سماع موتیٰ :
سماع موتیٰ :
حکمت جدیدہ تصدیق اسی امر کی کر رہی ہے جس کی خبر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تیرہ سو (۱۳۰۰) سال پیشتردی تھی ۔ دیکھئے تمام کتب احادیث و سیر سے ثابت ہے کہ غزوۂ بد رمیں جب کفار کو ہزیمت ہو ئی اور ا ن کے مقتولوں کی لاشیں پھول سڑگئیں آنحضرتؐ نے فرمایا کہ ان لاشوں کو کنویں میں ڈال دوادو چنانچہ سب ڈال دی گئیں ۔ اس رات آنحضرت صلی اللہ علی وسلم نے ان مقتولوں کا پکا ر کر فرمایا :’’اے کنویں والو !اے عتبہ ،اے شیبہ ،اے امیہ ، اے ابوجہل !کیا تمہارے رب نے جو وعدہ فرمایا تھا اس کو تم نے حق پایا ؟ میں نے تو وہ وعدہ حق تعالیٰ نے جو مجھ سے کیا تھا حق پایا ‘‘۔ صحابہ ؓ نے عرض کی : یا رسول اللہ کیا آپ ایسی قو م کو پکار تے ہو جس کی لاشیں سڑگئیں ؟آپ نے فرمایا :’’ میں ان سے کہہ رہا ہوں اس کو وہ لوگ ایسا سن رہے ہیں کہ تم ان سے زیادہ نہیں سن سکتے لیکن وہ میرا جواب نہیں دے سکتے‘‘۔ چنانچہ حسان بن ثابتؓ نے اس موقعہ پر ایک قصیدہ لکھا جس کے دوشعر یہ ہیں : ینا دیہم رسول اللہ لما قذ فنا ہم کبا کب فی القلیب
ألم تجدو ا کلامی کان حقاً و امر اللہ یا خذ بالقلوب
دیکھئے صحابہ نے یہی خیال کیا تھا کہ سڑی ہوئی لاشوں کو پکار کر ان سے باتیں کرنی بالکل خلاف عقل ہے ! مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات اشاراۃً بیان فرمادی کہ آدمی جسم کا نام نہیں جسم بمنزلہ غلاف ہے ،اصل آدمی جو سننے والا ہے اس میں کوئی تغیر نہیں جیسے وہ زندگی میں سنتے تھے اب بھی سنتے ہیںصحابہ اور قوی الایمان تو مان گئے،مگرخلاف عقل ہونے کی وجہ سے بہت سے لوگوں نے اس میں تاویلیں کیں ۔
قبر میں مردہ اٹھا کر اس سے سوال :
چنانچہ ’’سماع موتیٰ‘‘ کا مسئلہ اب تک معرکہ آرا بنا ہوا ہے ،سائنس نے آکر اس کا تصفیہ کر دیا ، اب اس میں کسی کا چون و چرا کی گنجائش نہ رہی ۔ اس سے اس مسئلہ کا بھی تصفیہ ہو گیا جو احادیث میں وارد ہے کہ دفن کے بعد فرشتے مردے سے سوال کر تے ہیں کہ :تیرا رب کون ہے ؟ اور تیرا دین کیا ہے ؟ اور اِن کو یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو تو کیا سمجھتا تھا ؟اگر ایمان دار ہوتوان کے جواب دیتا ہے اور ابے ایمان جواب نہیں دے سکتا ۔اس پر بھی اقسام کے اعتراضات ہو تے تھے کہ مردے سے سوال کیسا؟چونکہ معتر ضوںنے غلاف انسان کو انسان سمجھ رکھا تھا ، او راب ثابت ہو گیا کہ انسان کچھ اور ہی چیزہے جس میں سوال و جواب کی اس حالت میں بھی صلاحیت ہے،اس کے بعد اہل انصاف تو ہرگز جاہلانہ خیال نہیں کرسکتے کہ انسان اسی غلاف کا نام ہے جو کا لبد ا نسانی ہے ۔
