خصائص سید المرسلین صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
فضائل و معجزات مذکور ہ بالا تو وہ ہیں جو آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم اور دیگر انبیاء کرامعَلَیْہِمُ السَّلامکے درمیان مشترک ہیں ۔ انکے علاوہ اور فضائل و معجزات وغیرہ ہیں جو آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے مخصوص ہیں ۔ ان کو آپ کے خصائص کہتے ہیں ۔ یہ خصائص بھی بکثرت اور حدوحصر سے خارج ہیں ۔ علامہ جلال الدین سیوطی رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے بیس سال بڑی محنت سے احادیث و آثارو کتب تفسیر وشروح حدیث وفقہ و اصول وتصوف میں حضور عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام کے خصائص کا تتبع (۲ ) کیا اور ’’ خصائص کبریٰ ‘‘ اور ’’ انموذج اللبیب فی خصائص الحبیب ‘‘ تصنیف فرمائیں جن میں ہزار سے زائد خصائص مذکور ہیں ۔ جَزاہُ اللّٰہُ عَنَّا خَیْرَ الْجَزائ۔ (۳ ) قطب شعرانی نے ’’ کَشْفُ الغُمَّہ ‘‘ میں اپنے استاد علامہ سیوطی کے خط سے یہی خصائص نقل کیے ہیں۔ (۴ )
یہ خصائص چار قسم کے ہیں ، اوَّل: وہ واجبات جو آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمسے مختص ہیں مثلاً نماز تہجد۔ دوم : وہ احکام جو آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ہی پر حرام ہیں دوسروں پر نہیں مثلاً تحریم زکوٰۃ۔ سوم: وہ مباحات جو حضور عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام سے مختص ہیں مثلاً نماز بعد عصر۔ چہارم: وہ فضائل و کرامات جو حضور انور بِاَبِیْ ہُوَ وَاُمِّیْ
سے مخصوص ہیں ۔ (۱ ) اس مختصر میں صرف قسم چہارم میں سے بعض خصائص ذکر کیے جاتے ہیں ۔
{1} اللّٰہ تعالٰی نے آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو سب نبیوں سے پہلے پیدا کیا اور سب سے اخیر میں مبعوث فرمایا۔ (۲ )
{2} عالم اَرواح ہی میں آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو نبوت سے سر فراز فرمایاگیا اور اسی عالم میں دیگر انبیاء کرام عَلٰی نَبِیِّنَا وَعَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام کی روحوں نے آپ کی روح انور سے استفاضہ کیا۔ (۳ )
{3} عالم اَرواح میں دیگر انبیاء کرام عَلٰی نَبِیِّنَا وَعَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام کی روحوں سے اللّٰہ تعالٰی نے عہدلیاکہ اگر وہ حضور انور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے زمانے کو پائیں تو آپ پر ایمان لائیں اور آپ کی مدد کریں ۔ (۴ )
{4} یوم اَلَسْتُ میں سب سے پہلے حضور عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام نے بلٰی کہا تھا۔ (۵ )
{5} حضرت آدم عَلٰی نَبِیِّنَا وَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام اور تمام مخلوقات حضور انور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمہی کیلئے پیدا کیے گئے۔ ( ۶)
{6} حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا اسم مبارک عرش کے پایہ پر اور ہرایک آسمان پر اور بہشت کے درختوں اور محلات پر اور حوروں کے سینوں پر اور فرشتوں کی آنکھوں کے درمیان لکھا گیا ہے۔ (۷ )
{7} کتب الہامیہ سابقہ تورات وانجیل وغیرہ میں آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی بشارت درج ہے۔ (۸ )
{8} حضور انور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم بنی آدم کے بہترین قرون، قرناً بعد قرن سے اور بہترین قبائل و خاندان سے
ہیں ۔ یعنی برگزیدہ ترین برگزیدگاں اور بہترین بہتراں اور مہترین مہتراں (۱ ) ہیں ۔ (۲ )
{9} حضرت آدم عَلٰی نَبِیِّنَا وَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام سے لے کر حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے والد ماجد تک اور حضرت حواء سے لے کر حضور کی والدہ ماجدہ تک حضور کا نسب شریف سفاح (زنا) سے پاک و صاف رہا ہے۔ (۳ )
{10} حضور انور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی ولادت شریف کے وقت بت اوندھے گر پڑے اور جنوں نے اشعار پڑھے۔ (۴ )
{11} حضور ختنہ کیے ہوئے، ناف بریدہ اور آلودگی سے پاک و صاف پیدا ہوئے۔ (۵ )
{12} پیدائش کے وقت آپ حالت سجدہ میں تھے اور ہر دو انگشت شہادت آسمان کی طرف اٹھائے ہوئے تھے۔ ( ۶)
{13} آپ کے ساتھ پیدائش کے وقت ایسا نو ر نکلا کہ اس میں آپ کی والدہ ماجدہ نے ملک شام کے محل دیکھ لئے۔ ( ۷)
{14} فرشتے حضورصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے گہوارے کو ہلایا کرتے تھے۔ آپ نے گہوارے میں کلام کیا۔ چنانچہ آپ چاند سے باتیں کیاکرتے۔ جس وقت آپ اس کی طرف انگشت مبارک سے اشارہ فرماتے وہ آپ کی طرف جھک آتا۔ ( ۸)
{15} بعثت سے پہلے گرمی کے وقت اکثر بادل آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم پر سایہ کرتا تھا اور درخت کا سایہ آپ کی طرف آجاتا تھا۔ (۹ )
{16} حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا سینہ مبارک چاردفعہ شق کیا گیا۔ یعنی حالت رضاعت میں ، دس برس کی عمر شریف میں ، غارِ حرا میں ابتدائے وحی کے وقت، شب معراج میں ۔ جیسا کہ پہلے مذکور ہوا۔ ( )
{17} اللّٰہ تعالٰی نے قرآن مجید میں حضور عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام کے ہر عضو کا ذکر کیا ہے جس سے حق جَلَّ وَعَلَا کی کمالِ محبت وعنایت پائی جاتی ہے۔
قلب مبارک
مَا كَذَبَ الْفُؤَادُ مَا رَاٰى (۱۱) (نجم، ع۱) ( ۱)
نَزَلَ بِهِ الرُّوْحُ الْاَمِیْنُۙ (۱۹۳) عَلٰى قَلْبِكَ (شعرائ، ع۱۱) ( ۲)
زبان مبارک
وَ مَا یَنْطِقُ عَنِ الْهَوٰىؕ (۳) (نجم، شروع) (۳ )
فَاِنَّمَا یَسَّرْنٰهُ بِلِسَانِكَ (دخان، ع۳) (۴ )
چشم مبارک
مَا زَاغَ الْبَصَرُ وَ مَا طَغٰى (۱۷) (نجم، ع۱) ( ۵)
چہرہ مبارک
قَدْ نَرٰى تَقَلُّبَ وَجْهِكَ فِی السَّمَآءِۚ- (بقرہ، ع۱۷) ( ۶)
ہاتھ مبارک اور گردن مبارک
وَ لَا تَجْعَلْ یَدَكَ مَغْلُوْلَةً اِلٰى عُنُقِكَ (بنی اسرائیل، ع۳) ( ۷)
سینہ مبارک اور پشت مبارک
اَلَمْ نَشْرَحْ لَكَ صَدْرَكَۙ (۱) وَ وَضَعْنَا عَنْكَ وِزْرَكَۙ (۲) الَّذِیْۤ اَنْقَضَ ظَهْرَكَۙ (۳) (انشراح، شروع) (۸ )
{18} حضور عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام کا اسم مبارک (محمد ) اللّٰہ تعالٰی کے اسم مبارک (محمود) سے مشتق ہے۔ (۱ )
{19} حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے اسمائے مبارکہ میں سے تقریباً ستر نام وہی ہیں جو اللّٰہ تعالٰی کے ہیں ۔
{20} حضور اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کاایک اسم مبارک احمد ہے۔ آپ سے پہلے جب سے دنیا پیدا ہوئی کسی کا یہ نام نہ تھاتاکہ اس بات میں کسی کو شک وشبہ کی گنجائش نہ رہے کہ کتب سابقہ الہامیہ میں جو احمد کا ذکر ہے وہ آ پ ہی ہیں ۔ (۲ )
{21} آپصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو آپ کا پروردگار بہشت کے طعام و شراب سے کھلاتا پلاتاتھا۔
{22} حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم اپنے پیچھے سے ایسا دیکھتے جیسا کہ سامنے سے دیکھتے۔ رات کو اندھیرے میں ایسا دیکھتے جیسا کہ دن کے وقت اور روشنی میں دیکھتے۔ (۳ )
{23} حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے دہن مبارک کا لعاب آبِ شور ( ۴) کو میٹھا بنادیتااور شیر خوار بچوں کے لئے دودھ کا کام دیتا۔ (۵ )
{24} جب آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کسی پتھر پر چلتے تو اس پر آ پ کے پائے مبارک کا نشان ہوجاتا۔چنانچہ مقام ابر اہیم میں ہے اور سنگ مکہ میں آپ کی کہنیوں کا نشان مشہور ہے۔
{25} حضو ر صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی بغل شریف پاک و صاف او ر خوشبودار تھی۔ اس میں کسی قسم کی بوئے ناخوش نہ تھی۔ (۶ )
{26} آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی آواز مبارک اتنی دور تک پہنچتی کہ کسی دوسرے کی نہ پہنچتی چنانچہ جب آپ
خطبہ دیا کرتے تھے تو نوجوان لڑکیاں اپنے گھروں میں سن لیا کرتی تھیں ۔ (۱ )
{27} آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی قوت سامعہ سب سے بڑھ کر تھی یہاں تک کہ اکثر اِژدحامِ ملائک کے سبب سے آسمان میں جو آواز پیدا ہوتی ہے آپ وہ بھی سن لیتے تھے۔
حضرت جبرئیل عَلَیْہِ السَّلام ابھی سدرۃ المنتہی میں ہوتے کہ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم انکے بازوؤں کی آواز سن لیتے تھے اور جب وہ وہاں سے آپ کی طرف وحی کیلئے اترنے لگتے تو آپ انکی خوشبو سونگھ لیتے۔ آسمان کے دروازوں کے کھلنے کی آواز بھی آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سن لیا کرتے تھے۔
{28} خواب میں آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی چشم مبارک سوجاتی مگر دل مبارک بیدار رہتا۔ بعض کہتے ہیں کہ دیگر انبیاءے کرام عَلَیْہِمُ السَّلام کا بھی یہی حال تھا۔ (۲ )
{29} آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے کبھی جمائی اور انگڑائی نہیں لی اور نہ کبھی آپ کو احتلام ہوا۔ دیگر انبیاءے کرام بھی اس فضیلت میں مشترک ہیں ۔ (۳ )
{30} حضور انور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا پسینہ مبارک کستوری سے زیادہ خوشبودار تھا۔ ( ۴)
{31} حضورصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم میانہ قد مائل بہ درازی تھے، مگر جب دوسروں کے ساتھ چلتے یا بیٹھتے تو سب سے بلند نظرآتے (۵ ) تاکہ باطن کی طر ح ظاہری صورت میں بھی کوئی آپ سے بڑا معلوم نہ ہو۔
{32} حضور اقدسصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا سایہ نہ تھا کیونکہ آپ نورہی نور تھے اور نو رکا سایہ نہیں ہوتا۔ (۶ )
{33} آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے بدن شریف پر مکھی نہ بیٹھتی اور کپڑوں میں جوں نہ پڑتی۔ ( ۷)
{34} جب آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم چلتے تو فرشتے (بغرضِ حفاظت) آپ کے پیچھے ہوتے اسی واسطے آپ نے اـصحاب کرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُم سے فرمایا کہ تم میرے آگے چلو اور میری پیٹھ فرشتوں کے واسطے چھوڑ دو۔ (۱ )
{35} حضور انور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا خون اور تمام فضلات پاک تھے بلکہ آپ کے بول کا پینا شفاء تھا۔ ( ۲)
{36} حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے براز کو زمین نگل جایا کرتی تھی اور وہاں سے کستوری کی خوشبو آیا کرتی تھی۔ ( ۳)
{37} آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم جس گنجے کے سر پر اپنا دست شفاء پھیرتے اسی وقت بال اُگ آتے اور جس درخت کو لگاتے وہ اسی سال پھل دیتا۔
{38} آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم جس سر پر اپنا دست مبارک رکھتے آپ کے دست مبارک کی جگہ کے بال سیاہ ہی رہا کرتے کبھی سفید نہ ہوتے۔
