اسلامسوانحِ كربلا مصنف صدر الافاضل حضرت علامہ مولانا سید محمد نعیم الدین مراد آبادی علیہ رحمۃ اللہ القویفضائل

خلیفۂ چہارم  امیر المومنین حضرت علی مرتضیٰ کرم اللہ تعالیٰ وجہہ

خلیفۂ چہارم  امیر المومنین حضرت علی مرتضیٰ کرم اللہ تعالیٰ وجہہ

آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کانام نامی علی،کنیت ابوالحسن، ابو تراب ہے۔ آپ کے والد حضور سرورعالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے چچا ابو طالب ہیں۔ آپ نوعمروں میں سب سے پہلے اسلام لائے۔ اسلام لانے کے وقت آ پ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی عمر شریف کیا تھی اس میں چند اقوال ہیں:ایک قول میں آپ کی عمر پندرہ سال کی، ایک میں سولہ کی، ایک میں آٹھ کی،ایک میں دس کی،اگرچہ عمر کے باب میں چند قول ہیں مگر اس قدر یقینی ہے کہ ابتدائے عمر میں بلوغ کے متصل ہی آپ دولت ایمان سے مشرف ہوئے۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کبھی بت پرستی نہیں کی جس طرح کہ حضرت صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کبھی بت پرستی کے ساتھ ُملَوَّث نہ ہوئے۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ عشرۂ مبشرہ میں سے ہیں جن کے لیے جنت کا وعدہ دیا گیا اور علاوہ چچا زاد ہونے کے آ پ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو حضور ِاکرم نبئ کریم صلی اللہ

تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں عزت مُواخات بھی ہے ۔اور سید ۂ نساء عالمین خاتون جنت حضرت بتول زہرا رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے ساتھ آپ کا عقد نکاح ہوا۔ آپ سابقین اولین اور علماء ِربانیین میں سے ہیں۔ جس طرح شجاعت بَسالَت میں آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا نامِ نامی شہر ۂ عالم ہے، عرب و عجم بروبحر میں آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زورو قوت کے سکے بیٹھے ہوئے ہیں، آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ہیبت و دبدبہ سے آج بھی جوان مردانِ شیر دل کانپ جاتے ہیں اسی طرح آ پ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ز ہدو ریاضت اَطراف واَکنافِ عالم میں وظیفۂ خاص وعام ہے۔ کروڑوں اولیا رحمہم اللہ تعالیٰ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سینۂ نور گنجینہ سے مستفیض ہیں اور آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ارشاد ہدایت نے زمین کو خدا پرستوں کی طاعت و ریاضت سے بھر دیاہے۔ خوش بیان فصحا اور معروف خطبا میں آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بلند پایہ ہیں۔ جامعینِ قرآنِ پاک میں آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کانام نامی نورانی حرفوں کے ساتھ چمکتا ہے۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بنی ہاشم میں پہلے خلیفہ ہیں اور سبطین کریمین حسنین جمیلین سعیدین شہیدین رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے والد ِماجد ہیں۔ سادات کرام اور اولادِ رسول علیہ الصلوٰۃ والسلام کا سلسلہ پروردگار عالم عزوجل نے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے جاری فرمایا، آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ تبوک کے سوا تمام مَشاہِد میں حاضر ہوئے۔ جنگ ِتبوک کے موقع پر حضورِ اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو مدینہ پر خلیفہ بنایا تھا اور ارشاد فرمایا تھا کہ تمہیں ہماری بارگاہ میں وہ مرتبہ حاصل ہے جو حضرت موسیٰ علیہ السلام کی بارگاہ میں حضرت ہارون کو۔ (1)(علیہ الصلوٰۃ والسلام)
حضورِ اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے چند مقاموں میں آپ کو لوا(جھنڈا) عطا
فرمایا خصوصاً روز ِخیبر اور حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے خبردی کہ ان کے ہا تھ پر فتح ہوگی۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس روز قلعۂ خیبر کا دروازہ اپنی پشت پر رکھا اور اس پر مسلمانوں نے چڑھ کر قلعہ کو فتح کیا۔ اس کے بعد لوگوں نے اسے کھینچنا چاہا تو چالیس آدمیوں سے کم اس کو نہ اٹھا سکے۔ جنگوں میں آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے کارنامے بہت ہیں۔(1)
آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اپنے ناموں میں ابو تراب بہت پیارا معلوم ہوتا تھا اور اس نام سے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بہت خوش ہوتے تھے۔ اس کا سبب یہ تھا کہ ایک روز آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ مسجد شریف کی دیوار کے پاس لیٹے ہوئے تھے۔ پشتِ مبارک کو مٹی لگ گئی تھی، حضور ِاقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم تشریف لائے اور آ پ کی پشتِ مبارک سے مٹی جھاڑ کر فرمایا:اِجْلِسْ اَبَا تُرَابٍ۔(2)یہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کا عطافرمایا ہوا خطاب آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ہرنام سے پیارا معلوم ہوتا تھا اور آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس نام سے سلطانِ کو نین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے لطف و کرم کے مزے لیتے تھے۔
آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے فضائل و محامد بہت زیادہ ہیں۔ حضرت سعد ابن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ حضوراقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے غزوۂ تبوک کے موقعہ پر حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو مدینہ طیبہ میں اہل بیت کی حفاظت کیلئے چھوڑا حضرت مولیٰ علی مرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا :یارسول اللہ!عزوجل و صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم آپ مجھے عورتوں اور بچوں میں خلیفہ بناتے ہیں۔ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: کیا تم راضی نہیں ہوکہ تمہیں میرے دربارمیں وہ مرتبت حاصل ہو جو حضرت ہارون کو دربار حضرت

