قبر میں تلاوت
حضرت طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں اپنی زمین کی دیکھ بھال کے لیے ”غابہ ”جا رہا تھا تو راستہ میں رات ہوگئی ۔ اس لئے میں حضرت عبداللہ بن عمروبن حرام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی قبر کے پاس ٹھہر گیا ۔ جب کچھ رات گزرگئی تو میں نے
ان کی قبر میں سے تلاوت کی اتنی بہترین آواز سنی کہ اس سے پہلے اتنی اچھی قرأت میں نے کبھی بھی نہیں سنی تھی ۔
جب میں مدینہ منورہ کو لوٹ کرآیا اورمیں نے حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم سے اس کا تذکرہ کیا تو آپ نے ارشاد فرمایا کہ کیا اے طلحہ! تم کو یہ معلوم نہیں کہ خدا نے ان شہیدوں کی ارواح کو قبض کر کے زبرجد او ریاقوت کی قندیلوں میں رکھا ہے اور ان قندیلوں کو جنت کے باغوں میں آویزاں فرمادیاہے جب رات ہوتی ہے تو یہ روحیں قندیلوں سے نکال کر ان کے جسموں میں ڈال دی جاتی ہیں پھرصبح کو وہ اپنی جگہوں پر واپس لائی جاتی ہیں ۔(1)(حجۃ اللہ علی العالمین، ج۲،ص۸۷۱بحوالہ ابن مندہ)
تبصرہ
یہ مستند روایات اس بات کا ثبوت ہیں کہ حضرا ت شہداء کرام اپنی اپنی قبروں میں پورے لوازم حیات کے ساتھ زندہ ہیں اوروہ اپنے جسموں کے ساتھ جہاں چاہیں جاسکتے ہیں تلاوت کر سکتے ہیں اور دوسرے قسم قسم کے تصرفات بھی کرسکتے اور کرتے ہیں۔