{39} آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم رات کے وقت دولت خانے میں تبسم فرماتے تو گھر روشن ہوجاتا۔
{40} حضور اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے بدن مبارک سے خوشبو آتی تھی۔ جس راستے سے آپ گزرتے اس میں بوئے خوش رہتی جس سے پتہ چلتا کہ آپ یہاں سے گزرے ہیں ۔
{41} جس چوپائے پر آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سوار ہوتے وہ بول و براز نہ کرتا جب تک کہ آپ سوار رہتے۔
{42} آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی بعثت پر کاہنوں کی خبریں منقطع ہوگئیں اور شہابِ ثاقب کے ساتھ آسمانوں کی حفاظت کردی گئی اور شیاطین تمام آسمانوں سے روک دیئے گئے۔
{43} حضور اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّم کا قرین ومؤکل (جن) اسلام لے آیا۔
{44} شب معراج میں حضو ر صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّم کے لئے براق مع زین ولگام آیا۔
{45} حضو ر انور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم شب معراج میں جسد مبارک کے ساتھ حالت بیداری میں آسمانوں سے
اوپر تشریف لے گئے ۔ ؎
بلکہ جائے کہ جانبود آنجا محرمے جز خدا نبود آنجا
اور آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے اپنے پروردگار جَلَّ شَانُہ کو آنکھوں سے دیکھا اور اس کے ساتھ کلام کیا۔ اسی رات آپ بیت المقدس میں نما ز میں دیگر انبیاءے کرا م اور فرشتوں کے امام بنے۔
{46} بعضے غزوات میں فرشتے آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے ساتھ ہوکر دشمنوں سے لڑے۔
{47} ہم پہ واجب ہے کہ حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم پر درودو سلام بھیجیں ۔ پہلی امتوں پر واجب نہ تھا کہ اپنے پیغمبروں پر درود بھیجیں ۔
{48} قرآن کریم اور دیگر کتب الہامیہ (۱ ) میں اللّٰہ تعالٰی کی طرف سے سوائے حضور اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے اور کسی پیغمبر پر درود وارد نہیں ۔
{49} حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو اللّٰہ تعالٰی نے وہ کتاب عطا فرمائی جو تحریف سے محفوظ اور بلحاظ لفظ و معنی معجز ہے۔ حالانکہ آپ اُمی تھے، لکھنا پڑھنا نہ جانتے تھے اور نہ عالموں کی صحبت میں رہے تھے۔ ( ۲)
{50} حضور انور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو زمین کے خزانو ں کی کنجیاں عطا کی گئیں ۔ چنانچہ آپ کا ارشاد مبارک
ہے: اِنَّمَا اَنَا قَاسِمٌوَ اللّٰہُ یُعْطِیْ (میں تو بانٹنے والا ہوں اور اللّٰہ دیتا ہے) ان خزانوں میں سے جو کچھ کسی کو ملتا ہے وہ آپ ہی کے دست مبارک سے ملتا ہے کیونکہ آ پ حضرت باری تعالٰی کے خلیفۂ مُطْلَق و نائب کل ہیں ۔ جو کچھ چاہتے ہیں باذنِ الٰہی عطافرماتے ہیں ۔
{51} اللّٰہ تعالٰی نے حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو جوامع کلم عطا فرمائے ہیں یعنی آپ کے کلام شریف میں فصاحت و بلاغت اور غوامض معانی اور بدائع حکم اور محاسن عبارات بلفظ موجز و لطیف سب پائے جاتے ہیں ۔
{52} اللّٰہ تعالٰی نے آ پ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّم کو ہر شے کاعلم دیا یہاں تک کہ روح اور ان امور خمسہ کا علم بھی عنایت فرمایا جو سورۂ لقمان کے اخیر میں مذکور ہیں ۔ (۱ )
{53} حضور عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام سارے جہان (انس و جن و ملائک) کے لئے پیغمبر بنا کر بھیجے گئے ہیں ۔
{54} حضو رانو رعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام سارے جہان کے لئے رحمت بنا کر بھیجے گئے ہیں ۔
{55} حضور عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام کے رعب کا یہ حال تھا کہ دشمن خواہ ایک ماہ کی مسافت پر ہوتا آپ اس پررعب سے فتح پاتے اور وہ مغلوب ہوجاتا۔ یہ تخصیص بہ نسبت دیگر انبیاءے کرام عَلٰی نَبِیِّنَا وَعَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام کے ہے۔ سلاطین و جبابرہ ( ۲) کا معاملہ خارج از مبحث ہے۔
{56} آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے لئے (اور آپ کی امت کے لئے) غنائم (۳ ) حلال کردی گئیں ۔ آپ سے پہلے کسی پر حلال نہ تھیں ۔
{57} آ پ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے لئے (اور آپ کی امت کے لئے) تمام روئے زمین سجدہ گاہ اور پاک کرنے والی بنادی گئی جہاں نماز کا وقت آجائے اور پانی نہ ملے تیمم کرکے وہیں نماز پڑھ لی جائے۔ دوسری امتوں کے لئے پانی کے سوا کسی اور چیز کے ساتھ طہارت نہ تھی اور نماز بھی معین جگہ کنیسہ وغیرہ کے سوا اور جگہ جائز نہ تھی۔
{58} چاند کا ٹکڑے ہونا، شجر وحجر کا سلام کرنا اور رسالت کی شہادت دینا، حنانہ (۴ ) کا رونا اورا نگلیوں سے چشمے کی طر ح پانی جاری ہونا، یہ سب معجزات آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو عطا ہوئے۔
{59} حضور عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام خاتم النبیین ہیں ۔ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے بعد کوئی نیا نبی نہ آئے گا۔
{60} حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی شریعت تمام انبیاء سابقین کی شریعتوں کی ناسخ ہے اور قیامت تک رہے گی۔
{61} حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّم کو اللّٰہ تعالٰی نے کنایہ سے خطاب فرمایا، بخلاف دیگر انبیاء عَلَیْہِمُ السَّلام کے کہ انہیں ان کے نام سے خطاب کیاہے۔ دیکھو آیات ذیل:
{۱} وَ قُلْنَا یٰۤاٰدَمُ اسْكُنْ اَنْتَ وَ زَوْجُكَ الْجَنَّةَ وَ كُلَا مِنْهَا رَغَدًا حَیْثُ شِئْتُمَا۪-وَ لَا تَقْرَبَا هٰذِهِ الشَّجَرَةَ فَتَكُوْنَا مِنَ الظّٰلِمِیْنَ (۳۵) (پ۱، ع۴) (۱ )
{۲} وَ عَصٰۤى اٰدَمُ رَبَّهٗ فَغَوٰى۪ۖ (۱۲۱) (پ ۱۶، طہ، ع۷) ( ۲)
{۳} قِیْلَ یٰنُوْحُ اهْبِطْ بِسَلٰمٍ مِّنَّا وَ بَرَكٰتٍ عَلَیْكَ وَ عَلٰۤى اُمَمٍ مِّمَّنْ مَّعَكَؕ- (پ۱۲، ہود، ع۴) (۳ )
{۴} وَ نَادٰى نُوْحُ ﰳابْنَهٗ وَ كَانَ فِیْ مَعْزِلٍ یّٰبُنَیَّ ارْكَبْ مَّعَنَا وَ لَا تَكُنْ مَّعَ الْكٰفِرِیْنَ (۴۲) (پ۱۲، ہود، ع۴) ( ۴)
{۵} یٰۤاِبْرٰهِیْمُ اَعْرِضْ عَنْ هٰذَاۚ- (پ۱۲، ہود، ع۷) (۵ )
{۶} وَ اِذْ یَرْفَعُ اِبْرٰهٖمُ الْقَوَاعِدَ مِنَ الْبَیْتِ وَ اِسْمٰعِیْلُؕ-رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّاؕ-اِنَّكَ اَنْتَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ (۱۲۷)
(پ۱، بقرہ، ع۱۵) (۶ )
{۷} قَالَ یٰمُوْسٰۤى اِنِّی اصْطَفَیْتُكَ عَلَى النَّاسِ بِرِسٰلٰتِیْ وَ بِكَلَامِیْ ﳲ فَخُذْ مَاۤ اٰتَیْتُكَ وَ كُنْ مِّنَ الشّٰكِرِیْنَ (۱۴۴) (پ۹، اعراف، ع۱۷) ( ۱ )
{۸} فَوَكَزَهٗ مُوْسٰى فَقَضٰى عَلَیْهِ ﱪ قَالَ هٰذَا مِنْ عَمَلِ الشَّیْطٰنِؕ-اِنَّهٗ عَدُوٌّ مُّضِلٌّ مُّبِیْنٌ (۱۵) (پ۲۰، قصص، ع۲) (۲ )
{۹} اِذْ قَالَ اللّٰهُ یٰعِیْسَى ابْنَ مَرْیَمَ اذْكُرْ نِعْمَتِیْ عَلَیْكَ وَ عَلٰى وَ الِدَتِكَۘ- (پ۷، مائدہ، ع۱۵) ( ۳)
{۱۰} قَالَ عِیْسَى ابْنُ مَرْیَمَ اللّٰهُمَّ رَبَّنَاۤ اَنْزِلْ عَلَیْنَا مَآىٕدَةً مِّنَ السَّمَآءِ تَكُوْنُ لَنَا عِیْدًا لِّاَوَّلِنَا وَ اٰخِرِنَا وَ اٰیَةً مِّنْكَۚ-وَ ارْزُقْنَا وَ اَنْتَ خَیْرُ الرّٰزِقِیْنَ (۱۱۴) (پ۷، مائدہ، ع۱۵) ( ۴)
{۱۱} یٰدَاوٗدُ اِنَّا جَعَلْنٰكَ خَلِیْفَةً فِی الْاَرْضِ فَاحْكُمْ بَیْنَ النَّاسِ بِالْحَقِّ وَ لَا تَتَّبِـعِ الْهَوٰى فَیُضِلَّكَ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰهِؕ- (پ۲۳، ص، ع۲) ( ۵)
{۱۲} وَ وَهَبْنَا لِدَاوٗدَ سُلَیْمٰنَؕ-نِعْمَ الْعَبْدُؕ-اِنَّهٗۤ اَوَّابٌؕ (۳۰) (پ۲۳، ص، ع۳) ( ۶ )
{۱۳} یٰزَكَرِیَّاۤ اِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلٰمِ ﹰاسْمُهٗ یَحْیٰىۙ-لَمْ نَجْعَلْ لَّهٗ مِنْ قَبْلُ سَمِیًّا (۷) (پ۱۶، مریم، ع۱) (۱ )
{۱۴} كُلَّمَا دَخَلَ عَلَیْهَا زَكَرِیَّا الْمِحْرَابَۙ-وَجَدَ عِنْدَهَا رِزْقًاۚ- (پ۳، آل عمران، ع۴) ( ۲ )
{۱۵} یٰیَحْیٰى خُذِ الْكِتٰبَ بِقُوَّةٍؕ- (پ۱۶، مریم، ع۱) (۳ )
{۱۶} وَ زَكَرِیَّاۤ اِذْ نَادٰى رَبَّهٗ رَبِّ لَا تَذَرْنِیْ فَرْدًا وَّ اَنْتَ خَیْرُ الْوٰرِثِیْنَۚۖ (۸۹) (پ۱۷، انبیآء، ع۶) (۴ )
مگر ہمارے آقائے نامدار بِاَبِیْ ہُوَ وَاُمِّیْ کو اللّٰہ تعالٰی یوں خطاب فرماتا ہے :
{۱} یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ حَسْبُكَ اللّٰهُ وَ مَنِ اتَّبَعَكَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ۠ (۶۴) (پ۱۰، انفال، ع۸) ( ۵ )
{۲} یٰۤاَیُّهَا الرَّسُوْلُ بَلِّغْ مَاۤ اُنْزِلَ اِلَیْكَ مِنْ رَّبِّكَؕ- (پ۶، مائدہ، ع۱۰) ( ۶ )
{۳} یٰۤاَیُّهَا الْمُزَّمِّلُۙ (۱) (پ۲۹، مزمل، شروع) (۷ )
{۴} یٰۤاَیُّهَا الْمُدَّثِّرُۙ (۱) (پ۲۹، مدثر، شروع) (۸ )
جہاں اللّٰہ تعالٰی نے حضور کے نام مبارک کی تصریح فرمائی ہے وہاں ساتھ ہی رسالت یا کوئی اور وصف بیان فرمایا ہے ۔ دیکھو آیاتِ ذیل
{۱} وَ مَا محمد اِلَّا رَسُوْلٌۚ-پ۴، آل عمران، ع۱۵) ( ۱ )
{۲} محمد رَّسُوْلُ اللّٰهِؕ- (پ۲۶، فتح، ع۴) (۲ )
{۳} مَا كَانَ محمد اَبَاۤ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكُمْ وَ لٰكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ وَ خَاتَمَ النَّبِیّٖنَؕ-وَ كَانَ اللّٰهُ بِكُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمًا۠ (۴۰) (پ۲۲، احزاب، ع۵) (۳ )
{۴} وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَ اٰمَنُوْا بِمَا نُزِّلَ عَلٰى محمد وَّ هُوَ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّهِمْۙ-كَفَّرَ عَنْهُمْ سَیِّاٰتِهِمْ وَ اَصْلَحَ بَالَهُمْ (۲) (پ۲۶، محمد ، ع۱) ( ۴)
جہاں اللّٰہ تعالٰی نے اپنے خلیل و حبیب کا یکجا ذکر کیا ہے وہاں اپنے خلیل کا نام لیا ہے اور اپنے حبیب کو نبوت کے ساتھ یاد فرمایا ہے ۔چنانچہ یوں ارشاد ہوا:
اِنَّ اَوْلَى النَّاسِ بِاِبْرٰهِیْمَ لَلَّذِیْنَ اتَّبَعُوْهُ وَ هٰذَا النَّبِیُّ وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْاؕ-وَ اللّٰهُ وَلِیُّ الْمُؤْمِنِیْنَ (۶۸) (پ۳، آل عمران، ع۷) ( ۵ )
{62} حضور کو نام مبارک کے ساتھ خطاب کرنے سے اللّٰہ تعالٰی نے منع فرمایا حالانکہ دوسری امتیں اپنے اپنے نبیوں کو نام کے ساتھ خطاب کیا کرتی تھیں ۔دیکھو آیاتِ ذیل
{۱} قَالُوْا یٰمُوْسَى اجْعَلْ لَّنَاۤ اِلٰهًا كَمَا لَهُمْ اٰلِهَةٌؕ- (پ۹، اعراف، ع۱۶) ( ۶)
{۲} اِذْ قَالَ الْحَوَارِیُّوْنَ یٰعِیْسَى ابْنَ مَرْیَمَ هَلْ یَسْتَطِیْعُ رَبُّكَ اَنْ یُّنَزِّلَ عَلَیْنَا مَآىٕدَةً مِّنَ السَّمَآءِؕ- (پ۷، مائدہ، ع۱۵) ( ۱ )
{۳} قَالُوْا یٰهُوْدُ مَا جِئْتَنَا بِبَیِّنَةٍ وَّ مَا نَحْنُ بِتَارِكِیْۤ اٰلِهَتِنَا عَنْ قَوْلِكَ وَ مَا نَحْنُ لَكَ بِمُؤْمِنِیْنَ (۵۳) (پ۱۲، ہود، ع۵) (۳ )