اسی طرح سینہ اور دل کی حقیقت بھی ضرور کوئی دوسری چیز ہے ۔اسی کو خیال کر لیجئے کہ اگر دل اسی گوشت کی بوٹی کانام ہوجو ہرجانور میں ہے تو علوم حِکمیہ اور غامض مسائل جو حکماء او رعلماء کے دلوں میں جوش زن ہو تے ہیں جن کے عمدہ آثار وقتاً فوقتاً عالم میں ظہور پا تے ہیں تو وہ بوٹی دل کی جانوروں میں بھی ہے پھرکسی جانور سے ان کاظہور کیوں نہیں ہوتا ؟!میری دانست میں کوئی عاقل یہ باور نہ کر ے گا کہ یہ لطیف غامض مسائل اس گوشت کی بوٹی میں رہتے ہیں ۔یہاں بھی یہی کہنا پڑے گا کہ یہ مضغہء صنو بری دل کا غلاف ہے اور دل ایک لطیفہ ء ربانی ہے ،کسی بزرگ کا قول ہے :
اگر یک قطرۂ دل بر شگافی ٭ بروں آید از و صد بحرصافی
اسی طرح صد ر کی بھی حقیقت دوسری ہے صرف ہڈیوں کا نام نہیں ہے ، گو اس حقیقت کا یہی مقام ہو گا ،اس لئے کہ حق تعالیٰ فرما تا ہے فمن یر د
اللہ ان یہدیہ یشرح صدرہ للاسلام ومن یرد ان یضلہ یجعل صدرہ ضیقاً حرجاً کلانما یصعد فی السماء یعنی’’جس کی ہدایت کا ارادہ اللہ تعالیٰ کر تا ہے اس کے سینہ کو اسلام کے لئے کھول دیتا ہے ،اورجس کو گمراہ کرنے کا ارداہ کر تا ہے تو اس کے سینہ کو نہایت تنگ کر دیتا ہے گویا کہ وہ آسمان میں چڑھ رہا ہے ‘‘۔
یہ امر ظاہر ہے کہ اسلام لا تے وقت سینہ کے ہڈیاں پھیل نہیں جاتیں اور نہ کفر کی حالت میں ہڈیاں سخت ہو تی ہیں ، بلکہ کشادہ اور تنگ ہو نے والا ہی سینہ دوسرا ہے۔یہ ایک وجدانی امر ہے کہ ایمان والوں کے دل میں ایک وسعت پیدا ہو جا تی ہے ،اور جو بات بات میں انقباض ہو ا کر تا ہے کہ اگر ہم اپنا دین چھو ڑدیں گے تولوگ کیا کہیں گے اور خلاف عقل باتیںماننا لوگوں کی طعن و تشنیع کا باعث ہوگا کیونکہ وہ کہیں گے کہ اگر ان کو عقل ہو تی تو یہ لوگ خلاف عقل باتوں کو نہ مانتے ،اور یہ دلیل سفاہت اورحماقت کی ہے چانچہ کفار اسی وجہ سے مسلمانوں کو سفہاء کہتے تھے ۔اس کے سوا بڑا انقباض اس وجہ سے ہوتا ہے کہ تمام کنبہ کے لوگ اور احباب دشمن ہ وجائیں گے ۔ غرضکہ اس قسم کے جتنے اسباب تنگدلی اور انقباض کے ہوتے ہیں سب دفع ہو جا تے ہیں اور سینہ میں وسعت پیدہو تی ہے اور سب کو قبول کر لیتا ہے ۔اور شرح صدر کے بعد جوکام ان سے لیا جا تا ہے نہایت خوشی اور کشادہ دلی سے کر تے ہیں ،اگر مال دینے کو کہا جا ئے تونہایت ممنو نیت سے اتثال امر کرتے ہیں ،چنانچہ صحابہ کے حالات سے ظاہر ہے کہ صرف چندہ کے لئے ارشاد نبوی ہوا تھا بعض حضرات نے اپنا نصف مال حساب کر کے حاضر کر دیا اور بعض پورا کا پورا ۔اگر جان دینے کو کہا جائے تو اس کو سعادت سمجھتے ہیں ،چنانچہ صحابہ کے حالات سے ظاہر ہے کہ جان بازی کے شوق میں ہر ایک چاہتا تھا کہ دوسرے سے بڑھا رہوں یہاں تک کہ ان کو روکنے کی ضرورت ہوتا تھی ۔جب مال اور جان دینے میں تنگدلی نہ ہوتو دوسرے اسلامی کاموں میں کیونکر ہو سکتی ہے ؟ یہ برکت شرح صدر کی ہے جن کو ہدایت کرنا منظور الٰہی ہو تا ہے ان کا سینہ کشادہ کر دیا جا تا ہے ۔