موسیٰ میں تھی (علیہما الصلوٰۃ و السلام) بجز اس بات کے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں آیا۔(1)
حضرت سہل ابن سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے روز ِخیبر فرمایا کہ میں کل جھنڈا اس شخص کو دوں گا جس کے ہاتھوں پر اللہ تعالیٰ فتح فرمائے گا اور وہ اللہ و رسول عزوجل وصلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کو محبوب رکھتا ہے اور اللہ و رسول عزوجل وصلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم اس کو محبوب رکھتے ہیں۔ اس مثردۂ جانفزانے صحابہ کرام علیہم الرضوان کو تمام شب امید کی ساعتیں شمار کرنے میں مصروف رکھا۔ آرزو منددلوں کو رات کاٹنی مشکل ہوگئی اور مجاہدین کی نیندیں اڑگئیں۔ہردل آرزومند تھا کہ اس نعمت عظمیٰ وکبریٰ سے بہرہ مند ہو اور ہر آنکھ منتظر تھی کہ صبح کی رو شنی میں سلطان دارین فتح کاجھنڈا کس کو عطا فرماتے ہیں۔صبح ہوتے ہی شب بیدارتمنائی امیدوں کے ذخائر لئے بارگاہِ رسالت میں حاضر ہوئے اور ادب کے ساتھ دیکھنے لگے کہ کریم ذرہ پرورکا دستِ رحمت کس سعادت مند کو سرفراز فرماتاہے۔ محبوب ِخدا صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے لب ِمبارک کی جنبش پر ارمان بھری نگاہیں قربان ہورہی تھیں، رحمتِ عالمصلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :اَیْنَ عَلِیُّ ابْنُ اَبِیْ طَالِبٍعلی ابن ابی طالب کہاں ہیں؟عرض کیا گیا :وہ بیمار ہیں، ان کی آنکھوں پر آشوب ہے۔ بُلانے کاحکم دیا گیا اور علی مرتضیٰ کرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم حاضر ہوئے۔حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے دہن مبارک کے حیات بخش لعاب سے ان کی چشمِ بیمار کا علاج فرمایا اور برکت کی دعا کی، دعا کرناتھا کہ نہ درد باقی رہا نہ کھٹک نہ سرخی نہ ٹپک ، آن کی آن میں ایسا آرام ہوا کہ گویا کبھی بیمار نہ ہوئے تھے اس

کے بعد ان کو جھنڈا عطا فرمایا۔(1)
ترمذی ونسائی وابن ماجہ نے حبشی بن جنادہ سے روایت کی،حضورسیّدعالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا: عَلِیٌّ مِّنِّیْ وَاَنَا مِنْ عَلِیٍّ (2)(علی مجھ سے ہے اور میں علی سے) اس سے حضرت علی مرتضیٰ کرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم کا کمالِ قرب بارگاہِ رسالت مآب سے ظاہر ہوتا ہے۔
امام مسلم نے حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی کہ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ اس کی قسم کہ جس نے دانہ کو پھاڑ ا اور اس کو روئید گی عنایت کی اور جانوں کو پیدا کیا بے شک مجھے نبی امی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے بتایاکہ مجھ سے ایماندار محبت کریں گے اور منافق بغض رکھیں گے۔(3)
ترمذی میں حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے فرماتے ہیں کہ ہمارے نزدیک علی مرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بغض رکھنا منافق کی علامت تھی اسی سے ہم منافق کو پہچان لیتے تھے۔(4)
حاکم نے حضرت مولیٰ علی مرتضی کرم اللہ تعالیٰ وجہہ سے روایت کی فرماتے ہیں: مجھے رسول اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے یمن کی طرف قاضی بناکر بھیجا، میں نے عرض