{۴} قَالُوْا یٰصٰلِحُ قَدْ كُنْتَ فِیْنَا مَرْجُوًّا قَبْلَ هٰذَاۤ اَتَنْهٰىنَاۤ اَنْ نَّعْبُدَ مَا یَعْبُدُ اٰبَآؤُنَا وَ اِنَّنَا لَفِیْ شَكٍّ مِّمَّا تَدْعُوْنَاۤ اِلَیْهِ مُرِیْبٍ (۶۲) (پ۱۲، ہود، ع۶) ( ۳ )
مگر ہمارے آقائے نامدار بِاَبِیْ ہُوَ وَاُمِّیْ کی نسبت یوں ارشادِ باری ہوتاہے :
لَا تَجْعَلُوْا دُعَآءَ الرَّسُوْلِ بَیْنَكُمْ كَدُعَآءِ بَعْضِكُمْ بَعْضًاؕ- (پ۱۸، نور، ع۹) (۴ )
{63} حضورصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا نام مبارک اللّٰہ تعالٰی نے اپنی کتاب پاک میں طاعت و معصیت، فرائض واحکام، وعدہ ووعید اور انعام واکرام کا ذکرکرتے وقت اپنے پاک نام کے ساتھ یاد فرمایا ہے۔ دیکھو آیاتِ ذیل:
{۱} یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَ اُولِی الْاَمْرِ مِنْكُمْۚ- ( ۵ ) (پ۵، نساء، ع۸)
{۲} یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ وَ لَا تَوَلَّوْا عَنْهُ وَ اَنْتُمْ تَسْمَعُوْنَۚۖ (۲۰) ( ۶) (پ۹، انفال، ع۳)
{۳} وَ الْمُؤْمِنُوْنَ وَ الْمُؤْمِنٰتُ بَعْضُهُمْ اَوْلِیَآءُ بَعْضٍۘ-یَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ یَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَ یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوةَ وَ یُؤْتُوْنَ الزَّكٰوةَ وَ یُطِیْعُوْنَ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗؕ-اُولٰٓىٕكَ سَیَرْحَمُهُمُ اللّٰهُؕ-اِنَّ اللّٰهَ عَزِیْزٌ حَكِیْمٌ (۷۱) (پ۱۰، توبہ، ع۹) ( ۱ )
{۴} اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ اِذَا كَانُوْا مَعَهٗ عَلٰۤى اَمْرٍ جَامِعٍ لَّمْ یَذْهَبُوْا حَتّٰى یَسْتَاْذِنُوْهُؕ- (پ۱۸، نور، ع۹) ( ۲ )
{۵} یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اسْتَجِیْبُوْا لِلّٰهِ وَ لِلرَّسُوْلِ اِذَا دَعَاكُمْ لِمَا یُحْیِیْكُمْۚ- (پ۹، انفال، ع۳) (۳ )
{۶} وَ مَنْ یُّطِعِ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ یُدْخِلْهُ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْهَاؕ-وَ ذٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ (۱۳) وَ مَنْ یَّعْصِ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ وَ یَتَعَدَّ حُدُوْدَهٗ یُدْخِلْهُ نَارًا خَالِدًا فِیْهَا ۪- وَ لَهٗ عَذَابٌ مُّهِیْنٌ۠ (۱۴) (پ۴، نساء، ع۲) ( ۴ )
{۷} اِنَّ الَّذِیْنَ یُؤْذُوْنَ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ لَعَنَهُمُ اللّٰهُ فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةِ وَ اَعَدَّ لَهُمْ عَذَابًا مُّهِیْنًا (۵۷)
(پ۲۲، احزاب، ع۷) ( ۵)
{۸} بَرَآءَةٌ مِّنَ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖۤ اِلَى الَّذِیْنَ عٰهَدْتُّمْ مِّنَ الْمُشْرِكِیْنَؕ (۱) (پ۱۰، توبہ، شروع) ( ۱ )
{۹} وَ اَذَانٌ مِّنَ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖۤ اِلَى النَّاسِ یَوْمَ الْحَجِّ الْاَكْبَرِ اَنَّ اللّٰهَ بَرِیْٓءٌ مِّنَ الْمُشْرِكِیْنَ ﳔ وَ رَسُوْلُهٗؕ- (پ۱۰، توبہ، ع۱) (۲ )
{۱۰} اَمْ حَسِبْتُمْ اَنْ تُتْرَكُوْا وَ لَمَّا یَعْلَمِ اللّٰهُ الَّذِیْنَ جٰهَدُوْا مِنْكُمْ وَ لَمْ یَتَّخِذُوْا مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ وَ لَا رَسُوْلِهٖ وَ لَا الْمُؤْمِنِیْنَ وَلِیْجَةًؕ-وَ اللّٰهُ خَبِیْرٌۢ بِمَا تَعْمَلُوْنَ۠ (۱۶) (پ۱۰، توبہ، ع۲) ( ۳ )
{۱۱} اَلَمْ یَعْلَمُوْۤا اَنَّهٗ مَنْ یُّحَادِدِ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ فَاَنَّ لَهٗ نَارَ جَهَنَّمَ خَالِدًا فِیْهَاؕ-ذٰلِكَ الْخِزْیُ الْعَظِیْمُ (۶۳) (پ۱۰، توبہ، ع۸) (۴ )
{۱۲} اِنَّمَا جَزٰٓؤُا الَّذِیْنَ یُحَارِبُوْنَ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ وَ یَسْعَوْنَ فِی الْاَرْضِ فَسَادًا اَنْ یُّقَتَّلُوْۤا اَوْ یُصَلَّبُوْۤا اَوْ تُقَطَّعَ اَیْدِیْهِمْ وَ اَرْجُلُهُمْ مِّنْ خِلَافٍ اَوْ یُنْفَوْا مِنَ الْاَرْضِؕ- (پ۶، مائدہ، ع۵) ( ۵ )
{۱۳} قَاتِلُوا الَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَ لَا بِالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَ لَا یُحَرِّمُوْنَ مَا حَرَّمَ اللّٰهُ وَ رَسُوْلُهٗ وَ لَا یَدِیْنُوْنَ دِیْنَ
الْحَقِّ مِنَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ حَتّٰى یُعْطُوا الْجِزْیَةَ عَنْ یَّدٍ وَّ هُمْ صٰغِرُوْنَ۠ (۲۹) (پ۱۰، توبہ، ع۴) ( ۱ )
{۱۴} قُلِ الْاَنْفَالُ لِلّٰهِ وَ الرَّسُوْلِۚ- (پ۹، انفال، شروع) (۲ )
{۱۵} وَ مَنْ یُّشَاقِقِ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ فَاِنَّ اللّٰهَ شَدِیْدُ الْعِقَابِ (۱۳) (پ۹، انفال، ع۲) ( ۳ )
{۱۶} فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِیْ شَیْءٍ فَرُدُّوْهُ اِلَى اللّٰهِ وَ الرَّسُوْلِ اِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِؕ- (پ۵، نساء، ع۸) ( ۴ )
{۱۷} وَ لَوْ اَنَّهُمْ رَضُوْا مَاۤ اٰتٰىهُمُ اللّٰهُ وَ رَسُوْلُهٗۙ-وَ قَالُوْا حَسْبُنَا اللّٰهُ سَیُؤْتِیْنَا اللّٰهُ مِنْ فَضْلِهٖ وَ رَسُوْلُهٗۤۙ-اِنَّاۤ اِلَى اللّٰهِ رٰغِبُوْنَ۠ (۵۹) (پ۱۰، توبہ، ع۷) ( ۵ )
{۱۸} وَ اعْلَمُوْۤا اَنَّمَا غَنِمْتُمْ مِّنْ شَیْءٍ فَاَنَّ لِلّٰهِ خُمُسَهٗ وَ لِلرَّسُوْلِ (پ۱۰، شروع) ( ۶)
{۱۹} وَ مَا نَقَمُوْۤا اِلَّاۤ اَنْ اَغْنٰىهُمُ اللّٰهُ وَ رَسُوْلُهٗ مِنْ فَضْلِهٖۚ- (پ۱۰، توبہ، ع۱۰) (۷ )
{۲۰} وَ جَآءَ الْمُعَذِّرُوْنَ مِنَ الْاَعْرَابِ لِیُؤْذَنَ لَهُمْ وَ قَعَدَ الَّذِیْنَ كَذَبُوا اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗؕ-سَیُصِیْبُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا مِنْهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ (۹۰) (پ۱۰، توبہ، ع۱۲) (۸ )
{۲۱} وَ اِذْ تَقُوْلُ لِلَّذِیْۤ اَنْعَمَ اللّٰهُ عَلَیْهِ وَ اَنْعَمْتَ عَلَیْهِ اَمْسِكْ عَلَیْكَ زَوْجَكَ وَ اتَّقِ اللّٰهَ وَ تُخْفِیْ فِیْ نَفْسِكَ مَا اللّٰهُ مُبْدِیْهِ وَ تَخْشَى النَّاسَۚ-وَ اللّٰهُ اَحَقُّ اَنْ تَخْشٰىهُؕ-(پ۲۲، احزاب، ع۵) (۱ )
{64} اللّٰہ تعالٰی نے حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا ذکر بلند کیاہے۔ چنانچہ اذان اورخطبے اور تشہد میں اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کے ساتھ آ پ کا ذکر بھی ہے۔
{65} حضور عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام پر آ پ کی امت پیش کی گئی اور جو کچھ آپ کی امت میں قیامت تک ہونے والا ہے وہ سب آپ پر پیش کیا گیا بلکہ باقی امتیں بھی آپ پر پیش کی گئیں جیسا کہ حضرت آد م عَلَیْہِ السَّلام کو ہر چیز کا نام بتایا گیا۔
{66} آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم اللّٰہ تعالٰی کے حبیب ہیں اور محبت و خلت اور کلام ورویت کے جامع ہیں ۔
{67} جو کچھ اللّٰہ تعالٰی نے پہلے نبیوں کوانکے مانگنے کے بعد عطافرمایا وہ آپ کو بن مانگے عنایت فرمایا۔ دیکھو امثلہ ذیل:
(الف) حضرت ابراہیم عَلَیْہِ السَّلام نے خدا تعالٰی سے سوال کیا:
وَ لَا تُخْزِنِیْ یَوْمَ یُبْعَثُوْنَۙ (۸۷) (شعراء، ع ۵)
اور رسوانہ کر مجھ کو جس دن جی کر اٹھیں ۔ ( ۲ )
حضور سرورانبیاء صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم اور آپ کی امت کے بارے میں خدا تعالٰی یوں ارشاد فرماتا ہے :
یَوْمَ لَا یُخْزِی اللّٰهُ النَّبِیَّ وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَعَهٗۚ- (تحریم، ع۲)
جس دن اللّٰہ رسوانہ کرے گا نبی کو اور ان کو جو ایمان لائے ہیں اس کے ساتھ۔ (۳ )
یہاں سوال سے پہلے بشارت ہے۔
(ب) حضرت ابراہیم عَلَیْہِ السَّلام یوں دعا کرتے ہیں :
وَ اجْنُبْنِیْ وَ بَنِیَّ اَنْ نَّعْبُدَ الْاَصْنَامَؕ (۳۵) ( ابراہیم، ع ۶)
مجھے اور میرے بیٹوں کو بتوں کی عبادت سے بچا۔ (۴ )
حضور سرور انبیاء صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے حق میں بن مانگے خدا فرماتاہے:
اِنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰهُ لِیُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ اَهْلَ الْبَیْتِ وَ یُطَهِّرَكُمْ تَطْهِیْرًاۚ (۳۳) (احزاب، ع۴)
اللّٰہ یہی چاہتا ہے کہ دور کرے تم سے گندی باتیں اے گھر والو اور ستھرا کرے تم کو ستھرا کرنا۔ (۱ )
یہ ابلغ ہے اس سے جو حضرت ابراہیم خلیل اللّٰہ کے حق میں ہوا کیونکہ دعائے خلیل تو فقط عبادتِ اَصنام (۲ ) کی نفی کے لئے تھی اور یہ ہرگناہ و نقص کو عام ہے۔ وہ تو اپنے بیٹوں کے حق میں خاص تھی اوریہ عام ہے ہر ایک کوکہ شامل ہے اس کو بیت حضور نبی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کایعنی آ پ کے ازَواج مطہرات اور اولاد وغیرہ۔
(ج) حضرت خلیل اللّٰہ عَلَیْہِ السَّلام یوں دعا کرتے ہیں :
وَ اجْعَلْنِیْ مِنْ وَّرَثَةِ جَنَّةِ النَّعِیْمِۙ (۸۵) (شعراء، ع۵)
مجھے جنت نعیم کے وارثوں میں سے کر۔ ( ۳ )
حضور سرورِاَنبیاء صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے حق میں بن مانگے خدا فرماتا ہے :
اِنَّاۤ اَعْطَیْنٰكَ الْكَوْثَرَؕ (۱) (کوثر)
ہم نے تجھ کو کوثر عطاکیا۔ ( ۴ )
وَ لَسَوْفَ یُعْطِیْكَ رَبُّكَ فَتَرْضٰىؕ (۵) (ضحی)
اور آگے دے گا تجھ کو تیرا رب پھر تو راضی ہوجائے گا۔ ( ۵ )
(د) حضرت خلیل اللّٰہ عَلَیْہِ السَّلام یوں دعا کرتے ہیں :
وَ اجْعَلْ لِّیْ لِسَانَ صِدْقٍ فِی الْاٰخِرِیْنَۙ (۸۴) (شعراء، ع۵)
یعنی آئندہ امتوں میں قیامت تک میرا ذکر جمیل قائم رکھ۔ ( ۶)
حضور سرور انبیاء صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکو خدا تعالٰی نے بن مانگے اس سے بڑھ کر عطا فرمایا۔ چنانچہ سورۂ الم نشرح میں وارد ہے:
وَ رَفَعْنَا لَكَ ذِكْرَكَؕ (۴)
اورہم نے تیرا نام بلند کیا۔ ( ۱ )
لہٰذا حضور ازعرش تا فرش مشہور ہیں اور نماز و خطبہ و اذان میں اللّٰہ کے نام مبارک کے ساتھ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکا نام مبارک مذکور ہے اور عرش پر، قصورِ بہشت ( ۲ ) پر، حوروں کے سینوں پر، درختانِ بہشت کے پتوں پر اور فرشتوں کی چشم وابروپر آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا اسم شریف لکھا ہوا ہے اور آپ سے پہلے جس قدر انبیاء عَلَیْہِمُ السَّلام گزرے ہیں وہ سب آپ کے ثنا خواں رہے ہیں اور قیامت کو ثناخواں ہوں گے۔
(ہ) حضرت موسیٰ عَلَیْہِ السَّلام یوں دعا کرتے ہیں :
رَبِّ اشْرَحْ لِیْ صَدْرِیْۙ (۲۵) (طہ، ع۲)
اے میرے پروردگار میرا سینہ میرے واسطے روشن کر دے ( ۳ )
حضور سرور انبیاء صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے لئے بن مانگے یوں ارشاد ہوتا ہے:
اَلَمْ نَشْرَحْ لَکَ صَدْرَکَ (انشراح، شروع)
کیا ہم نے تیرے واسطے تیرا سینہ روشن نہیں کیا۔ ( ۴ )
(و) حضرت موسیٰ عَلَیْہِ السَّلام نے خدا تعالٰی سے کتاب کا سوال کیا۔ اللّٰہ تعالٰی نے ان سے تیس راتوں کا وعدہ فرمایا پھر دس راتیں اور زیادہ کی گئیں ۔ بعد ازاں کتاب تورات عطاہوئی۔
