عورتوں پر شفقت ورحمت
اسلام سے پہلے یہ صنف نازک قَعْرِ مذلت میں گری ہوئی اور مردوں کے اِستبداد کا تختۂ مشق بنی ہوئی تھی۔ عرب میں اِزدِوَاج کی کوئی حد نہ تھی۔چنانچہ حضرت غِیْلان ثَقَفِی ایمان لائے تو ان کے تحت میں دس عورتیں تھیں ۔جب کوئی شخص مر جاتا تو اس کا بیٹا اپنی سوتیلی ماں کو وِرَاثت میں پاتا۔ وہ خوداس سے شادی کر لیتایا اپنے بھائی یا قریبی کو شادی کے لئے دے دیتاورنہ نکاح ثانی سے منع کر تا۔ اسی طرح اور خرابیاں بھی تھیں جن کا ذکر پہلے آچکا ہے۔
ہندوستان میں کثرت اِزدِوَاج اور نیوگ ( 6) کو جائز سمجھا جا تا تھا۔شوہرمر جاتا تو بیوہ نکاحِ ثانی نہ کرسکتی تھی بلکہ اسے دنیا میں زندہ رہنے کا کوئی حق نہ تھاوہ شوہر کی چِتَا ( ( 7) میں زندہ جل کر بھسم ہو جاتی اور سَتِی کا پوتر لقب (8 ) حاصل کرتی۔ طُرْفَہ یہ ( 9) کہ ایساحکم صرف عورتوں ہی کے لئے تھاشوہر عورت کی چتامیں نہ جلتا۔
بعض ملکوں مثلاً تِبَّت میں کثرت اِزدِوَ اج کا عکس پایا جاتا تھااگر عورت ایک مر دسے شادی کرتی تو وہ اس مرد کے دوسرے بھائیوں کی بھی زوجہ سمجھی جاتی تھی۔ مجوسیوں کے ہاں بیٹی اور ماں سے بھی نکاح جائز سمجھاجاتا تھا۔
مسیحی بیاض تعلیم (1 ) میں عورت کی عزت واحترام کا کوئی پتہ نہیں چلتاخود حضرت مسیح عَلَیْہِ السَّلَام اپنی والد ہ ماجد ہ کو اے عورت کہتے ہیں ۔ ( یوحنا، باب ۱۹، آیہ ۲۶) اور ستم دیکھئے ، شوہر عنین (2 ) ہو، خصی (3 ) ہو، مجبوب (4 ) ہو، مجنون ( 5) ہو یا سزایا فتہ حبس دوام ( 6) ہو۔ ان حالات میں اِنجیل مقدس نے عورت کی خلاصی کی کوئی صورت نہیں بتائی مگر یہ کہ زِنا جیسے کبیر ہ گنا ہ کا اِر تکاب کرے۔ (متی ، باب ۵، آیہ ۳۲۔باب ۱۹، آیہ ۹۔)
جزیرہ پاپؤا (نیوگنی) کے قدیم باشند وں کے حالات جواب معلوم کیے گئے ہیں ان سے پتہ چلتا ہے کہ ’’ ان میں شوہر کواپنی عورت پرپورا اختیار حاصل تھا وہ اپنے شوہر کامال تھی کیونکہ خاوند اس کیلئے ایک رقم ادا کر تا تھابعض حالات میں شوہر اس کو قتل کر سکتا تھا۔ ‘‘ ( 7)
دنیا کے کسی مذہب میں والد ین یا شوہر کے ترکہ میں عورت کا کوئی حق نہ تھا اور اب تک بھی اسلام کے سوا کسی مذہب نے عورت کو ترکہ میں کسی کا حقدار نہیں ٹھہرایا۔
آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی تشریف آوری سے اس ذلیل ومظلوم گر وہ کی وہ حق رسی ہوئی کہ دنیا کے کسی مذہب میں نہیں پائی جاتی۔حضور عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے عورت کو عزت واحترام کے دربار میں مردوں کے برابر جگہ دی اور مذکورہ بالا مفاسد کا اِنسداد (8 ) فرمادیا۔
اسلام سے پہلے کثرت اِزدِواج کی کوئی حد نہ تھی جیسا کہ اوپر بیان ہوااسلام نے اسے بصورتِ ضرورت چار تک محدود کر دیا اور چار کو بھی شرطِ عدل پر مُعَلَّق رکھا۔ بصورتِ فقدانِ عدل صرف ایک پر مقصور کر دیا۔مرد عورت پرحاکم ہے اس لئے رَعیت کا تَعَدُّد (9 ) ایک حدتک جائز رکھا گیا مگر حاکم کا تَعَدُّد (10 ) جائز نہیں ہو سکتا اس لئے ایک عورت کے متعدد شوہر نہیں ہوسکتے۔ قرآن مجید میں محرمات کی تفصیل مو جود ہے جن میں ماں اور بیٹی داخل ہیں ۔ خود کشی خواہ کسی طرح ہو منع ہے۔ چنانچہ ارشاد باری تعالٰی ہے :
وَ لَا تَقْتُلُوْۤا اَنْفُسَكُمْؕ- (نساء، ع۵)
اور نہ مارڈالو اپنے آپ کو۔