کیا: حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم میں کم عمر ہوں قضا جانتانہیں،کام کس طرح انجام دے سکوں گا۔ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے اپنادستِ مبارک میرے سینہ میں مار کر دعا فرمائی، پروردگارعزوجل کی قسم! معاملہ کے فیصل کرنے میں مجھے شبہہ بھی تو نہ ہوا۔ (1)
صحابۂ کبارعلیہم الرضوان حضرت امیر المومنین علی مرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اَقضا جانتے تھے۔ سید عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا یہ فیض ہے کہ حضرت امیرالمومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سینہ میں دست مبارک لگایا اور وہ علمِ قضا میں کامل اور اقران میں فائق ہوگئے۔ جسکے ہاتھ لگانے سے سینے علوم کے گنجینے بن جائیں اس کے علوم کا کوئی کیا بیان کرسکتا ہے۔
ابن عسا کرنے حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی حضرت علی مرتضیٰ کرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم کے حق میں بہت سی آیتیں نازل ہوئیں۔(2)
طبرانی وحاکم نے حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی کہ حضور سید عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:علی مرتضیٰ کرم اللہ تعالیٰ وجہہ کو دیکھنا عباد ت ہے۔ (3)
ابو یعلی و بزار نے حضرت سعدبن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی کہ

حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا:جس نے علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ایذا دی اس نے مجھے ایذا دی۔(1)
بزار اور ابو یعلی اور حاکم نے حضرت امیر المومنین علی مرتضیٰ کرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم سے روایت کی ، آپ نے فرمایا کہ مجھ سے حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ تمہیں حضرت عیسیٰ علی نبیناوعلیہ الصلوٰۃ والسلام سے ایک مناسبت ہے ان سے یہود نے یہاں تک بغض کیا کہ ان کی والدہ ماجدہ پر تہمت لگائی۔ نصاریٰ محبت میں ایسے حد سے گزرے کہ ان کی خدائی کے مُعْتَقِد ہوگئے۔ ہوشیار ہوجاؤ میرے حق میں بھی دو گروہ ہلاک ہوں گے ایک محب مُفْرِط جو مجھے میرے مرتبہ سے بڑھائے اور حد سے تجاوز کرے، دوسرا مُبْغِض جو عداوت میں مجھ پر بہتان باندھے۔ (2)
حضرت امیر المومنین علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اس ارشاد سے معلوم ہوا کہ رافضی و خارجی دونوں گمراہ ہیں اور ہلاکت کی راہ چلتے ہیں، طریق قویم اور صراط مستقیم پر اہلسنت ہیں جو محبت بھی رکھتے ہیں اور حد سے تجاوز بھی نہیں کرتے۔
وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ.

1۔۔۔۔۔۔تاریخ الخلفاء،علی بن ابی طالب رضی اﷲ تعالٰی عنہ،ص۱۳۲۔۱۳۳ماخوذاً

1۔۔۔۔۔۔تاریخ الخلفاء، علی بن ابی طالب رضی اﷲ تعالٰی عنہ، ص۱۳۲۔۱۳۳ملخصاً
2۔۔۔۔۔۔تاریخ الخلفاء، علی بن ابی طالب رضی اﷲ تعالٰی عنہ، ص۱۳۳

1۔۔۔۔۔۔صحیح مسلم،کتاب فضاہل الصحابۃ رضی اﷲعنہم، باب من فضاہل علی بن ابی
طالب رضی اﷲ عنہ، الحدیث:۲۴۰۴،ص۱۳۱۰

1۔۔۔۔۔۔صحیح البخاری،کتاب فضائل اصحاب النبی صلّی اﷲ علیہ وسلم، باب مناقب
علی بن ابی طالب…الخ،الحدیث:۳۷۰۱، ج۲،ص۵۳۴
2۔۔۔۔۔۔سنن الترمذی،کتاب المناقب،باب مناقب علی بن ابی طالب رضی اﷲ عنہ،
الحدیث:۳۷۴۰،ج۵،ص۴۰۱
3۔۔۔۔۔۔صحیح مسلم،کتاب الایمان،باب الدلیل علی ان حب الانصار وعلی رضی اﷲ
عنہم…الخ،الحدیث:۷۸،ص۵۵
4۔۔۔۔۔۔سنن الترمذی،کتاب المناقب،باب مناقب علی بن ابی طالب رضی اﷲ عنہ،
الحدیث:۳۷۳۷،ج۵،ص۴۰۰

1۔۔۔۔۔۔المستدرک للحاکم،کتاب معرفۃ الصحابۃ،کان اقضی اہل المدینۃ علی بن ابی طالب،
الحدیث:۴۷۱۴،ج۴،ص۱۰۸
وتاریخ الخلفاء،علی بن ابی طالب رضی اﷲ تعالٰی عنہ،فصل فی الاحادیث الواردۃ
فی فضلہ،ص۱۳۵
2۔۔۔۔۔۔تاریخ الخلفاء،علی بن ابی طالب رضی اﷲ تعالٰی عنہ،فصل فی الاحادیث الواردۃ
فی فضلہ،ص۱۳۶
3۔۔۔۔۔۔المستدرک للحاکم،کتاب معرفۃ الصحابۃ، النظر الی علی عبادۃ، الحدیث:۴۷۳۷،
ج۴،ص۱۱۸
وتاریخ الخلفاء،علی بن ابی طالب رضی اﷲ تعالٰی عنہ،فصل فی الاحادیث الواردۃ
فی فضلہ،ص۱۳۶

Related Articles

Check Also
Close
Back to top button
error: Content is protected !!