مگر حضور سرور انبیاء صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم پر بغیر کسی وعدۂ سابق کے نزولِ قرآن شروع ہوا۔ چنانچہ باری تعالٰی یوں ارشاد فرماتاہے :
وَ مَا كُنْتَ تَرْجُوْۤا اَنْ یُّلْقٰۤى اِلَیْكَ الْكِتٰبُ اِلَّا رَحْمَةً مِّنْ رَّبِّكَ (قصص، ع۹)
اور توقع نہ رکھتا توکہ اتاری جائے تجھ پر کتاب مگر فضل ہوکر تیرے رب کی طرف سے۔ ( ۵ )
{68} اللّٰہ تعالٰی نے حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی رسالت پر قسم کھائی ہے۔ چنانچہ قرآن کریم میں وارد ہے:
یٰسٓۚ (۱) وَ الْقُرْاٰنِ الْحَكِیْمِۙ (۲) اِنَّكَ لَمِنَ الْمُرْسَلِیْنَۙ (۳)
یسٓ! قسم ہے قرآن محکم کی تحقیق تو البتہ پیغمبروں سے ہے۔
{69} اللّٰہ تعالٰی نے حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی زندگی اور آپ کے شہرکی اور آپ کے زمانے کی قسم کھائی ہے :
(الف)
لَعَمْرُكَ اِنَّهُمْ لَفِیْ سَكْرَتِهِمْ یَعْمَهُوْنَ (۷۲) (حجر، ع۵)
یعنی تیر ی زندگی کی قسم ! وہ (قوم لوط) البتہ اپنی مستی میں سرگرداں ہیں ۔ (۱ )
اللّٰہ تعالٰی نے کسی اور پیغمبرکی زندگی کی قسم نہیں کھائی۔
(ب)
لَاۤ اُقْسِمُ بِهٰذَا الْبَلَدِۙ (۱) وَ اَنْتَ حِلٌّۢ بِهٰذَا الْبَلَدِۙ (۲) (سورۂ بلد)
میں قسم کھاتا ہوں اس شہر کی حالانکہ تو اترنے والاہے اس شہر میں ۔ (۲ )
اس آیت میں اللّٰہ تعالٰی نے اپنے حبیب پاک صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے شہر یعنی مکہ معظّمہ کی قسم کھائی ہے جسے پہلے ہی سے شرف ذاتی حاصل تھا مگر حضورِ انور کے نزول سے اور شرف حاصل ہوگیا۔ ’’ مدارج النبوت ‘‘ میں یوں لکھاہے:
’’ در مواہب لدنیہ (۳ ) میگوید کہ روایت کردہ شدہ است از عمربن الخطاب رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کہ گفت مر آنحضرت را بِاَبِیْ اَنْتَ وَاُمِّیْ یارسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ! بہ تحقیق رسیدہ است فضیلت تو نزد خدا بمرتبہ کہ سوگند خورد خدا تعالٰی بحیات تو نہ بحیات سائر انبیاء عَلَیْہِمُ السَّلام ورسیدہ است فضیلت تو نزد خدا تعالٰی بحدیکہ سوگند خورد بخاک پائے تو وہ گفت لَاۤ اُقْسِمُ بِهٰذَا الْبَلَدِۙ (۱) یعنی سوگند خوردن ببلد کہ عبارت است از زمین کہ بے سپر میکند آنرا پائے آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سوگند بخاک پائے حضرت رسالت است ونظر بحقیقت معنی صاف و پاک است کہ غبارے
براں نمے نشیند۔ ‘‘ (۱ )
(ج)
وَ الْعَصْرِۙ (۱) اِنَّ الْاِنْسَانَ لَفِیْ خُسْرٍۙ (۲) (سورۂ عصر)
قسم ہے زمانہ کی ! تحقیق انسان ٹوٹے میں ہے۔ (۲ )
{70} حضو ر عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام سے وحی کی تمام قسموں کے ساتھ کلام کیا گیا۔
{71} حضور کا رؤیا ( ۳ ) وحی ہے یہی حال تمام پیغمبروں کا ہے۔ عَلٰی نَبِیِّنَا وَعَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام
{72} حضور سرورکائنات صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم پر حضرت اسرافیل عَلَیْہِ السَّلام نازل ہوئے جو آپ سے پہلے کسی اور نبی پر نازل نہیں ہوئے۔
{73} حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم بہترین اولاد آدم ہیں ۔
{74} آپ کے پچھلے اگلے گناہ (بالفرض والتقدیر ) معاف کیے گئے ہیں یعنی اگر آپ سے کسی گناہ (تر ک اولیٰ جسے بلحاظ آپ کے منصب جلیل کے گناہ سے تعبیر کیاجائے) کا صدور تصور کیاجائے تو اس کی معافی کی بشارت خدا نے دے دی ہے۔ حالانکہ ایسا تصور میں نہیں آسکتا کیونکہ آپ سے کبھی کوئی گناہ (خواہ ترک اولیٰ ہی ہو) صادر نہیں ہوا۔ کسی دوسرے پیغمبر کوخدا تعالٰی نے حیات دنیوی میں ایسی مغفرت کی بشارت نہیں دی۔
{75} حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم اللّٰہ کے نزدیک اکرم الخلق ہیں اس لئے دیگر انبیاء و مرسلین اور ملائک سے افضل ہیں ۔
{76} اجتہاد میں حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّم سے خطاء (بر تقدیر تسلیم و قوع) جائز نہیں ۔
{77} قبر میں میت سے حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی نسبت سوال ہوتا ہے۔
{78} حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے بعد آپ کی اَزواجِ مطہرات رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُنَّ سے نکاح حرام کیا گیا۔
{79} حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی ازواج مطہرات رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُنَّ کے اَشخاص واَجسام کا اِظہار خواہ چادروں میں پوشیدہ ہوں (باستثنائے ضرورت) جائز نہ تھا، اسی طرح ان پر شہادت وغیرہ کے لئے منہ ہاتھ کا ننگا کرنا حرام تھا۔
{80} حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی صاحبزادیوں کی اولاد آپ کی طرف منسوب ہے۔ چنانچہ حضرت امام حسن اور امام حسین رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُما آپ کے صاحبزادے کہلاتے ہیں ۔
{81} حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی صاحبزادیوں پر تزوج حرام تھا یعنی اگر آپ کی کوئی صاحبزادی کسی مرد کے نکاح میں ہوتو اس مرد پر حرام تھاکہ کسی دوسری عورت سے بھی نکاح کرے۔
{82} جس محراب کی طرف حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے نماز پڑھی اس میں کسی کو اجتہاد و تحری سے دائیں بائیں ہونا جائز نہیں اور اگر کوئی شخص ایسا کرے اور اصرار کرے کہ رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے زمانہ میں اسی طرح تھی تو وہ کافر ہوگیا اور اگر یہ تاویل کرے کہ یہ محراب جو اب ہے وہ نہیں جو حضور کے زمانہ میں تھی بلکہ اس میں تغیر آگیا ہے تو وہ کافر نہیں ہوتا۔
{83} جس نے حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کوخواب میں دیکھا اس نے بیشک آپ ہی کو دیکھا کیونکہ شیطان آپ کی صورت شریف کی طرح نہیں بن سکتا۔ اس بات پر تمام محدثین کا اتفاق ہے کہ جس صورت سے کسی نے آپ کوخوا ب میں دیکھا اس نے آپ ہی کو دیکھا۔ تفاوت آئینے کے حال میں ہے، جس کا آئینۂ خیال زیادہ صاف اور اسلام کے نور سے زیادہ منور ہے اس کا دیکھنا درست تر ا ور کامل تر ہے۔ بعضے کہتے ہیں کہ شیطان کسی نبی کی صورت میں متمثل نہیں ہوسکتا۔
{84} حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا اسم شریف یعنی محمد کسی کانام رکھنا مبارک اور دنیا اور آخرت میں نافع ہے مگر ا بو لقاسم کنیت رکھنے میں اختلاف ہے۔ بعضوں نے اسم و کنیت کے درمیان جمع کرنے سے منع کیا ہے اور افراد یعنی اسم و کنیت میں سے ایک کارکھنا جائز بتایا ہے۔ تفصیل مطولات میں ( ) دیکھنی چاہیے۔
{85} کسی کے لئے جائز نہیں کہ اپنی انگوٹھی پر ’’ محمد رسول اللّٰہ ‘‘ نقش کرائے جیسا کہ حضور کی انگوٹھی پر تھا۔
{86} حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی حدیث شریف کے پڑھنے کے لئے غسل و وضوکرنا اور خوشبو ملنا مستحب ہے اور یہ بھی مستحب ہے کہ حدیث شریف کے پڑھنے میں آواز دھیمی کی جائے جیسا کہ حضور کی حیات شریف میں جس وقت آپ کلام کرتے حکم الٰہی تھا کہ آپ کی آواز پر اپنی آواز بلند نہ کرو۔ آپ کے وصال شریف کے بعد آپ کا کلام مروی و ماثور عزت و رفعت میں مثل اس کلام کے ہے جو آپ کی زبان سے سنا جاتا تھا لہٰذا کلام ماثور کی قراء ت کے وقت بھی وہی ادب ملحوظ رکھنا چاہیے اور یہ بھی مستحب ہے کہ حدیث شریف اونچی جگہ پر پڑھی جائے اور پڑھتے وقت کسی کی تعظیم کے لئے خواہ کیسا ہی ذی شان ہو کھڑا نہ ہووے کیونکہ یہ خلاف ادب ہے۔
{87} حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی حدیث شریف کے قاریوں کے چہرے تازہ و شادماں رہیں گے۔
{88} جس شخص نے بحالت ِایمان ایک لمحہ یا ایک نظر حضور اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو دیکھ لیا اسے صحابی ہونے کا شرف حاصل ہوگیاطویل صحبت شرط نہیں ۔ ہاں تابعی ہونے کے لئے یہ شرط ہے کہ وہ صحابی کی صحبت میں دیر تک رہا ہو۔
{89} حضو ر صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے تمام صحابۂ کرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُم عادل ہیں لہٰذا شہادت و روایت میں ان میں سے کسی کی عدالت سے بحث نہ کی جائے جیسا کہ دیگر راویوں میں کی جاتی ہے۔ کیونکہ صحابۂ کرام کی تعدیل ظواہر کتاب و سنت سے ثابت ہے۔
{90} نمازی تشہد میں حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے یوں خطاب کرتاہے: ’’ اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ اَ یُّھَا النَّبِیُّ ‘‘ (آپ پر سلام اے نبی ) اور آپ کے سوا کسی اور مخلوق کو اس طرح خطاب نہیں کرتا۔ شب معراج میں اللّٰہ تعالٰی نے حضور اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو انہیں الفاظ سے خطاب کیا تھا۔ فقہاء کرام لکھتے ہیں کہ نمازی کو چاہیے کہ تشہد میں شب معراج کے واقعہ کی حکایت واخبار کا ارادہ نہ کرے بلکہ انشاء کا قصد کرے کہ گویا وہ اپنی طرف سے اپنے نبی پر سلام بھیجتاہے۔ اگر حکایت واخبار کی نیت ہوگی تو وہ سلام نمازی کانہ ہوگا اور تشہد جوواجب ہے ادانہ ہوگا لہٰذا نماز واجب الاعادہ ہوگی۔ امام غزالی رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ ’’ احیا ء العلوم ‘‘ میں فرماتے ہیں کہ نمازی کو چاہیے کہ اپنے قلب میں آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم او ر آپ کے جسم کریم کو حاضر کرکے کہے: اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ اَ یُّھَا النَّبِیُّ۔
شیخ عبدالحق محدث دہلوی ’’ اَشِعَّۃُ اللَّمْعَات ‘‘ میں لکھتے ہیں :
’’ ونیز آنحضرت ہمیشہ نصب العین مومناں وقرۃ العین عابدان است در جمیع احوال و اوقات خصوصاً درحالت عبادت و آخر آں کہ وجود نورانیت وانکشاف دریں محل بیشتر وقوی تراست۔ وبعضے از عرفا گفتہ اند کہ ایں خطاب بجہت سریان حقیقت محمد یہ است در ذرائر موجودات و افراد ممکنات۔ پس آنحضرت در ذات مصلیان موجود و حاضر است۔ پس مصلی را باید کہ ازیں معنی آگاہ باشد وازیں شہود غافل نبود تا بانوار قرب و اسرار معرفت متنوروفائض گردد۔ ‘‘ (۱ )
امام عبدالوہاب شعرانی رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ میزانِ کبریٰ ( باب صفۃ الصلوٰۃ ) میں لکھتے ہیں کہ میں نے سیدی علی خواص رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کو یہ فرماتے سنا ہے کہ شارع نے نمازی کو التحیات میں رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم پر درود وسلام بھیجنے کا اس لئے امر کیا ہے کہ غافلوں کو آگاہ کردے کہ تم جوا للّٰہ عَزَّوَجَلَّ کے سامنے بیٹھے ہو اس دربار میں تمہارے نبی موجود ہیں ، کیونکہ آپ بارگاہ الٰہی سے کبھی جدا نہیں ہوتے اس واسطے نمازی آپ کو سلام کے ساتھ روبرو خطاب کرتے ہیں ۔ ( ۲ )
