دین کی نشانیوں کی قدر کرنے کا حکم ۔ احرام کھلنے کے بعدبیرونِ حرم شکار کی اجازت ۔ کسی قوم کی دشمنی بھی ظلم وزیادتی نہ کروائے ۔ نیکی اور پرہیز گاری پر باہم تعاون کرنے کا حکم ۔ گناہ اور زیادتی پر باہم مدد نہ کرنے کاحکم
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُحِلُّوْا شَعَآىٕرَ اللّٰهِ وَ لَا الشَّهْرَ الْحَرَامَ وَ لَا الْهَدْیَ وَ لَا الْقَلَآىٕدَ وَ لَاۤ ﰰ مِّیْنَ الْبَیْتَ الْحَرَامَ یَبْتَغُوْنَ فَضْلًا مِّنْ رَّبِّهِمْ وَ رِضْوَانًاؕ-وَ اِذَا حَلَلْتُمْ فَاصْطَادُوْاؕ-وَ لَا یَجْرِمَنَّكُمْ شَنَاٰنُ قَوْمٍ اَنْ صَدُّوْكُمْ عَنِ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اَنْ تَعْتَدُوْاۘ-وَ تَعَاوَنُوْا عَلَى الْبِرِّ وَ التَّقْوٰى ۪-وَ لَا تَعَاوَنُوْا عَلَى الْاِثْمِ وَ الْعُدْوَانِ۪- وَ اتَّقُوا اللّٰهَؕ-اِنَّ اللّٰهَ شَدِیْدُ الْعِقَابِ(۲)
ترجمۂ کنزُالعِرفان : اے ایمان والو! اللہ کی نشانیاں حلال نہ ٹھہرالو اور نہ ادب والے مہینے اور نہ حرم کو بھیجی گئی قربانیاں اور (نہ حرم میں لائے جانے والے وہ جانور) جن کے گلے میں علامتی پٹے ہوں اور نہ ادب والے گھر کا قصد کرکے آنے والوں (کے مال و عزت) کوجو اپنے رب کا فضل اور اس کی رضا تلاش کرتے ہیں اور جب احرام سے باہر جاؤ تو شکار کرسکتے ہو اور تمہیں کسی قوم کی دشمنی اس وجہ سے زیادتی کرنے پر نہ ابھارے کہ انہوں نے تمہیں مسجدِ حرام سے روکا تھا اور نیکی اور پرہیزگاری پر ایک دوسرے کی مدد کرو اور گناہ اور زیادتی پر باہم مدد نہ کرو اور اللہ سے ڈرتے رہو بیشک اللہ شدید عذاب دینے والا ہے ۔ (المآئدة : ۲)
( لَا تُحِلُّوْا شَعَآىٕرَ اللّٰهِ : اللہ کی نشانیاں حلال نہ ٹھہرالو ۔ ) اس آیت میں دین کی نشانیوں کی قدر کرنے کا حکم فرمایا ہے اور معنیٰ یہ ہیں کہ جو چیزیں اللہ عَزَّوَجَلَّنے فرض کیں اور جو منع فرمائیں سب کی حرمت کا لحاظ رکھو ۔ نیز جو چیزیں اللہ عَزَّوَجَلَّ کی نشانیاں قرار پاجائیں ان کا احترام کرنا بہت ضروری ہے لہٰذا دینی عظمت والی چیزوں کا احترام کیا جائے گا ۔ اللہ عَزَّوَجَلَّ ارشادفرماتا ہے :
وَ مَنْ یُّعَظِّمْ شَعَآىٕرَ اللّٰهِ فَاِنَّهَا مِنْ تَقْوَى الْقُلُوْبِ(۳۲)(الحج : ۳۲) ترجمۂ کنزُالعِرفان : اور جو اللہ کی نشانیوں کی تعظیم کرے تو یہ دلوں کا تقویٰ ہے ۔
اس شَعَآىٕرَ اللّٰهِ یعنی اللہ عَزَّوَجَلَّکی نشانیوں میں خا نہ کعبہ، قرآنِ پاک، مساجد، اذان، بزر گوں کے مزارات وغیرہ سب ہی داخل ہیں بلکہ جس چیز کو اللہ عَزَّوَجَلَّکے مقبول بند وں سے نسبت ہو جائے وہ بھی شَعَآىٕرَ اللّٰهِ بن جا تی ہے جیسے حضرت ہا جرہ رَضِیَ ا للہُ تَعَالٰی عَنْہاکے قدم صفا و مروہ پہاڑوں پر پڑے تو وہ پہاڑ شَعَآىٕرَ اللّٰهِ بن گئے اور ربِّ کریم عَزَّوَجَلَّ نے فرما دیا :
