حِلْف الفضول میں شرکت
جب قریش حرب فجارسے واپس آئے تو یہ واقعہ پیش آیا کہ شہر زبید کا ایک شخص اپنا مالِ تجارت مکہ میں لا یا جسے عاص بن وائل سہمِی نے خرید لیا مگر قیمت نہ دی۔ اس پر زبیدی نے اپنے اَحلاف عبدالدار و مخزوم و جمح و سہم و عدی بن کعب سے مدد مانگی مگر ان سب نے مدد دینے سے انکار کیا۔پھر اس نے جبل ابو قبیس پر کھڑے ہو کر فریاد کی، جسے قریش کعبہ میں سن رہے تھے، یہ دیکھ کر حضرت کے چچا زُبیر بن عبدا لمُطَّلِب کی تحریک پر بنو ہاشم، زُہْرَہ اور بنو اسدبن عبدالعزی سب عبداللّٰہبن جُدعان کے گھر میں جمع ہوئے اور باہم عہد کیا کہ ہم ظالم کے خلاف مظلوم کی مدد کیا کریں گے اور مظالم (1) واپس کر ادیا کریں گے، اس کے بعد وہ سب عاص بن وائل کے پاس گئے اور ان سے زبید ی کا مال واپس کر ایا۔اس معاہد ہ کو حِلف الفُضُول اس واسطے کہتے ہیں کہ یہ معاہد ہ اس معاہدہ کے مشابہ تھا جو قدیم زمانہ میں جر ہم کے وقت مکہ میں بدیں مضمون ہو ا تھا کہ ہم ایک دوسرے کی حق رسانی کیا کریں گے اور قوی سے ضعیف کا اور مقیم سے مسافر کا حق لے کر دیا کریں گے۔چونکہ جر ہم کے وہ لوگ جو اس معاہدہ کے محرک تھے ان سب کا نام فضل تھا، جن میں سے فضل بن حارث اور فضل بن وَدَاعہ اور فضل بن فضالہ تھے۔اس لئے اس کو ’’ حِلف الفُضُول ‘‘ سے موسوم کیا گیا تھا۔
اس معاہدہ قریش میں آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم بھی شریک تھے اور عہد نبوت میں فرمایا کرتے تھے کہ اس معاہد ے کے مقابلہ میں اگر مجھ کو سرخ رنگ کے اونٹ بھی دیئے جاتے تو میں اسے نہ تو ڑتا اور ایک روایت میں ہے کہ میں عبد اللّٰہبن جدعان کے گھر میں ایسے معاہد ے میں حاضر ہوا کہ اگر اس سے غیر حاضری پر مجھے سرخ رنگ کے اونٹ بھی دیئے جاتے تو میں پسند نہ کر تا اور آج اسلام میں بھی اگر کوئی مظلوم ’’ یَا آلَ حِلْفِ الْفُضُول ‘‘ (2) کہہ کرپکارے تو میں مددد ینے کو حاضرہوں ۔ (3)
________________________________
1 – ظلماً چھینی ہوئی اشیاء۔
2 – اے حلف ا لفضول والو !
3 – الروض الانف،حلف الفضول،ج۱،ص۲۴۳۔۲۴۴ملخصاً علمیہ۔