{91} جس مومن کوحضور پکاریں اس پر آپ کو جواب دینا واجب ہے خواہ وہ نماز میں ہو۔ حضرت ابو سعید بن معلی کا بیان ہے کہ میں مسجد میں نمازپڑھ رہا تھا مجھے رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے پکارا میں نہ آیا نماز سے فارغ ہوکر حاضر خدمت ہوا اور میں نے عرض کیا کہ یارسول اللّٰہ! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم میں نماز پڑھ رہا تھا۔ آپ نے فرمایا کہ کیا اللّٰہ نے یہ ارشاد نہیں فرمایا :
اسْتَجِیْبُوْا لِلّٰهِ وَ لِلرَّسُوْلِ اِذَا دَعَاكُمْ لِمَا یُحْیِیْكُمْۚ- (انفال، ع ۳)
قبول کرو خدا اور رسول کا پکارنا جب وہ پکارے تمہیں اس چیز کیلئے جو تم کو زندہ کرے۔ ( ۳ ) (صحیح بخاری، تفسیر سورۂ انفال ) ( ۴ )
اگر کوئی مومن آپ کو جواب نہ دے تو بالاتفاق گنہگار ہے۔ اس کی نماز کے بارے میں اختلاف ہے کہ باطل ہوجاتی ہے یا نہیں ۔
{92} حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم پر جھوٹ باندھنا ایسا نہیں جیسا کہ آپ کے غیر پر ہے۔ حدیث صحیحین میں آیا ہے کہ آپ نے فرمایا: ’’ جس شخص نے جان بوجھ کر مجھ پر جھوٹ باندھا وہ آگ میں اپنا ٹھکانا بنالے۔ ‘‘ ( ۱ ) ایسے شخص کی روایت خواہ وہ توبہ کرے ہر گز قبول نہ کی جائے گی۔ بعضوں کے نزدیک رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم پر عمداً جھوٹ باندھنا کفر ہے۔ مگر حق یہ ہے کہ سخت گناہ عظیم و کبیرہ ہے۔
{93} حضور انورصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی ازواج مطہرات رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُنَّ کے حجروں کے باہر سے آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو پکارنا حرام ہے۔ ارشاد باری تعالٰی ہے :
اِنَّ الَّذِیْنَ یُنَادُوْنَكَ مِنْ وَّرَآءِ الْحُجُرٰتِ اَكْثَرُهُمْ لَا یَعْقِلُوْنَ (۴) وَ لَوْ اَنَّهُمْ صَبَرُوْا حَتّٰى تَخْرُ جَ اِلَیْهِمْ لَكَانَ خَیْرًا لَّهُمْؕ-وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ (۵) (حجرات، ع۱)
البتہ وہ لوگ جو پکارتے ہیں تجھ کو حجروں کے باہر سے ان میں اکثر عقل نہیں رکھتے اور اگر وہ صبر کرتے یہاں تک کہ تو ان کی طرف نکلتا تو یہ البتہ ان کے لئے بہتر ہوتا اور اللّٰہ بخشنے والا مہربان ہے۔ (۲ )
{94} حضور عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام سے بلند آواز سے کلام کرنا حرام ہے جیسا کہ قرآن مجید میں مذکور ہے۔
{95} آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم معصوم ہیں گناہ صغیرہ اور کبیرہ سے عمداً اور سہواً قبل ا ز نبوت اور بعد نبوت۔ یہی مذہب مختار ہے۔
{96} حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم پر جنون اور لمبی بے ہوشی طاری نہیں ہوئی کیونکہ یہ منجملہ نقائص ہیں ۔ علامہ سبکی رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے کہا کہ پیغمبروں پر نابینائی وارد نہیں ہوتی کیونکہ یہ نقص ہے۔ کوئی پیغمبر نابینا نہیں ہوا۔ حضرت شعیب عَلَیْہِ السَّلام کی نسبت جو کہا گیا ہے کہ وہ نابینا تھے سو وہ ثابت نہیں ۔ ( برتقدیر ثبوت و ہ نابینا ئی مضر نہیں کیونکہ وہ تحقیق
نبوت کے بعد طاری ہوئی) رہے حضرت یعقوب عَلَیْہِ السَّلام سوان کی آنکھوں پر پردہ آگیاتھااور وہ پردہ دور ہوگیا۔ مشہور یہ ہے کہ کوئی پیغمبر اصم ( بہرا ) نہ تھا۔
{97} حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی برآء ت وتنز یہ خو د اللّٰہ تعالٰی نے فرمادی بخلاف دیگر انبیاءے کرام عَلَیْہِمُ السَّلام کے کہ اپنے مُکَذِّبین (۱ ) کی تردید وہ خود کیا کرتے تھے۔ چنانچہ قوم نوح نے جب ان سے کہا :
اِنَّا لَنَرٰىكَ فِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍ (۶۰)
تحقیق ہم تجھے صریح گمراہی میں دیکھتے ہیں ۔ ( ۲ )
ان کی نفی خود حضرت نوح عَلَیْہِ السَّلام نے کی جب ان سے کہا:
قَالَ یٰقَوْمِ لَیْسَ بِیْ ضَلٰلَةٌ وَّ لٰكِنِّیْ رَسُوْلٌ مِّنْ رَّبِّ الْعٰلَمِیْنَ (۶۱) (پ۸، اعراف، ع۸)
اے میر ی قوم مجھ میں گمراہی نہیں ولیکن میں رب العالمین کی طرف سے رسول ہوں ۔ ( ۳ )
قوم ہود نے ان سے کہا:
اِنَّا لَنَرٰىكَ فِیْ سَفَاهَةٍ وَّ اِنَّا لَنَظُنُّكَ مِنَ الْكٰذِبِیْنَ (۶۶)
تحقیق ہم تجھ کو بیوقوفی میں دیکھتے ہیں اور تجھے جھوٹوں سے گمان کرتے ہیں ۔ (۴ )
اس پر ہودعَلٰی نَبِیِّنَا وَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام نے فرمایا:
یٰقَوْمِ لَیْسَ بِیْ سَفَاهَةٌ وَّ لٰكِنِّیْ رَسُوْلٌ مِّنْ رَّبِّ الْعٰلَمِیْنَ (۶۷) (پ۸، اعراف، ع۹)
اے میری قوم مجھ میں بیوقوفی نہیں ولیکن میں رب العالمین کی طرف سے رسول ہوں ۔ ( ۵ )
فرعون نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ السَّلام سے کہاتھا:
اِنِّیْ لَاَظُنُّكَ یٰمُوْسٰى مَسْحُوْرًا (۱۰۱)
تحقیق میں تجھے اے موسیٰ! جادو کیا ہوا گمان کرتا ہوں ۔
اس پر حضرت موسیٰ عَلٰی نَبِیِّنَا وَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلامنے فرمایا:
وَ اِنِّیْ لَاَظُنُّكَ یٰفِرْعَوْنُ مَثْبُوْرًا (۱۰۲) (پ۱۵، بنی اسرائیل، ع۱۲)
اور تحقیق میں تجھے اے فرعون ہلاک کیا گیا گمان کرتا ہوں ۔ (۱ )
قوم شعیب نے ان سے کہا:
اِنَّا لَنَرٰىكَ فِیْنَا ضَعِیْفًاۚ-وَ لَوْ لَا رَهْطُكَ لَرَجَمْنٰكَ٘-وَ مَاۤ اَنْتَ عَلَیْنَا بِعَزِیْزٍ (۹۱) (ہود، ع۸)
تحقیق البتہ ہم تجھ کو اپنے درمیان کمزور دیکھتے ہیں اگر تیری برادری نہ ہوتی تو البتہ ہم تجھ کو سنگسار کر دیتے اور تو ہم پر قدرت والا نہیں ۔ ( ۲ )
حضرت شعیب عَلَیْہِ السَّلام اس کا جواب یوں دیتے ہیں :
یٰقَوْمِ اَرَهْطِیْۤ اَعَزُّ عَلَیْكُمْ مِّنَ اللّٰهِؕ-وَ اتَّخَذْتُمُوْهُ وَرَآءَكُمْ ظِهْرِیًّاؕ-اِنَّ رَبِّیْ بِمَا تَعْمَلُوْنَ مُحِیْطٌ (۹۲) (ہود، ع۸) اے میری قوم ! کیا میری برادری تم پر اللّٰہ سے زیادہ عزیز ہے اور تم نے اسکو اپنی پیٹھ پیچھے ڈالا ہوا ہے، تحقیق میرا پروردگار گھیرنے والاہے اس چیز کو کہ تم کرتے ہو۔ (۳ )
کفار نے ہمارے آقا ئے نامدار صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی نسبت جو طعن و تنقیص کی حق سبحانہ نے بذات خود اسکی تردید فرمادی جس سے حضورعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام کی شان محبوبیت عیاں ہے۔ چند مثالیں ذیل میں درج کی جاتی ہیں :
کفار کا اعتراض و طعن
{1} یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْ نُزِّلَ عَلَیْهِ الذِّكْرُ اِنَّكَ لَمَجْنُوْنٌؕ (۶) (حجر، ع۱) ( ۴ )
بارِی تعالٰی عَزَّ اِسْمُہ کا جواب
مَاۤ اَنْتَ بِنِعْمَةِ رَبِّكَ بِمَجْنُوْنٍۚ (۲) (قلم، ع۱) (۵ )
نہیں تو اپنے رب کے فضل سے دیوانہ۔
اے وہ شخص کہ اتار ا گیا اس پر قرآن تو البتہ دیوانہ ہے۔ {2} اَىٕنَّا لَتَارِكُوْۤا اٰلِهَتِنَا لِشَاعِرٍ مَّجْنُوْنٍؕ (۳۶) (صافات، ع۲) (۱ )
کیاہم چھوڑدینے والے ہیں اپنے معبودوں کو ایک دیوانے شاعر کے واسطے۔
بَلْ جَآءَ بِالْحَقِّ وَ صَدَّقَ الْمُرْسَلِیْنَ (۳۷) (صافات، ع۲) ( ۲)
بلکہ وہ لایاہے حق اور سچا کیاہے پیغمبروں کو۔
وَ مَا عَلَّمْنٰهُ الشِّعْرَ وَ مَا یَنْۢبَغِیْ لَهٗؕ- (یس، ع۵) (۳ )
اور ہم نے اس کو شعر نہیں سکھایااور اس کے لائق نہیں ۔
{3} اِنْ تَتَّبِعُوْنَ اِلَّا رَجُلًا مَّسْحُوْرًا (۴۷) (بنی اسرائیل، ع۵) (۴ )
نہیں پیروی کرتے تم مگر ایک مرد مسحور (جادو مارا ) کی۔
اُنْظُرْ كَیْفَ ضَرَبُوْا لَكَ الْاَمْثَالَ فَضَلُّوْا فَلَا یَسْتَطِیْعُوْنَ سَبِیْلًا (۴۸) (بنی اسرائیل ، ع۵) (۵ )
دیکھ کیونکر بیان کیں انہوں نے تیرے واسطے مثالیں ۔ پس وہ گمراہ ہوگئے پس نہیں پاسکتے کوئی راہ (طعن کی ) ۔
{4} لَوْ نَشَآءُ لَقُلْنَا مِثْلَ هٰذَاۤۙ-اِنْ هٰذَاۤ اِلَّاۤ اَسَاطِیْرُ الْاَوَّلِیْنَ (۳۱) (انفال، ع۴) ( ۶ )
اگر ہم چاہیں تو کہہ لیں ایسا۔ یہ کچھ نہیں مگر قصے کہانیاں پہلوں کی۔
قُلْ لَّىٕنِ اجْتَمَعَتِ الْاِنْسُ وَ الْجِنُّ عَلٰۤى اَنْ یَّاْتُوْا بِمِثْلِ هٰذَا الْقُرْاٰنِ لَا یَاْتُوْنَ بِمِثْلِهٖ وَ لَوْ كَانَ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ ظَهِیْرًا (۸۸) (بنی اسرائیل، ع۱۰) (۷ )
کہہ دے اگر جمع ہوویں آدمی اور جن اس پر کہ لاویں ایسا قرآن تو نہ لاویں گے ایسا خواہ مدد کریں ایک کی ایک۔
{5} اَمْ یَقُوْلُوْنَ افْتَرٰىهُؕ- (یونس، ع۴) ( ۱ )
یوں کہتے ہیں کہ آپ نے اس کو باندھ لیاہے۔
قُلْ فَاْتُوْا بِعَشْرِ سُوَرٍ مِّثْلِهٖ مُفْتَرَیٰتٍ وَّ ادْعُوْا مَنِ اسْتَطَعْتُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ (۱۳) (یونس، ع۴) ( ۲ )
کہہ دے تم لے آؤ ایک سور ت ایسی اور پکارو جس کو پکار سکو اللّٰہ کے سوا اگر ہو تم سچے۔ {6} لَوْ لَا نُزِّلَ عَلَیْهِ الْقُرْاٰنُ جُمْلَةً وَّاحِدَةًۚۛ- (فرقان، ع۳) ( ۳ )
آپ پر قرآن ایک دفعہ کیوں نازل نہیں کیا گیا۔
كَذٰلِكَۚۛ-لِنُثَبِّتَ بِهٖ فُؤَادَكَ وَ رَتَّلْنٰهُ تَرْتِیْلًا (۳۲) (فرقان، ع۳) ( ۴ )
اسی طرح اتارا ہم نے تاکہ ثابت رکھیں ہم اس کے ساتھ تیرے دل کو اور آہستہ آہستہ پڑھا ہم نے اس کو آہستہ پڑھنا۔ (یعنی ہر بات کے وقت پر اس کا جواب آتا رہے تو پیغمبر کا دل ثابت رہے۔ موضح)
{7} لَسْتَ مُرْسَلًاؕ- (رعد، اخیر آیت) ( ۵ )
تو رسول نہیں ۔
قُلْ كَفٰى بِاللّٰهِ شَهِیْدًۢا بَیْنِیْ وَ بَیْنَكُمْۙ-وَ مَنْ عِنْدَهٗ عِلْمُ الْكِتٰبِ۠ (۴۳) (رعد، اخیر آیت) ( ۶)
کہہ دے کافی ہے اللّٰہ گواہی دینے والا درمیان میرے اور درمیان تمہارے اور وہ شخص کہ اس کے پاس ہے علم کتاب کا۔
یٰسٓۚ (۱) وَ الْقُرْاٰنِ الْحَكِیْمِۙ (۲) اِنَّكَ لَمِنَ الْمُرْسَلِیْنَۙ (۳)
یس! قسم ہے قرآن محکم کی تحقیق تو البتہ رسولوں میں سے ہے۔
{8} اَبَعَثَ اللّٰهُ بَشَرًا رَّسُوْلًا (۹۴)
(بنی اسرائیل، ع۱۱) ( ۱ )
کیا اللّٰہنے آدمی کو پیغمبر بناکر بھیجا ہے ؟
قُلْ لَّوْ كَانَ فِی الْاَرْضِ مَلٰٓىٕكَةٌ یَّمْشُوْنَ مُطْمَىٕنِّیْنَ لَنَزَّلْنَا عَلَیْهِمْ مِّنَ السَّمَآءِ مَلَكًا رَّسُوْلًا (۹۵) (بنی اسرائیل، ع۱۱) ( ۲ )
کہہ دے اگر ہوتے زمین میں فرشتے چلاکر تے آرام سے تو البتہ ہم اتارتے ان پر آسمان سے فرشتے کو پیغمبر بناکر۔
مطلب یہ کہ تجانس موجب توانس اور تخالف موجب تباین ہے (۳ ) اس لئے فرشتوں کے لئے فرشتہ مبعوث ہونا چاہیے اور اہل ارض کے لئے بشر رسول چاہیے۔
{9} مَالِ هٰذَا الرَّسُوْلِ یَاْكُلُ الطَّعَامَ وَ یَمْشِیْ فِی الْاَسْوَاقِؕ- (فرقان، ع۱) ( ۴ )
کیا ہوا ہے اس پیغمبر کو کہ کھاتا ہے کھانا اور چلتا ہے بازاروں میں ۔
وَ مَاۤ اَرْسَلْنَا قَبْلَكَ مِنَ الْمُرْسَلِیْنَ اِلَّاۤ اِنَّهُمْ لَیَاْكُلُوْنَ الطَّعَامَ وَ یَمْشُوْنَ فِی الْاَسْوَاقِؕ- (فرقان، ع۲) ( ۵ )
اور نہیں بھیجے ہم نے تجھ سے پہلے پیغمبر مگر تحقیق وہ البتہ کھاتے تھے کھانا اور چلتے تھے بازاروں میں ۔
{10} وَ قَالُوْا لَوْ لَا نُزِّلَ هٰذَا الْقُرْاٰنُ عَلٰى رَجُلٍ مِّنَ الْقَرْیَتَیْنِ عَظِیْمٍ (۳۱) (زخرف، ع۳) ( ۱ )
کیوں نہ اتاراگیا یہ قرآن ایک مرد پر ان دو بستیوں سے۔
