’ علم غیب ‘‘ کے متعلق قرآنی مدنی پھول
’’ وَ مَا كَانَ اللّٰهُ لِیُطْلِعَكُمْ عَلَى الْغَیْبِ وَ لٰكِنَّ اللّٰهَ یَجْتَبِیْ مِنْ رُّسُلِهٖ مَنْ یَّشَآءُ ۪- ‘‘ اور اللّٰہ کی شان یہ نہیں کہ اے عام لوگوتمہیں غیب کا علم دے دے ہاں اللّٰہ چُن لیتا ہے اپنے رسولوں سے جسے چاہے۔ شانِ نزول: رسول کریمصَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَآلَہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا کہ خلقت و آفرنیش سے قبل جب کہ میری امت مٹی کی شکل میں تھی اسی وقت وہ میرے سامنے اپنی صورتوں میں پیش کی گئی جیسا کہ حضرت آدم پر پیش کی گئی اور مجھے علم دیا گیا کہ کون مجھ پر ایمان لائے گا کون کفر کرے گا یہ خبر جب منافقین کو پہنچی تو انہوں نے براہِ استہزاء کہا کہ محمد مصطفےصَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَآلَہٖ وَسَلَّمَکا گمان ہے کہ وہ یہ جانتے ہیں کہ جو لوگ ابھی پیدا بھی نہیں ہوئے ان میں سے کون ان پر ایمان لائے گا کون کفر کرے گا باوجود یکہ ہم ان کے ساتھ ہیں اور وہ ہمیں نہیں پہچانتے اس پر سید عالمصَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَآلَہٖ وَسَلَّمَنے منبر پر قیام فرماکر اللّٰہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کے بعد فرمایا ان لوگوں کا کیا حال ہے جو میرے علم میں طعن کرتے ہیں آج سے قیامت تک جو کچھ ہونے والا ہے اس میں سے کوئی چیز ایسی نہیں ہے جس کا تم مجھ سے سوال کرو اور میں تمہیں اس کی خبر نہ دے دوں ۔ عبداللّٰہ بن حذافہ سہمی نے کھڑے ہو کر کہا : میرا باپ کون ہے یارسول اللّٰہصَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَآلَہٖ وَسَلَّمَفرمایا : حذافہ پھر حضرت عمر رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ کھڑے ہوئے انہوں نے فرمایا: یارسول اللّٰہ! ہم اللّٰہ کی ربوبیت، اسلام کے دین ہونے ، قرآن کے امام ہونے ، آپ کے نبی ہونے پر راضی ہوئے ہم آپ سے معافی چاہتے ہیں ۔ حضور نے فرمایا : کیا تم باز آؤ گے کیا تم باز آؤ گے پھر منبر سے اترآئے۔ (بخاری وغیرہ کتب کثیرہ) قران وحدیث سے ثابت ہوا کہ سید عالمصَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَآلَہٖ وَسَلَّمَ کو قیامت تک کی تما م چیزوں کا علم عطا فرمایا گیا ہے۔ اور حضور کے علم غیب میں طعن کرنا منافقین کا طریقہ ہے۔ (ماخوذ از: خزائن العرفان، آل عمران، تحت الآیت: ۱۷۹)