علم کاشعبہ اختیار کیا
علم کاشعبہ اختیار کیا
جلیل القدر تابعی حضرتِ سیِّدُنا سالِم بن ابی جَعْدعلیہ رَحمَۃُ اللّٰہِ الْاَحَدفرماتے ہیں : مجھے میرے مالک نے تین سو درہم میں خرید کر آزاد کر دیا، میں نے سوچا کون سا کام کروں ؟بالآخر علم کے شعبہ کو اختیار کیا، ایک سال بھی نہ گزرا تھاکہ شہر کا حاکم میر ی ملاقات کو آیالیکن میں نے اسے اجازت نہ دی۔(اِتحافُ السّادَۃ للزّبیدی، ۱/۱۴۰)
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!علمِ دین کے فضائل کی کیا بات ہے ! صَدرُ الشَّریعہ، بدرُ الطَّریقہ حضرتِ علّامہ مولانامفتی محمد امجد علی اعظمی علیہ رحمۃُ اللّٰہِ القویارشاد فرماتے ہیں : علم ایسی چیز نہیں جس کی فضیلت اور خوبیوں کے بیان کرنے کی حاجت ہو ساری دنیا جانتی ہے کہ علم بہت بہتر چیز ہے اس کا حاصل کرنا طغرائے
امتیاز (یعنی بلندی کی علامت)ہے ۔یہی وہ چیزہے کہ اس سے انسانی زندگی کامیاب اور خوشگوار ہوتی ہے اور اسی سے دنیا و آخرت سدھرتی ہے ۔(اس سے )وہ علم مراد ہے جو قرآن و حدیث سے حاصل ہو کہ یہی علم وہ ہے جس سے دنیا و آخرت دونوں سنورتی ہیں اور یہی علم ذریعۂ نجات ہے اور اسی کی قرآن و حدیث میں تعریفیں آئی ہیں اور اسی کی تعلیم کی طرف توجہ دلائی گئی ہے قرآن مجید میں بہت سے مواقع پر اس کی خوبیاں صراحۃً یا اشارۃً بیان فرمائی گئیں ۔(بہار شریعت ، ۳/ ۶۱۸، ملخصاً)
جاہل بھی عالم کہے جانے پر خوش ہوتا ہے
حضرتِ سیِّدُنا علی المرتضیکَرَّمَ اللّٰہ تعالٰی وَجہَہُ الکرِیم ارشاد فرماتے ہیں : علم کی شرافت وبزرگی کے لئے یہ بات کافی ہے کہ جو شخص اچھی طرح علم نہیں جانتا وہ بھی اس کا دعوی کرتا اور اپنی طرف علم کی نسبت کئے جانے پر خوش ہوتا ہے جبکہ جہالت کی مذمت کے لئے اتنا کافی ہے کہ جو شخص جہالت میں مبتلا ہو وہ بھی اس سے بَرائَ ت ظاہر کرتا ہے ۔(المجموع شرح المہذب، ۱/۱۹)
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب ! صلَّی اللّٰہُ تعالٰی علٰی محمَّد