اَهُمْ یَقْسِمُوْنَ رَحْمَتَ رَبِّكَؕ-نَحْنُ قَسَمْنَا بَیْنَهُمْ مَّعِیْشَتَهُمْ فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا وَ رَفَعْنَا بَعْضَهُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجٰتٍ لِّیَتَّخِذَ بَعْضُهُمْ بَعْضًا سُخْرِیًّاؕ-وَ رَحْمَتُ رَبِّكَ خَیْرٌ مِّمَّا یَجْمَعُوْنَ (۳۲) (زخرف، ع۳) ( ۲ )
کیا وہ بانٹتے ہیں تیرے پروردگار کی رحمت کو۔ ہم نے بانٹی ہے انکے درمیان انکی روزی حیات دنیا میں اور ہم نے بلند کیا ان میں سے بعض کو بعض پر درجوں میں تاکہ پکڑیں بعضے ان کے بعضوں کو محکوم اور تیرے پروردگار کی رحمت بہتر ہے اس چیز سے کہ وہ جمع کرتے ہیں ۔
{11} هَلْ نَدُلُّكُمْ عَلٰى رَجُلٍ یُّنَبِّئُكُمْ اِذَا مُزِّقْتُمْ كُلَّ مُمَزَّقٍۙ-اِنَّكُمْ لَفِیْ خَلْقٍ جَدِیْدٍۚ (۷) o (سبا، ع۱) ( ۳)
کیا ہم راہ بتادیں تم کو اس شخص کی طرف جو خبردیتا ہے تم کو کہ جب تم ریزہ ریزہ ہوجاؤ گے نہایت ریزہ ریزہ ہونا تحقیق البتہ نئی پیدائش میں ہوگے۔
اَفْتَرٰى عَلَى اللّٰهِ كَذِبًا اَمْ بِهٖ جِنَّةٌؕ-بَلِ الَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ بِالْاٰخِرَةِ فِی الْعَذَابِ وَ الضَّلٰلِ الْبَعِیْدِ (۸) (سبا، ع۱)( ۴ )
کیا باندھ لیا ہے اس نے اللّٰہ پر جھوٹ یا اس کوجنون ہے بلکہ وہ لوگ جو آخرت پر ایمان نہیں لاتے عذاب اور دورکی گمراہی میں ہیں ۔
{12} ایک روز آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم مسجد حرام سے نکل رہے تھے کہ باب بنی سہم میں عاص بن وائل سہمی آپ سے ملا اور کلام کیا۔ جب وہ مسجد میں داخل ہوا تو اَشقیائے قریش نے پوچھا کہ تم کس سے باتیں کر رہے تھے عاص بولاکہ ابتر (بے نسل ) سے حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا صاحبزادہ جو حضرت خدیجۃ الکبریٰ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا کے بطن مبارک سے تھا انتقال کرچکا تھا اس لئے عاص نے حضور کو یہ طعن دیا کہ زندگی تک ان کا نام ہے پیچھے کون نام لے گا۔ (مدارج النبوت) (۱ )
اِنَّ شَانِئَكَ هُوَ الْاَبْتَرُ۠ (۳) (کوثر) ( ۲ )
تحقیق تیر ا دشمن وہی ہے بے نسل۔
چنانچہ عاص مذکو رکا نام نابود ہوگیامگر حضور انور بِاَبِیْ ہُوَ وَاُمِّیْ کا نام قیامت تک روشن ہے اور آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی ذریت قیامت تک رہے گی۔
{13} حضرت کو کئی دن وحی نہ آئی دل مُکَدَّر ( ۳ ) رہا تہجد کو نہ اٹھے کافروں نے کہا: اس کو چھوڑ دیا اس کے رب نے۔ (موضح قرآن )
وَ الضُّحٰىۙ (۱) وَ الَّیْلِ اِذَا سَجٰىۙ (۲) مَا وَدَّعَكَ رَبُّكَ وَ مَا قَلٰىؕ (۳) (الضحی) (۴ )
قسم ہے دن چڑھے کی اور رات کی جب ڈھانپ لیوے نہیں چھوڑدیا تجھ کو تیرے رب نے اور نہ نا خوش رکھا۔
موضح القرآن میں ہے کہ پہلے فرمائی دھوپ روشن کی اور رات اندھیری کی یعنی ظاہر میں بھی اللّٰہ تعالٰی کی دو قدرتیں ہیں باطن میں بھی کبھی چاندنا ہے کبھی اندھیرا۔ دونوں اللّٰہ کے ہیں اللّٰہ سے دور کبھی نہیں بندہ۔
{14} هُوَ اُذُنٌؕ- (توبہ، ع۸) ( ۱ )
وہ ہر کسی کی بات سن کر لگ جانے والا ہے۔
قُلْ اُذُنُ خَیْرٍ لَّكُمْ یُؤْمِنُ بِاللّٰهِ وَ یُؤْمِنُ لِلْمُؤْمِنِیْنَ وَ رَحْمَةٌ لِّلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْكُمْؕ- (۲ )
کہہ دے وہ اچھا سننے والا ہے تمہارے واسطے ایمان لاتا ہے اللّٰہ پر اور باور کرنے والاہے مومنوں کی بات اور رحمت ہے واسطے ان (منافقوں ) کے جنہوں نے اظہار ایمان کیا تم میں سے۔
{15} منافقوں نے آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی حرم محترم عائشہ صدیقہ پر بہتان لگایا تھا جس کا ذکر پہلے آچکا ہے۔
خود اللّٰہ تعالٰی نے حضرت صدیقہرَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہاکی برآء ت آسمان سے نازل فرمائی۔ (دیکھو سورۂ نور، ع ۲) (۳ )
{98} جو شخص حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو سب و شِتْم کرے (۴ ) یاکسی وجہ سے صراحۃً یا کنایتہ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی تنقیص ِشان کرے (۵ ) اس کاقتل کرنا بالاتفاق واجب ہے۔ مگر اس میں اختلاف ہے کہ یہ قتل کرنا بطریق حد ہے کہ بالفعل مارڈالنا چاہیے اور توبہ نہ کرانی چاہیے۔ یابطریق رِدَّت (۶ ) ہے کہ اس سے توبہ طلب کی جائے اگر توبہ کرے تو بخش دینا چاہیے۔ اس مسئلے میں مختار قول اوَّل ہے۔ یہ حکم اس صورت میں ہے کہ اہانت کرنے والا مسلمان ہو اگر کافر ہو اور اسلام لاوے تو در گزر کرنا چاہیے۔
{99} اگرحضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم بنفس نفیس جہاد کے لئے نکلیں توہر مسلمان پرواجب تھاکہ آپ کے ساتھ نکلے اور اگر کوئی ظالم آپ کے قتل کا قصد کرے تو جو مسلمان حاضر ہو اس پر واجب تھاکہ آپ کی حفاظت میں اپنی جان سے دریغ نہ کرے۔ چنانچہ ارشا د باری تعالٰی ہے:
مَا كَانَ لِاَهْلِ الْمَدِیْنَةِ وَ مَنْ حَوْلَهُمْ مِّنَ الْاَعْرَابِ اَنْ یَّتَخَلَّفُوْا عَنْ رَّسُوْلِ اللّٰهِ وَ لَا یَرْغَبُوْا بِاَنْفُسِهِمْ عَنْ نَّفْسِهٖؕ-ٖ (توبہ، ع۱۵)
نہ چاہیے مدینے والوں کو اور جو ان کے گرد اعراب ہیں کہ رہ جائیں رسول اللّٰہ کے ساتھ سے اور نہ یہ کہ اپنی جان کو چاہیں زیادہ ان کی جا ن سے۔ (۱ )
{100} حضور عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام جس شخص کے لئے جس حکم کی تخصیص چاہتے کردیتے۔ چنانچہ آپصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے حضرت خزیمہ اَنصار ی کے لئے یہ تخصیص فرمائی کہ ان کی شہادت، حکم دو شہادت کا رکھتی ہے۔ اسی طرح آپ نے حضرت ام عطیہ انصاریہ کو نیاحت کی رخصت دی اور حضرت اسماء بنت عمیس کو رخصت دی کہ وہ اپنے خاوند حضرت جعفر بن ابی طالب رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُکی شہادت پر صرف تین دن سوگواری کرے۔ بعد ازاں جو چاہے کرے اور حضرت ابو بردہ بن نیار کو اجازت دے دی کہ تمہارے واسطے قربانی میں ایک سال سے کم کا بز غالہ (۲ ) کافی ہے اور آپ نے ایک فقیر سے ایک عورت کا نکاح کردیا او ر اس کا مہر یہ مقرر فرمایا کہ فقیر کو جتنا قرآن یاد تھا وہ اس عورت کو پڑھا دے۔
{101} حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو تپ ( ۳) اس شدت سے چڑھتا تھا جیسا کہ دوآدمیوں کو چڑھتا ہے تاکہ ثواب دو چند ملے۔
{102} مرضِ موت میں حضور انور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی عیادت کے لئے حضرت جبرئیل عَلَیْہِ السَّلام تین دن حاضر خدمت ہوتے رہے۔
{103} جب ملک الموت حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی خدمت میں حاضر ہو اتو اذن طلب کیا۔ آپ سے پہلے اس نے کسی نبی سے اذن طلب نہیں کیا۔
{104} حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے جنازۂ شریف کی نماز مسلمانوں نے گروہ ہاگروہ الگ الگ بغیر امامت کے پڑھی۔ آپ کے غلام شقران نے جسد مبارک کے نیچے لحد میں قطیفۂ نجرانیہ ( ۴ ) بچھادی جو آپ اوڑھا کرتے تھے۔
نماز بے جماعت اور قطیفہ کا بچھانا آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے خصائص سے ہے۔
{105} آ پ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے جسم مقدس کو مٹی نہیں کھاتی۔ تمام پیغمبروں کایہی حال ہے۔عَلٰی نَبِیِّنَا وَعَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام
{106} حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے بطورِ میراث کچھ نہیں چھوڑا جو کچھ آپ نے چھوڑا وہ صدقہ وو قف تھااور اس کا مصرف وہی تھا جوآپ کی حیات شریف میں تھا۔ جیسا کہ پہلے مذکور ہوا۔
{107} حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم اپنے مرقد شریف میں حیات ِحقیقیہ کے ساتھ زندہ ہیں اور اذان و اقامت کے ساتھ نماز پڑھتے ہیں ۔ تمام پیغمبروں کا یہی حال ہے۔عَلٰی نَبِیِّنَا وَعَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام۔
{108} حضورصَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کا مرقد منور کعبہ مکرمہ اور عرش معلی سے بھی افضل ہے۔
{109} آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے مرقد منور پر ایک فرشتہ مؤکل ہے جو آپ کی امت کے درود آپ کو پہنچاتا ہے۔ جیسا کہ امام احمد ونساءی کی روایت میں ہے۔ جس وقت کوئی شخص آپ پر درود بھیجتاہے وہ فرشتہ عرض کرتاہے کہ یامحمد ! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم اس وقت فلاں بن فلاں آپ پر درود بھیجتا ہے۔ ( ۱ ) حاکم کی روایت میں ہے کہ رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا کہ اللّٰہ کے فرشتے ہیں جو زمین میں گشت کرتے ہیں وہ میری امت کا سلام مجھے پہنچاتے ہیں ۔ (۲ )
{110} حضور اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم پر ہر روز صبح و شام آپ کی امت کے اعمال پیش کیے جاتے ہیں ۔ نیک اعمال پر آپ اللّٰہ کا شکر بجا لاتے ہیں اور برے اعمال کے لئے بخشش طلب فرماتے ہیں ۔ حضرت عبداللّٰہ بن مبارک رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے حضرت سعید بن مسیب رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت کی کہ کوئی روز ایسا نہیں مگر یہ کہ صبح و شام امت کے اعمال نبی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم پر پیش کیے جاتے ہیں ۔ پس آپ ان کی پیشانیوں سے اور ان کے اعمال سے پہچانتے ہیں ۔
{111} آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سب سے پہلے قبر مبارک سے نکلیں گے۔ آپ کا حشر اس حالت میں ہوگا کہ آپ براق پر سوار ہوں گے اور سترہزار فرشتے ہمرکاب ہوں گے۔ حضر ت کعب اَحبار رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی روایت میں ہے کہ ’’ ہر روز صبح کو ستر ہزار فرشتے آسمان سے اتر کر حضور انور کی قبر مبارک کو گھیر لیتے ہیں اور اپنے بازو ہلاتے ہیں (اور آپ پر درود بھیجتے ہیں ) اسی طرح شام کے وقت وہ آسمان پرچلے جاتے اور ستر ہزار اور حاضر ہوجاتے ہیں یہاں تک کہ جب آپ قبر شریف سے نکلیں گے تو ستر ہزار فرشتے آپ کے ساتھ ہوں گے۔ موقف میں آپ کو بہشت کے حلوں کی نہایت نفیس خلعت عطا ہوگی۔ ‘‘
{112} آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّم کے منبر منیف ( ۱ ) اور قبر مبارک کے مابین بہشت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے۔
{113} حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو قیامت کے دن مقامِ محمو د عطا ہوگا جس سے مراد بقولِ مشہور مقام شفاعت ہے۔
{114} قیامت کے دن اہل موقف طولِ وقوف کے سبب سے گھبراجائیں گے ( ۲ ) اور بغرضِ شفاعت دیگر انبیاءے کرام عَلَیْہِمُ السَّلام کے پاس یکے بعد دیگرے جائیں گے اور آخر کارحضو ر خاتم النبیین صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی خدمت میں حاضر ہوں گے آپ کو اہل موقف میں فصل قضاء کے لئے شفاعت عظمیٰ عطا ہوگی اور ایک جماعت کے حق میں بغیر حساب جنت میں داخل کیے جانے کے لئے اور دوسری جماعت کے رفع درجات کے لئے شفاعت کی اجازت ہوجائے گی۔ اس طرح ستر ہزار بہشت میں بے حساب داخل ہوں گے اور ستر ہزار کے ساتھ اوربہت سے بے حساب بہشت میں جائیں گے۔ اس کے علاوہ آپ کو اپنی امت کے لئے اور کئی قسم کی شفاعت کی اجازت حاصل ہوگی۔