اِنَّ الصَّفَا وَ الْمَرْوَةَ مِنْ شَعَآىٕرِ اللّٰهِۚ- (البقرہ : ۱۵۸) ترجمۂ کنزُالعِرفان : بیشک صفا اور مروہ اللہ کی نشانیوں سے ہیں ۔
( وَ لَا الشَّهْرَ الْحَرَامَ : اور نہ حرمت والے مہینوں کو ۔)فرمایا گیا کہ حرمت والے مہینوں کو حلال نہ ٹھہرالو ۔ محترم مہینے چار ہیں ، رجب، ذیقعد، ذوالحجہ اور محرم ۔ زمانۂ جاہلیت میں بھی کفا ر ان کا ادب کر تے تھے اور اسلا م نے بھی ان کا احترام باقی رکھا ۔ یاد رہے کہ اولاً اسلام میں ان مہینو ں میں جنگ حرام تھی، اب ہر وقت جہاد ہوسکتا ہے ، لیکن ان کا احترام بدستور باقی ہے ۔ اس کی تفصیل سورۂ توبہ ، آیت نمبر 36میں آئے گی ۔
(وَ لَا الْهَدْیَ وَ لَا الْقَلَآىٕدَ : اور نہ حرم کی قربانیاں اور نہ علامتی پٹے والی قربانیاں ۔ )عرب کے لوگ قربانیوں کے گلے میں حرم شریف کے درختوں کی چھال وغیرہ سے ہار بُن کر ڈالتے تھے تاکہ دیکھنے والے جان لیں کہ یہ حرم کو بھیجی ہوئی قربانیاں ہیں اور ان سے چھیڑ خوانی نہ کریں ۔ حرم شریف کی اُن قربانیوں کے احترام کا حکم دیا گیا ہے ۔
( وَ لَاۤ ﰰ مِّیْنَ الْبَیْتَ الْحَرَامَ : اور نہ ادب والے گھر کا قصد کرکے آنے والوں (کے مال و عزت) کو ۔ )ادب والے گھر کا قصد کرکے آنے والوں سے مراد حج و عمرہ کرنے کے لئے آنے والے ہیں ۔ آیت کاشانِ نزول یہ ہے کہ شُریح بن ہند ایک مشہور بدبخت تھا وہ مدینہ طیبہ میں آیا اور سرکارِ دو عالمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کرنے لگا کہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ مخلوقِ خدا کو کیا دعوت دیتے ہیں ؟ تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا، اپنے رب عَزَّوَجَلَّ پر ایمان لانے اور اپنی رسالت کی تصدیق کرنے اور نماز قائم رکھنے اور زکوٰۃ دینے کی دعوت دیتا ہوں ۔ وہ کہنے لگا، بہت اچھی دعوت ہے ، میں اپنے سرداروں سے رائے لے لوں تو میں بھی اسلام لاؤں گا اور انہیں بھی لاؤں گا ۔ یہ کہہ کروہ چلا گیا ۔ حضور پُر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اس کے آنے سے پہلے ہی اپنے اصحاب کو خبر دے دی تھی کہ قبیلہ ربیعہ کا ایک شخص آنے والا ہے جو شیطانی زبان بولے گا ۔ اس کے چلے جانے کے بعد حضورِ ۱قدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا کہ ’’ کافر کا چہرہ لے کر آیا اور غدار وبدعہد کی طرح پیٹھ پھیر کر گیا، یہ اسلام لانے والا نہیں ۔ چنانچہ اس نے فریب کیا اور مدینہ شریف سے نکلتے ہوئے وہاں کے مویشی اور اموال لے گیا ۔ اگلے سال وہ یمامہ کے حاجیوں کے ساتھ تجارت کا کثیر سامان اور حج کی قَلادَہ پوش یعنی مخصوص ہار والی قربانیاں لے کر حج کے ارادہ سے نکلا ۔ نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ
وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اپنے اصحاب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمکے ساتھ تشریف لے جا رہے تھے ، راستے میں صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم نے اسی شُریح کو دیکھا اور چاہا کہ مویشی اس سے واپس لے لیں لیکن نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے منع فرما دیا ۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی ۔ (خازن، المائدة، تحت الاٰية : ۲، ۱ / ۴۵۹)اور حکم دیا گیا کہ جو حج کے ارادے سے نکلا ہو اسے کچھ نہ کہاجائے ۔
( وَ اِذَا حَلَلْتُمْ : اور جب تم احرام سے فارغ ہوجاؤ ۔)احرام سے فارغ ہونے کے بعدحرم شریف سے باہر شکار کرنے کی اجازت ہے ۔ یہ حکم درحقیقت ایک اجازت ہے مگر یہ اِباحت (جائز ہونا) ایسی قطعی ہے کہ اس کا منکر کافر ہے ۔
(وَ لَا یَجْرِمَنَّكُمْ : اور تمہیں برانگیختہ نہ کرے ۔ ) مراد یہ ہے کہ اہلِ مکہ نے حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو اور آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے اصحاب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کو حدیبیہ کے دن عمرہ کرنے سے روکا لیکن تم ان کے اس معاندانہ فعل کا انتقام نہ لو ۔ البتہ یہ یاد رہے کہ اب کافر کومسجد ِ حرام سے روکا جائے گا کیونکہ بعد میں ممانعت کا حکم نازل ہوگیا تھا، چنانچہ فرمانِ باری تعالیٰ ہے :
اِنَّمَا الْمُشْرِكُوْنَ نَجَسٌ فَلَا یَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ (التوبه : ۲۸)
ترجمۂ کنزُالعِرفان : مشرک نرے ناپاک ہیں تو اس برس کے بعد وہ مسجد حرام کے پاس نہ آنے پائیں ۔
( وَ تَعَاوَنُوْا : اورایک دوسرے کی مدد کرو ۔) اس آیتِ مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے دو باتوں کا حکم دیا ہے : (1) نیکی اور پرہیزگاری پر ایک دوسرے کی مدد کرنے کا ۔ (2) گناہ اور زیادتی پر باہمی تعاون نہ کرنے کا ۔ بِرسے مراد ہر وہ نیک کام ہے جس کے کرنے کا شریعت نے حکم دیا ہے اور تقویٰ سے مراد یہ ہے کہ ہر اس کام سے بچا جائے جس سے شریعت نے روکا ہے ۔ اِثْم سے مراد گناہ ہے اور عُدْوَان سے مراد اللہ تعالیٰ کی حدود میں حد سے بڑھنا ۔ (جلالین، المائدة، تحت الاٰية : ۲، ص۹۴)
ایک قول یہ ہے کہ اِثْم سے مراد کفر ہے اور عُدْوَان سے مراد ظلم یا بدعت ہے ۔ (خازن، المائدة، تحت الاٰية : ۲، ۱ / ۴۶۱)
حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں : نیکی سے مراد سنت کی پیروی کرنا ہے ۔ )صاوی، المائدة، تحت الاٰية : ۲، ۲ / ۴۶۹)
حضرت نواس بن سمعان رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں : ’’میں نے رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے نیکی اور گناہ کے بارے میں پوچھا تو آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا : نیکی حسنِ اخلاق ہے اور گناہ وہ ہے جو تیرے دل میں کھٹکے اور لوگوں کا اس سے واقف ہونا تجھے ناپسند ہو ۔
(ترمذی، کتاب الزهد، باب ما جاء فی البرّ والاثم، ۴ / ۱۷۳، الحدیث : ۲۳۹۶)