حضرت فاطمۃ الزہراء رضی اللہ تعالیٰ عنہا
یہ حضور شہنشاہ دوعالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کی سب سے چھوٹی اور سب سے زیادہ پیاری بیٹی ہیں ان کا لقب سَیِّدَۃُ نِسَاءِ الْعٰلَمِیْنَ(سارے جہان کی عورتوں کی سردار) ہے۔ حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے ان کے بارے میں ارشادفرمایا کہ فاطمہ میری بیٹی ، میرے بدن کا حصہ ہے جس نے اس کا دل دکھایا ، اس نے میرا دل دکھایا اور جس
نے میرا دل دکھایا اس نے اللہ تعالیٰ کو ایذا دی ۔(1)
ان کے فضائل ومناقب میں بہت سی احادیث وارد ہوئی ہیں۔رمضان ۲ھ میں مدینہ منورہ کے اندر ان کا نکاح حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ ہوا اورذوالحجہ ۲ ھ میں رخصتی ہوئی ۔ ان کے بطن سے حضرت امام حسن وامام حسین وامام محسن تین صاحبزادگان اور حضرت زینب ورقیہ وام کلثوم تین صاحبزادیاں تولد ہوئیں۔ حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کے بعد صرف چھ ماہ زندہ رہیں ۔ ۸ ۲برس کی عمر میں عالم فانی سے عالم جاودانی کی طرف رحلت فرما ہوئیں ۔ حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نمازجنازہ پڑھائی اور رات کو سپرد خا ک کی گئیں ۔ مزار مبارک مدینہ منورہ میں ہے۔ (2) (اکمال،ص۶۱۳وغیرہ)
کرامات
برکت والی سینی
آپ کی کرامتوں میں سے ایک کرامت یہ ہے کہ آپ ایک دن ایک بوٹی اور دوروٹیاں لے کر بارگاہ رسالت میں حاضر ہوئیں ۔ رحمت عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے اپنی پیاری صاحبزادی کے اس تحفے کو قبول فرما کر ارشادفرمایا کہ اے لخت جگر ! تم اس سینی کو اپنے ہی گھر میں لے کر چلو،پھر خود حضور سید عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے حضرت سیدہ فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہاکے مکان پررونق افروزہوکراس سینی کو کھولاتو گھر کے تمام
افراد یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ وہ سینی روٹیوں اوربوٹیوں سے بھری ہوئی تھی۔ حضوراکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: اَنّٰی لَکِ ھٰذَا؟ (اے بیٹی!یہ سب تمہارے لئے کہاں سے آیا؟)توحضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہانے عرض کیا: ھُوَ مِنْ عِنْدِاللہِ اِنَّ اللہَ یَرْزُقُ مَنْ یَّشَآءُ بِغَیْرِ حِسَابٍ (یعنی یہ اللہ تعالیٰ کی طر ف سے آیاہے، وہ جس کو چاہتا ہے بے شمار روزی دیتاہے ۔)
پھر حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے حضرت علی وحضرت فاطمہ وحضرت امام حسن وحضرت امام حسین اور دوسرے اہل بیت رضی اللہ تعالیٰ عنہم کو جمع فرما کر سب کے ساتھ سینی میں سے کھانا تناول فرمایاپھر بھی اس کھانے میں اس قدر حیرت ناک اورتعجب خیز برکت ظاہرہوئی کہ سینی روٹیوں اوربوٹیوں سے بھری ہوئی رہ گئی اور اس کو حضرت بی بی فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے اپنے پڑوسیوں اوردوسرے مسکینوں کو کھلایا۔ (1)
(روح البیان،آل عمران،ص۳۲۳)
شاہی دعوت
روایت ہے کہ ایک روز حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے شہنشاہ مدینہ حضور نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کی دعوت کی ۔ جب دونوں عالم کے میزبان ، حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مکان پر رونق افروز ہوئے تو حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ آ پ کے پیچھے چلتے ہوئے آپ کے قدموں کو گننے لگے اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ! عزوجل وصلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم میرے ماں باپ آپ پر قربان میری تمنا ہے کہ حضور کے ایک ایک قدم کے عوض میں آپ کی تعظیم وتکریم کے لیے ایک ایک غلام آزاد کروں۔چنانچہ
حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مکان تک جس قدر حضور علیہ الصلوۃ والسلا م کے قدم پڑے تھے حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ا تنی ہی تعدا دمیں غلاموں کو خرید کر آزاد کردیا۔
حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس دعوت سے متأثر ہوکر حضر ت سیدہ فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہاسے کہا: اے فاطمہ ! رضی اللہ تعالیٰ عنہا آج میرے دینی بھائی حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضور اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کی بڑی ہی شانداردعوت کی ہے او رحضور اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کے ہر ہر قدم کے بدلے ایک غلام آزاد کیاہے ۔ میری بھی تمنا ہے کہ کاش! ہم بھی حضور علیہ الصلوۃ والسلام کی اسی طرح شاندار دعوت کر سکتے ۔ حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہانے اپنے شوہر نامدارحضرت علی دلدل کے سوار کے اس جو ش تأثر سے متأثر ہوکر کہا : بہت اچھا، جائيے آپ بھی حضور علیہ الصلوۃ والسلام کو اسی قسم کی دعوت دیتے آئيے ان شاء اللہ تعالیٰ ہمارے گھر میں بھی اسی قسم کا ساراانتظام ہوجائے گا۔
چنانچہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بارگاہ رسالت میں حاضر ہوکر دعوت دے دی اور شہنشاہ دو عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم اپنے صحابہ کرام کی ایک کثیر جماعت کو ساتھ لے کر اپنی پیاری بیٹی کے گھرمیں تشریف فرماہوگئے ۔ حضرت سیدہ خاتون جنت رضی اللہ تعالیٰ عنہا خلوت میں تشریف لے جاکر خداوند قدوس کی بارگاہ میں سربسجود ہوگئیں اور یہ دعا مانگی:
”یا اللہ! عزوجل تیری بندی فاطمہ نے تیرے محبوب اورمحبو ب کے اصحاب کی دعوت کی ہے۔تیری بندی کا صرف تجھ ہی پر بھروسہ ہے لہٰذا اے میرے رب ! عزوجل تو آج میری لاج رکھ لے اوراس دعوت کے کھانوں کا تو عالم غیب سے انتظام فرما۔”
یہ دعا مانگ کر حضرت بی بی فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہانے ہانڈیوں کو چولہوں پر چڑھادیا۔ خداوند تعالیٰ کا دریائے کرم ایک دم جوش میں آگیا اور اس رزاق مطلق نے دم
زدن میں ان ہانڈیوں کو جنت کے کھانوں سے بھر دیا ۔
حضرت بی بی فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہانے ان ہانڈیوں میں سے کھانا نکالنا شروع کردیا اورحضور علیہ الصلوٰۃ والسلام اپنے صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے ساتھ کھانا کھانے سے فارغ ہوگئے لیکن خدا کی شان کہ ہانڈیوں میں سے کھانا کچھ بھی کم نہیں ہوا اورصحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم ان کھانوں کی خوشبو اورلذت سے حیران رہ گئے۔ حضور اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کو متحیر دیکھ کر فرمایا کہ کیا تم لوگ جانتے ہوکہ یہ کھانا کہاں سے آیاہے ؟صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے عرض کیا کہ نہیں یارسول اللہ ! عزوجل و صلی اللہ تعالیٰ علیہ و الہ و سلم آ پ نے ارشادفرمایا کہ یہ کھانا اللہ تعالیٰ نے ہم لوگوں کے لئے جنت سے بھیج دیاہے ۔
پھر حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہاگوشہ تنہائی میں جاکر سجدہ ریزہوگئیں اوریہ دعامانگنے لگیں کہ یا اللہ! عزوجل حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے تیرے محبوب کے ایک ایک قدم کے عوض ایک ایک غلام آزاد کیا ہے لیکن تیری بندی فاطمہ کو اتنی استطاعت نہیں ہے لہٰذا اے خدا وندعالم! عزوجل جہاں تو نے میری خاطر جنت سے کھانابھیج کر میری لاج رکھ لی ہے وہاں تو میری خاطر اپنے محبوب کے ان قدموں کے برابر جتنے قدم چل کر میرے گھر تشریف لائے ہیں اپنے محبوب کی امت کے گنہگاربندوں کو تو جہنم سے آزاد فرمادے ۔
حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا جوں ہی اس دعا سے فارغ ہوئیں ایک دم ناگہاں حضرت جبریل علیہ السلام یہ بشارت لے کر بارگاہ رسالت میں اتر پڑے کہ یارسول اللہ! عزوجل وصلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی دعا بارگاہ الٰہی میں مقبول
ہوگئی۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایاہے کہ ہم نے آ پ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے ہر قدم کے بدلے میں ایک ایک ہزار گنہگاروں کو جہنم سے آزاد کردیا۔ (1)
(جامع المعجزات مصری ، ص۶۵بحوالہ سچی حکایات)