{115} قیامت کے دن حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے تبلیغ پر شاہد طلب نہ کیا جائے گا حالانکہ باقی انبیاءے کرام عَلٰی نَبِیِّنَا وَعَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام سے طلب کیا جائے گااور آپ تمام انبیاءے کرام کے لئے تبلیغ کی شہادت دیں گے۔
{116} حضور انور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو حوض کوثر عطا ہوگا۔
{117} حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا منبر منیف ( ۱ ) آپ کے حوض پر ہوگا۔
{118} قیامت کے دن حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی امت پہلے سب پیغمبروں کی امتوں سے زیادہ ہوگی۔ کُل اہل بہشت کی دو تہائی آپ ہی کی امت ہوگی۔
{119} قیامت کے دن ہر ایک نسب و سبب منقطع ہوگا (یعنی سود مندنہ ہوگا) مگر حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا نسب وسبب منقطع نہ ہوگا۔ اسی واسطے حضرت عمرفاروق رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے ام کلثوم بنت فاطمہ زہراء رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے نکاح کیا تھا۔
{120} قیامت کے دن لوائے حمد حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے دست مبارک میں ہوگا اور حضرت آدم عَلَیْہِ السَّلام اور ان کے سوا اور تمام انبیاء عَلَیْہِمُ السَّلام اس جھنڈے تلے ہوں گے۔
{121} حضور عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام (امت سمیت) سب سے پہلے پل صراط سے گزریں گے۔
{122} حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سب سے پہلے بہشت کا دروازہ کھٹکھٹائیں گے۔ خازن جنت پوچھے گا کہ کون ہیں ؟ آپ فرمائیں گے کہ میں محمد ہوں ۔ وہ عرض کرے گا کہ میں اٹھ کر کھولتا ہوں میں آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے پہلے کسی کے لئے نہیں اٹھااور نہ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے بعد کسی کے لئے اٹھوں گا۔ پھر آپ سب سے پہلے بہشت میں داخل ہوں گے۔
{123} آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو وسیلہ عطا ہوگا جو جنت میں اعلیٰ درجہ ہے۔
{124} جنت میں حضرت آدم عَلٰی نَبِیِّنَا وَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام کی کنیت ان کی تمام اولاد میں سے سوائے حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے کسی اور کے نام پر نہ ہوگی۔ چنانچہ ان کو ابو محمد کہاجائے گا۔
{125} جنت میں سوائے حضور عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام کی کتاب (قرآن کریم) کے کوئی اور کتاب نہ پڑھی جائے گی اور نہ سوائے حضور کی زبان کے کسی اور زبان میں کوئی تکلم کرے گا۔
________________________________
1 – کشف الغمۃ عن جمیع الامۃ، کتاب النکاح ، الباب الاوّل فی بیان جملۃ من خصائص۔۔۔إلخ، ج ۲، ص ۵۳، ۶۴۔علمیہ
2 – المواھب اللدنیۃ مع شرح زرقانی، المقصد الاول۔۔۔الخ،فی تشریف اللّٰہ تعالی لہ ۔۔۔الخ، ج۱، ص۷۶۔علمیہ
3 – المواھب اللدنیۃ مع شرح زرقانی،المقصد الاول۔۔۔الخ،فی تشریف اللّٰہ تعالی لہ ۔۔۔الخ،ج۱، ص۶۳۔علمیہ
4 – المواھب اللدنیۃ مع شرح زرقانی ، المقصد الاول۔۔۔الخ،فی تشریف اللّٰہ تعالی لہ ۔۔۔الخ،ج۱، ص۷۷۔علمیہ
5 – المواھب اللدنیۃ مع شرح زرقانی ، المقصد الاول۔۔۔الخ،فی تشریف اللّٰہ تعالی لہ ۔۔۔الخ،ج۱،ص۶۷۔علمیہ
6 – المواھب اللدنیۃ مع شرح زرقانی، المقصد الاول۔۔۔الخ،فی تشریف اللّٰہ تعالی لہ ۔۔۔الخ،ج۱، ص۸۹-۹۱ملخصًا۔علمیہ
7 – الخصائص الکبریٰ، باب:خصوصیتہ بکتابۃ اسمہ الشریف مع اسم اللّٰہ تعالی۔۔۔الخ، ج۱،ص۱۲-۱۳۔علمیہ
8 – الخصائص الکبریٰ، باب:ذکرہ فی التوراۃ والانجیل و سائر الکتب۔۔۔الخ، ج۱،ص۱۸۔علمیہ
________________________________
1 – مہتر کی جمع،مہتر :سردار،بزرگ۔
2 – المواھب اللدنیۃ مع شرح زرقانی،المقصد الاول۔۔۔الخ،فی تشریف اللّٰہ تعالی لہ ۔۔۔الخ، ج۱،ص۱۳۰۔علمیہ
3 – المواھب اللدنیۃ مع شرح زرقانی، المقصد الاول۔۔۔الخ،فی تشریف اللّٰہ تعالی لہ ۔۔۔الخ، ج۱،ص۱۲۷۔علمیہ
4 – المواھب اللدنیۃ مع شرح زرقانی،المقصد الاول۔۔۔الخ،فی مدۃ حملہ ج۱، ص۱۹۷ملتقطًا۔علمیہ
5 – المواھب اللدنیۃ مع شرح زرقانی،المقصد الاول۔۔۔الخ، باب:ذکر تزویج عبد اللّٰہ امنۃ ، ج۱،ص۲۳۲ملتقطًا۔علمیہ
6 – المواھب اللدنیۃ مع شرح زرقانی،المقصد الاول۔۔۔الخ،باب:ذکر تزویج عبد اللّٰہ امنۃ ، ج۱،ص۲۰۹ملتقطًا۔علمیہ
7 – الخصائص الکبریٰ،باب:ما ظھر فی لیلۃ مولودہ من المعجزات۔۔۔الخ،ج۱،ص۷۹۔علمیہ
8 – الخصائص الکبریٰ، باب: مناغاتہ للقمر وھو فی مھدھ ،ج۱،ص۹۱۔علمیہ
9 – الخصائص الکبریٰ، باب: سفر النبی مع عمہ ابی طالب الی الشام ۔۔۔الخ،ج۱،ص۱۴۳۔علمیہ
________________________________
1 – الخصائص الکبریٰ، باب: ما ظھر فی زمان رضاعہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ۔۔۔الخ، ج۱،ص۹۳ملتقطاوالمواھب اللدنیۃ مع شرح زرقانی،المقصد الاول۔۔۔الخ،باب:شق صدرہ، ج۱،ص۲۸۸ملتقطا۔علمیہ
2 – ترجمۂکنزالایمان:دل نے جھوٹ نہ کہا جو دیکھا۔ (پ۲۷،النجم:۱۱)۔علمیہ
3 – ترجمۂکنزالایمان:اُسے روح الا مین لے کر اترا تمہارے دل پر۔ (پ۱۹،الشعراء:۱۹۳۔۱۹۴)۔علمیہ
4 – ترجمۂکنزالایمان:اور وہ کوئی بات اپنی خواہش سے نہیں کرتے۔(پ۲۷،النجم:۳)۔علمیہ
5 – ترجمۂکنزالایمان: تو ہم نے اس قرآن کو تمہاری زبان میں آسان کیا۔(پ۲۵،الدخان:۵۸)۔علمیہ
6 – ترجمۂکنزالایمان: آنکھ نہ کسی طرف پھری نہ حد سے بڑھی۔ (پ۲۷،النجم:۱۷)۔علمیہ
7 – ترجمۂکنزالایمان:ہم دیکھ رہے ہیں بار بار تمہارا آسمان کی طرف منہ کرنا۔(پ۲، البقرۃ:۱۴۴)۔علمیہ
8 – ترجمۂکنزالایمان:ہم دیکھ رہے ہیں بار بار تمہارا آسمان کی طرف منہ کرنا۔(پ۲، البقرۃ:۱۴۴)۔علمیہ
9 – ترجمۂ کنزالایمان:کیا ہم نے تمہارے لئے سینہ کشادہ نہ کیااور تم پر سے تمہاراوہ بوجھ اتار لیا جس نے تمہاری پیٹھ توڑی تھی۔ (پ۳۰، الم نشرح :۱۔۳) ۔علمیہ
________________________________
1 – الخصائص الکبریٰ، باب:اختصاصہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم باشتقاق اسمہ الشریف ۔۔۔الخ،ج۱،ص۱۳۴۔علمیہ
2 – شرح الزرقانی علی المواھب،المقصدالثانی۔۔۔الخ،الفصل الاول فی اسمائہ ۔۔۔الخ،ج۴، ص۲۳۲۔۲۳۴ ملخصًا۔علمیہ
3 – الخصائص الکبریٰ، باب:المعجزۃ والخصائص فی عینیہ الشریفتین، ج۱،ص۱۰۴ملتقطًا والخصائص الکبریٰ، باب: المعجزۃ والخصائص فی عینیہ الشریفتین،ج۱،ص۱۰۴۔علمیہ
4 – کڑوا پانی۔
5 – الخصائص الکبریٰ،باب:الایات فی فمہ الشریف وریقہ واسنانہ،ج۱،ص۱۰۵ والخصائص الکبریٰ،باب:الایات فی فمہ الشریف وریقہ واسنانہ،ج۱،ص۱۰۵۔علمیہ
6 – سنن دارمی،المقدمۃ،باب فی حسن النبی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم،الحدیث:۶۳،ج۱،ص۴۵۔علمیہ
________________________________
1 – الخصائص الکبریٰ،باب:الاٰیۃ فی صوتہ وبلوغہ حیث لا یبلغہ،ج۱،ص۱۱۳۔علمیہ
2 – الخصائص الکبریٰ،باب:الاٰیۃ فی نومہ،ج۱،ص۱۱۸۔علمیہ
3 – الخصائص الکبریٰ،باب:الاٰیۃ فی حفظہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم من الاحتلام، ج۱، ص۱۲۰۔علمیہ
4 – الخصائص الکبریٰ،باب:الاٰیۃ فی عرقہ الشریف،ج۱،ص۱۱۶۔علمیہ
5 – الخصائص الکبریٰ،باب:الایۃ فی طولہ،ج۱،ص۱۱۶۔علمیہ
6 – الخصائص الکبریٰ،باب:الایۃ فی انہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم لم یکن یری لہ ظل، ج۱، ص۱۱۶۔علمیہ
7 – الخصائص الکبریٰ،باب:فی انہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کان لا ینزل الذباب۔۔۔الخ، ج۱،ص۱۱۷۔علمیہ
_______
1 – آسمانی کتابیں ۔
2 – علامہ ابو الولید باجی رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں : ’’ قرآنِ پاک میں ہے کہ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ و اٰلِہٖ وَسَلَّم نزولِ قرآن سے پہلے نہ کوئی کتاب پڑھتے تھے اورنہ اپنے ہاتھ سے کچھ لکھتے تھے ۔اس سے آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ و اٰلِہٖ وَسَلَّم کا امی ہونا متحقق ہوگیا (کیونکہ اہل کتاب کہتے تھے کہ ہماری کتابوں میں نبی آخر الزماں کی صفت یہ مذکور ہے کہ وہ امی ہوں گے نہ لکھیں گے نہ پـڑھیں گے )اور یہ نفی نزولِ قرآن سے پہلے کے زمانہ کے ساتھ مقید ہے لہٰذا نزولِ قرآن کے بعد آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ و اٰلِہٖ وَسَلَّم کا لکھنا پڑھنا تصریح قرآن کے منافی نہیں بلکہ یہ آپ کا معجزہ ہے اور یہ دوسرا معجزہ ہے کہ آپ نے بغیر کسی دنیاوی استاذ کی تعلیم کے پڑھا بھی اور لکھا بھی۔‘‘ ابن دحیہ فرماتے ہیں کہ اس مسئلے میں علمائے کرام کی ایک جماعت نے علامہ ابو الولید باجی رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کی موافقت فرمائی ہے جن میں ابوذر ہروی، ابوالفتح نیشاپوری اور افریقہ و دیگر ممالک کے علماء رَحِمَہُمُ اللّٰہُ تَعَالٰی شامل ہیں ۔بعض علماء نے فرمایا کہ علامہ باجی رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کی دلیل ابن ابی شیبہ کی یہ حدیث ہے: حضرت عون بن عبداللّٰہ سے مروی ہے فرماتے ہیں کہ رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ و اٰلِہٖ وَسَلَّمنے وفات نہ پائی یہاں تک کہ آپ نے لکھا اور پڑھا۔ مزید تفصیل کے لیے فتح الباری ملاحظہ فرمائیں ۔(فتح الباری لابن حجر،کتاب المغازی، باب عمرۃ القضائ، تحت الحدیث:۴۲۵۱،۴۲۵۲،ج۷،ص۴۲۹ ملخصاً)۔علمیہ
________________________________
1 – کشف الغمہ للشعرانی بحوالہ خصائص للسیوطی، جزء ثانی، ص ۳۶۔ (الخصائص الکبریٰ، باب: اختصا صہ بالنصر بالرعب مسیرۃ شھرامامہ۔۔۔الخ ،ج۲، ص۳۳۵۔علمیہ)
2 – ظلم کرنے والے۔
3 – غنیمتیں ۔
4 – ستونِ حنانہ۔
________________________________
1 – ترجمۂکنزالایمان:اور ہم نے فرمایا اے آدم تو اور تیری بی بی اس جنت میں رہو اور کھاؤ اس میں سے بے روک ٹوک جہاں تمہارا جی چاہے مگر اس پیڑ کے پاس نہ جانا کہ حد سے بڑھنے والوں میں ہوجاؤ گے ۔ (پ۱،البقرۃ:۳۵)۔علمیہ
2 – ترجمۂکنزالایمان:آدم سے اپنے رب کے حکم میں لغزش واقع ہوئی تو جو مطلب چاہا تھا اس کی راہ نہ پائی۔(پ۱۶،طہ:۱۲۱)۔علمیہ
3 – ترجمۂکنزالایمان:فرمایا گیا اے نوح کشتی سے اتر ہماری طرف سے سلام اور برکتوں کیساتھ جو تجھ پر ہیں اور تیرے ساتھ کے کچھ گروہوں پر۔(پ۱۲،ہود:۴۸)۔علمیہ
4 – ترجمۂکنزالایمان:اور نوح نے اپنے بیٹے کو پکارا اور وہ اس سے کنارے تھا اے میرے بچے ہمارے ساتھ سوار ہوجا اور کافروں کے ساتھ نہ ہو۔(پ۱۲،ہود:۴۲)۔علمیہ
5 – ترجمۂکنزالایمان:اے ابراہیم اس خیال میں نہ پڑ۔(پ۱۲،ہود:۷۶)۔علمیہ
6 – ترجمۂکنزالایمان:اور جب اٹھاتا تھا ابراہیم اس گھر کی نیویں اور اسمٰعیل یہ کہتے ہوئے کہ اے رب ہمارے ہم سے قبول فرما بیشک تو ہی ہے سنتا جانتا۔(پ۱،البقرۃ:۱۲۷)۔علمیہ