بخلاف اس کے جن کو گمراہ کرنا منظور ہو تا ہے اسلامی کاموں میں ان کا سینہ تنگ کر دیا جاتا ہے ۔جان اور مال دینا تو بڑی چیز ہے پانچ وقت کی نماز پڑھنی مشکل ہوتی ہے ۔سوروپیہ ایک سال رہیں تو ان میں سے ڈھائی روپیہ زکاۃ کے غریب قرابت دار اور مساکین کو دینا سخت دشوار ہو تا ہے ،حالانکہ بہت سے لوگ ایسے بھی ہیں کہ اس سے زیادہ روپیہ خیرا ت ہی صرف کر دیتے ہیں مگر زکاۃ کے نام سے دینے میں ان کو تنگدلی ہو تی ہے ۔ اب کہئے ومن یر ان یضلہ یجعل صدرہ ضیقاً اس موقعہ میں صادق آتا ہے یا نہیں ۔ یہ تو عوام الناس کا حال تھا ،اس آخری زمانے کے بعض خاص خاص لوگ بھی اسی دائرہ میں نظر آئیں گے ۔
مشکاۃ شریف میں عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ :ایک بار ہم لوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بیٹھے ہو ئے تھے کہ ایک شخص آیا جس کا لباس نہایت سفید اور بال نہایت سیاہ تھے سفر کا کوئی اثر اس پر نہ تھا ،اورہم میں سے کوئی شخص اسے پہچانتا بھی نہ تھا ،حضرت ؐ کے زانو سے زانو سے ملاکر بیٹھ گیا اور دونوں زانوپر ہا تھ رکھ کر کہا :اے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) مجھے خبر دیجئے کہ اسلام کیا چیز ہے ؟حضرت ؐ نے فرمایا : ’’اسلام یہ ہے کہ تم گواہی دوکہ کوئی معبود سوائے اللہ کے نہیں ،اور محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) اللہ کے رسول ہیں ، اور نما ز پڑھو ،اور زکوۃ دو، اور رمضان کے روزے رکھو،اور طاقت ہو تو حج کرو ‘‘۔ کہا : آپ سچ کہتے ہیں ! ہمیں تعجب ہوا کہ سوال بھی کرتا ہے اور خود ہی تصدیق بھی کرتا ہے !پھر کہا کہ :یہ بتائے کہ ایمان کیا چیز ہے ؟ حضرت ؐ نے فرمایا :’’یہ خدا ے تعالیٰ کی ذات اور ملائکہ اور اس کی کتابوں اور پیغمبروں کا یقین کرنا ،اور خیر وشر اللہ ہی کے طرف سے سمجھنا ‘‘۔ کہا آپ سچ کہتے ہیں !پھر کہا :یہ بتائے کہ احسان کیا چیز ہے ؟فرمایا : ’’اس طرح عبادت کروکہ گویا اللہ کو تم دیکھ رہے ہو ،اور گر تم نہیں دیکھتے تووہ
تو دیکھ رہا ہے ‘‘۔ کہا آپ سچ کہتے ہیں ! پھر اس نے قیامت کے حالات دریافت کئے ۔ جب و ہ شخص چلا گیا تو حضرت نے پوچھا : اے عمرؓ تم جانتے ہو کہ یہ کون تھے ؟میں نے کہا اللہ ورسول دانا تر ہیں !فرمایا :وہ جبرئیل تھے تمہیں دین کی تعلیم دینے کے لئے آئے تھے ۔
ّٓاس حدیث شریف سے ثابت ہے کہ ’’اسلام ‘‘احکام ظاہر ی بجا لانے کا نام ہے ،اور احکام ظاہر ی بجا لانے میں جس کادل تنگ ہو تو آیت مذکورہ سے ثابت ہے کہ خدا تعالیٰ کو اس کی ہدایت مقصود نہیں ،کیونکہ صاف ارشاد ہے فمن یر د اللہ ان یہدیشرح صدرہ للا سلام ومن یرد ان یضلہ یجعل صدرہ ضیقاً حرجاً ۔