاظ سے یوں کہہ سکتے ہیں کہ وہ فعل تو تلذ ذکر کی وجہ سے نعمت تھا مگر اس کی جزاء بری ہے جس سے اذیت حاصل ہوگی ۔جس کا مطلب یہی ہوا کہ فعل فی نفسہ اچھا بلکہ ایک نعمت تھا جو مستو جب شکر ہے مدارج میں خلط نہ کیا جائے تو نفس فعل قابل شکر ہے اور اس کی جزاء قابل اجتناب ۔
جولوگ پناہِ اِلٰہی میں آجا تے ہیں اگر ان سے کوئی گنا ہ صادر ہوجاتا ہے تو اس لحاظ سے کہ نعمت ہے شکر الٰہی دل سے بجالاتے ہیں ،اور اس کے ساتھ ہی یہ بھی اقراراکر تے ہیں کہ بے شک ہم سے گنا ہ صادر ہوا جس کا انجام برا ہے اور اس کے شر سے پناہ مانگتے ہیں