________________________________
1 – ترجمۂ کنزالایمان:فرمایا اے موسیٰ میں نے تجھے لوگوں سے چن لیا اپنی رسالتوں اور اپنے کلام سے تو لے جو میں نے تجھے عطا فرمایا اور شکر والوں میں ہو۔(پ۹،الاعراف:۱۴۴)۔علمیہ
2 – ترجمۂکنزالایمان:تو موسیٰ نے اس کے گھونسا مارا تو اس کا کام تما م کردیا کہا یہ کام شیطان کی طرف سے ہوابیشک وہ دشمن ہے کھلا گمراہ کرنے والا۔(پ۲۰،القصص:۱۵)۔علمیہ
3 – ترجمۂکنزالایمان:جب اللّٰہ فرمائے گا اے مریم کے بیٹے عیسیٰ یاد کر میرا احسان اپنے اوپر اور اپنی ماں پر۔(پ۷،المائدۃ:۱۱۰)۔علمیہ
4 – ترجمۂکنزالایمان:عیسیٰ ابن مریم نے عرض کی اے اللّٰہ اے رب ہمارے ہم پر آسمان سے ایک خوان اُتار کہ وہ ہمارے لئے عید ہو ہمارے اگلے پچھلوں کی اور تیری طرف سے نشانی اور ہمیں رزق دے اور تو سب سے بہتر روزی دینے والا ہے۔ (پ۷،المائدۃ:۱۱۴) ۔علمیہ
5 – ترجمۂکنزالایمان:اے داؤد بیشک ہم نے تجھے زمین میں نائب کیا تو لوگوں میں سچا حکم کر اور خواہش کے پیچھے نہ جانا کہ تجھے اللّٰہ کی راہ سے بہکادے گی۔(پ۲۳،ص:۲۶)۔علمیہ
6 – ترجمۂکنزالایمان:اور ہم نے داؤد کوسلیمان عطا فرمایا کیا اچھا بندہ بیشک وہ بہت رجوع لانے والا۔ (پ۲۳،ص:۳۰)۔علمیہ
________________________________
1 – ترجمۂکنزالایمان:اے زکریا ہم تجھے خوشی سناتے ہیں ایک لڑکے کی جن کا نام یحییٰ ہے اس کے پہلے ہم نے اس نام کا کوئی نہ کیا۔ (پ۱۶،مریم:۷)۔علمیہ
2 – ترجمۂکنزالایمان:جب زکریا اس کے پاس اس کی نماز پڑھنے کی جگہ جاتے اس کے پاس نیا رزق پاتے۔ (پ۳،اٰل عمرٰن:۳۷)۔علمیہ
3 – ترجمۂکنزالایمان:اے یحییٰ کتاب مضبوط تھام۔(پ۱۶، مریم:۱۲)
4 – ترجمۂکنزالایمان:اور زکریا کو جب اس نے اپنے رب کو پکارا اے میرے رب مجھے اکیلا نہ چھوڑ اور تو سب سے بہتر وارث۔ (پ۱۷،الانبیاء:۸۹)۔علمیہ
5 – ترجمۂکنزالایمان:اے غیب کی خبریں بتانے والے (نبی) اللّٰہ تمہیں کافی ہے اور یہ جتنے مسلمان تمہارے پیرو ہوئے۔ (پ۱۰،الانفال:۶۴)۔علمیہ
6 – ترجمۂکنزالایمان:اے رسول پہنچا دو جو کچھ اترا تمہیں تمہارے رب کی طرف سے۔ (پ۶،المائدۃ:۶۷)۔علمیہ
7 – ترجمۂکنزالایمان:اے جھرمٹ مارنے والے۔(پ۲۹،المزّمّل:۱)۔علمیہ
8 – ترجمۂکنزالایمان:اے بالا پوش اوڑھنے والے۔(پ۲۹،المدّثّر:۱)۔علمیہ
________________________________
1 – ترجمۂکنزالایمان:اور محمد تو ایک رسول ہیں ۔(پ۴، اٰل عمرٰن:۱۴۴)۔علمیہ
2 – ترجمۂکنزالایمان:محمد اللّٰہ کے رسول ہیں ۔ (پ۲۶،الفتح:۲۹)۔علمیہ
3 – ترجمۂکنزالایمان:محمد تمہارے مردوں میں کسی کے باپ نہیں ہاں اللّٰہ کے رسول ہیں اور سب نبیوں میں پچھلے اوراللّٰہ سب کچھ جانتا ہے۔(پ۲۲،الاحزاب:۴۰) ۔علمیہ
4 – ترجمۂکنزالایمان:اور جو ایمان لائے اور اچھے کام کئے اور اس پر ایمان لائے جو محمد پر اتارا گیا اور وہی ان کے رب کے پاس سے حق ہے اللّٰہنے ان کی برائیاں اتار دیں اور ان کی حالتیں سنوار دیں ۔ (پ۲۶،محمد:۲)۔علمیہ
5 – ترجمۂکنزالایمان:بیشک سب لوگوں سے ابراہیم کے زیادہ حق دار وہ تھے جو ان کے پیرو ہوئے اور یہ نبی اور ایمان والے اور ایمان والوں کا والی اللّٰہ ہے ۔(پ۳،اٰل عمران:۶۸)۔علمیہ
6 – ترجمۂکنزالایمان:بولے اے موسیٰ ہمیں ایک خدا بنادے جیسا ان کے لئے اتنے خدا ہیں ۔ (پ۹،الاعراف:۱۳۸)۔علمیہ
________________________________
1 – ترجمۂکنزالایمان:جب حواریوں نے کہا اے عیسیٰ بن مریم کیا آپ کا رب ایسا کرے گا کہ ہم پر آسمان سے ایک خوان اُتارے۔
(پ۷،المائدۃ:۱۱۲)۔علمیہ
2 – ترجمۂکنزالایمان:بولے اے ہود تم کوئی دلیل لے کر ہمارے پاس نہ آئے اور ہم خالی تمہارے کہنے سے اپنے خداؤں کو چھوڑنے کے نہیں نہ تمہاری بات پر یقین لائیں ۔(پ۱۲،ہود:۵۳) ۔علمیہ
3 – ترجمۂکنزالایمان:بولے اے صا لح اس سے پہلے تو تم ہم میں ہونہار معلوم ہوتے تھے کیا تم ہمیں اس سے منع کرتے ہو کہ اپنے باپ دادا کے معبودوں کو پوجیں اور بیشک جس بات کی طرف ہمیں بلاتے ہو ہم اس سے ایک بڑے دھوکہ ڈالنے والے شک میں ہیں ۔ (پ۱۲،ہود:۶۲) ۔علمیہ
4 – ترجمۂکنزالایمان:رسول کے پکارنے کو آپس میں ایسا نہ ٹھہرالو جیسا تم میں ایک دوسرے کو پکارتا ہے۔ (پ۱۸،النور:۶۳)۔علمیہ
5 – ترجمۂکنزالایمان:اے ایمان والوحکم مانو اللّٰہ کا اور حکم مانو رسول کااور ان کا جو تم میں حکومت والے ہیں ۔ (پ۵، النساء:۵۹)۔علمیہ
6 – ترجمۂکنزالایمان:اے ایمان والو اللّٰہ اور اس کے رسول کا حکم مانواور سن سنا کر اس سے نہ پھرو۔ (پ۹، الانفال:۲۰)۔علمیہ
________________________________
1 – ترجمۂکنزالایمان:اور مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں ایک دوسرے کے رفیق ہیں بھلائی کا حکم دیں اور برائی سے منع کریں اور نماز قائم رکھیں اور زکوٰۃ دیں اوراللّٰہ و رسول کا حکم مانیں یہ ہیں جن پر عنقریب اللّٰہ رحم کرے گابیشک اللّٰہ غالب حکمت والا ہے۔(پ۱۰، التوبۃ:۷۱)۔علمیہ
2 – ترجمۂکنزالایمان:ایمان والے تو وہی ہیں جو اللّٰہ اور اس کے رسول پر یقین لائے اور جب رسول کے پاس کسی ایسے کام میں حاضر ہوئے ہوں جس کے لئے جمع کئے گئے ہوں تو نہ جائیں جب تک ان سے اجازت نہ لے لیں ۔(پ۱۸، النور:۶۲)۔علمیہ
3 – ترجمۂکنزالایمان:اے ایمان والواللّٰہ و رسول کے بلانے پر حاضر ہو جب رسول تمہیں اس چیز کے لئے بلائیں جو تمہیں زندگی بخشے گی۔ (پ۹، الانفال:۲۴)۔علمیہ
4 – ترجمۂکنزالایمان:اور جو حکم مانے اللّٰہ اور اللّٰہ کے رسول کا اللّٰہ اسے باغوں میں لے جائے گا جن کے نیچے نہریں رواں ہمیشہ ان میں رہیں گے اور یہی ہے بڑی کامیابی اور جو اللّٰہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے اور اس کی کل حدوں سے بڑھ جائے اللّٰہ اسے آگ میں داخل کرے گا جس میں ہمیشہ رہے گا اور اس کے لئے خواری کا عذاب ہے۔(پ۴، النساء:۱۳۔۱۴)۔علمیہ
5 – ترجمۂکنزالایمان:بیشک جو ایذا دیتے ہیں اللّٰہ اور اس کے رسول کو ان پر اللّٰہ کی لعنت ہے دنیا اور آخرت میں اور اللّٰہ نے ان کے لئے ذلت کا عذاب تیار کر رکھا ہے۔(پ۲۲، الاحزاب:۵۷)۔علمیہ
_____________________________
1 – ترجمۂکنزالایمان:بیزاری کا حکم سنانا ہے اللّٰہ اور اس کے رسول کی طرف سے ان مشرکوں کو جن سے تمہارا معاہدہ تھا اور وہ قائم نہ رہے ۔(پ۱۰، التوبۃ:۱)۔علمیہ
2 – ترجمۂکنزالایمان:اور منادی پکار دینا ہے اللّٰہ اور اس کے رسول کی طرف سے سب لوگوں میں بڑے حج کے دن کہ اللّٰہ بیزار ہے مشرکوں سے اور اس کا رسول۔(پ۱۰، التوبۃ:۳)۔علمیہ
3 – ترجمۂکنزالایمان:کیا اس گمان میں ہو کہ یونہی چھوڑ دیئے جاؤ گے اور ابھی اللّٰہ نے پہچان نہ کرائی ان کی جو تم میں سے جہاد کریں گے اور اللّٰہ اور اس کے رسول اور مسلمانوں کے سوا کسی کو اپنا محرم راز نہ بنائیں گے اور اللّٰہ تمہارے کاموں سے خبردار ہے۔(پ۱۰، التوبۃ:۱۶)۔علمیہ
4 – ترجمۂکنزالایمان:کیا انہیں خبر نہیں کہ جو خلاف کرے اللّٰہ اور اس کے رسول کا تو اس کے لئے جہنم کی آ گ ہے کہ ہمیشہ اس میں رہے گا یہی بڑی رسوائی ہے۔(پ۱۰، التوبۃ:۶۳)۔علمیہ
5 – ترجمۂکنزالایمان:وہ کہ اللّٰہ اور اس کے رسول سے لڑتے اور ملک میں فساد کرتے پھرتے ہیں ان کا بدلہ یہی ہے کہ گن گن کر قتل کئے جائیں یا سولی دئیے جائیں یا ان کے ایک طرف کے ہاتھ اور دوسری طرف کے پاؤں کاٹے جائیں یا زمین سے دور کردئیے جائیں ۔(پ۶، المائدۃ:۳۳)۔علمیہ
________________________________
1 – ترجمۂکنزالایمان:لڑو اُن سے جو ایمان نہیں لاتے اللّٰہ پر اور قیامت پر اور حرام نہیں مانتے اس چیز کو جس کو حرام کیا اللّٰہ اور اس کے رسول نے اور سچے دین کے تابع نہیں ہوتے یعنی وہ جو کتاب دئیے گئے جب تک اپنے ہاتھ سے جزیہ نہ دیں ذلیل ہوکر۔(پ۱۰،التوبۃ:۲۹)۔علمیہ
2 – ترجمۂکنزالایمان:تم فرماؤ غنیمتوں کے مالک اللّٰہ و رسول ہیں ۔(پ۹، الانفال:۱)۔علمیہ
3 – ترجمۂکنزالایمان:اور جو اللّٰہ اور اس کے رسول سے مخالفت کرے تو بیشک اللّٰہ کا عذاب سخت ہے۔ (پ۹، الانفال:۱۳)۔علمیہ
4 – ترجمۂکنزالایمان:پھر اگر تم میں کسی بات کا جھگڑا اٹھے تو اسے اللّٰہ و رسول کے حضور رجوع کرو اگر اللّٰہ و قیامت پر ایمان رکھتے ہو۔
(پ۵، النساء:۵۹)۔علمیہ
5 – ترجمۂکنزالایمان:اور کیا اچھا ہوتا اگر وہ اس پر راضی ہوتے جو اللّٰہ و رسول نے ان کو دیا اور کہتے ہمیں اللّٰہ کافی ہے اب دیتا ہے ہمیں اللّٰہ اپنے فضل سے اور اللّٰہ کا رسول ہمیں اللّٰہ ہی کی طرف رغبت ہے۔ (پ۱۰، التوبۃ:۵۹)۔علمیہ
6 – ترجمۂکنزالایمان:اور جان لو کہ جو کچھ غنیمت لوتواس کا پانچواں حصہ خاص اللّٰہ اور رسول (کاہے)۔ (پ۱۰، الانفال:۴۱)۔علمیہ
7 – ترجمۂکنزالایمان:اور انہیں کیا برا لگا یہی نا کہ اللّٰہ و رسول نے انہیں اپنے فضل سے غنی کردیا۔ (پ۱۰، التوبۃ:۷۴)۔علمیہ
8 – ترجمۂکنزالایمان:اور بہانے بنانے والے گنوار آئے کہ انہیں رخصت دی جائے اور بیٹھ رہے وہ جنہوں نے اللّٰہ و رسول سے جھوٹ بولا تھا جلد ان میں کے کافروں کو دردناک عذاب پہونچے گا۔ (پ۱۰،التوبۃ:۹۰)۔علمیہ
________________________________
1 – ترجمۂکنزالایمان: اور اے محبوب یاد کرو جب تم فرماتے تھے اس سے جسے اللّٰہ نے نعمت دی اور تم نے اسے نعمت دی کہ اپنی بی بی اپنے پاس رہنے دے اور اللّٰہ سے ڈر اور تم اپنے دل میں رکھتے تھے وہ جسے اللّٰہ کو ظاہر کرنا منظور تھااور تمہیں لوگوں کے طعنے کا اندیشہ تھا اور اللّٰہ زیادہ سزاوار ہے کہ اس کا خوف رکھو۔(پ۲۲، الاحزاب:۳۷)۔علمیہ
2 – ترجمۂکنزالایمان:اور مجھے رسوا نہ کرنا جس دن سب اٹھائے جائیں گے۔(پ۱۹، الشعراء:۸۷)۔علمیہ
3 – ترجمۂکنزالایمان:جس دن اللّٰہ رسوا نہ کرے گا نبی اور ان کے ساتھ کے ایمان والوں کو۔ (پ۲۸، التحریم:۸)۔علمیہ
4 – ترجمۂکنزالایمان:اور مجھے اور میرے بیٹوں کو بتوں کے پوجنے سے بچا ۔ (پ۱۳، ابراہیم:۳۵)۔علمیہ
________________________________
1 – ترجمۂکنزالایمان:اللّٰہ تو یہی چاہتا ہے اے نبی کے گھر والوکہ تم سے ہر ناپاکی دور فرما دے اور تمہیں پاک کرکے خوب ستھرا کردے۔ (پ۲۲، الاحزاب:۳۳)۔علمیہ
2 – بت پرستی۔
3 – ترجمۂکنزالایمان:اور مجھے ان میں کر جو چین کے باغوں کے وارث ہیں ۔ (پ۱۹، الشعراء:۸۵)۔علمیہ
4 – ترجمۂکنزالایمان:اے محبوب بیشک ہم نے تمہیں بے شمار خوبیاں عطا فرمائیں ۔ (پ۳۰، الکوثر:۱)۔علمیہ
5 – ترجمۂکنزالایمان: اور بیشک قریب ہے کہ تمہارا رب تمہیں اتنا دے گا کہ تم راضی ہوجاؤ گے۔ (پ۳۰، الضحی:۵)۔علمیہ
6 – ترجمۂکنزالایمان:اور میری سچی ناموری رکھ پچھلوں میں ۔ (پ۱۹،الشعراء:۸۴)۔علمیہ
________________________________
1 – ترجمۂکنزالایمان:اور ہم نے تمہارے لیے تمہارا ذکر بلند کردیا۔ (پ۳۰،الم نشرح:۴)۔علمیہ
2 – جنت کے محل۔
3 – ترجمۂکنزالایمان:اے میرے رب میرے لئے میرا سینہ کھول دے۔ (پ۱۶،طہ:۲۵)۔علمیہ
4 – ترجمۂکنزالایمان: کیا ہم نے تمہارے لئے سینہ کشادہ نہ کیا۔(پ۳۰،الم نشرح:۱)۔علمیہ
5 – ترجمۂکنزالایمان:اور تم امید نہ رکھتے تھے کہ کتاب تم پر بھیجی جائے گی ہاں تمہارے رب نے رحمت فرمائی۔
(پ۲۰،القصص:۸۶)۔علمیہ