حضرت سیِّدُنا سفیان ثوری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ پر ایک رُقعے کا اثر:
حضرت سیِّدُنا سفیان ثوری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ پر ایک رُقعے کا اثر:
منقول ہے :”حضرت سیِّدُناسفیان ثوری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ لوگوں کے سامنے نصیحت آمیز بیان فرماتے اور ان کو بارگاہِ الٰہی عَزَّوَجَلَّ کا شوق دِلاتے ۔ اس کے انعامات کی رغبت دِلاتے اور اس کے عذاب سے ڈراتے۔ یوں لوگوں کا آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے پاس آنا جانا لگارہتا۔ ایک دن آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ حسب ِعادت منبرِ شریف پر تشریف فرما ہوئے اور بیان شروع کرنے کا ارادہ کیاتو ایک عورت نے ایک رُقعہ بڑھایا۔جب آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اسے پڑھا تو چہرے کا رنگ اُڑ گیا۔ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ شدت سے آہ و بُکا اور گریہ و زاری کرنے لگے اورپھر منبر شریف سے اُتر آئے اور کوئی گفتگو نہ کی۔ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے دوستوں نے پوچھا: ”اس رقعہ میں کیا لکھا ہے؟” توآپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے ان کو پڑھ کر سنایا۔ اس میں اس مفہوم کے چند اشعار تھے:
”اے دوسروں کو تعلیم دینے والے! تو اپنے آپ کو یہ تعلیم کیوں نہیں دیتا؟ تُو بیماروں اور کمزوروں کے لئے تو دَوا تجویز کرتا ہے مگروہ کیسے شفا پائیں گے جبکہ تو خود بیمار ہے۔ ہم نے دیکھاکہ تُوہمیں رُشد وہدایت کرتا ہے جبکہ خود اس سے دُور رہتا ہے۔ پہلے اپنے نفس سے ابتداء کر اوراسے سرکشی سے روک۔جب تُو نے اسے روک لیا تو سمجھ لے کہ توصاحب ِ حکمت ہے۔ پھرتیری بات قبول کی جائے گی، تیرا بیان نفع بخش ہوگا اوراس پر عمل کیا جائے گا۔لوگوں کو ایسے کام سے نہ روک جو تُو خود کرتا ہے۔ اگر تُو نے ایسا کیا تو تجھ پر بہت بڑا طعنہ ہے ۔”
رقعہ پڑھنے کے بعد آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ شدّت سے رونے دھونے لگ گئے یہاں تک کہ بے ہوش ہو گئے۔ جب افاقہ ہو ا تو دوستوں نے عرض کی : ”آپ کا کلام بہتر اور دامن پاک ہے، آپ کے بیان سے دل شفاپاتے اور غمزدہ تسلِّی پاتے ہیں، ایسا کلام آپ کے دل پرکیسے اثرنہ کرے جبکہ آپ تو امام ہیں اور امام بھی کیسے ہیں( جن کی عظمت دُنیا جانتی ہے)؟”آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کو پھر رونا آگیااور ارشاد فرمایا:”میرے لئے یہ درست نہیں کہ لوگوں کے سامنے بیان کروں جبکہ میں اپنے آپ کو اس مقام پر نہیں پاتا ۔” پھر آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے آنسو چھلک پڑے اور آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ عشقِ الٰہی عَزَّوَجَلَّ اور سوزِش غم میں مشغول ہو گئے۔ ا س کے بعد نہ کسی نے آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا کلام سنا، اورنہ ہی آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کو دیکھایہا ں تک کہ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اس جہا نِ فانی سے کوچ فرما گئے۔
اے میرے اسلامی بھائیو!کیا تم ان بَرگُزیدہ بندوں کے دل نہیں دیکھتے؟ جو صاف شفاف شیشے کی مانند نرم تھے جن میں نصیحت بھرابیان اثر کرتا تھا اور وعظ ونصیحت ان کی عشقِ الٰہی عَزَّوَجَلَّ کی آگ کو مزید بھڑکا دیتی تھی ۔ اور تم بھی بیانات سنتے ہو مگر تمہارے دلوں پر اثر نہیں ہوتا۔تم اپنے گناہوں کی میل کُچیل آنسوؤں سے نہیں دھوتے بلکہ نفع مند چیزیں پسِ پُشت ڈال دیتے ہو اور کھیل کود اور بے ہودہ باتوں کی طرف پیش قدمی کرتے ہو۔
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! تمہارے دل ودماغ پر غفلت نے قبضہ جما لیا اور مہلت کے دنوں نے تمہیں دھوکا دیا۔تو اے اپنے ظلم کے سبب دھوکے میں مبتلا ہونے والو!سنو ! قرآنِ پاک واشگاف الفاظ میں فرما رہا ہے:
(5) وَلَا تَحْسَبَنَّ اللہَ غَافِلًا عَمَّا یَعْمَلُ الظّٰلِمُوۡنَ ۬ؕ
ترجمۂ کنزالایمان:اور ہر گزاللہ کو بے خبر نہ جاننا ظالموں کے کام سے۔(پ13،ابراھیم :42)
اوریہ مہلت مکمل طور پر نہیں بلکہ ،ربِّ قدیر عَزَّوَجَلَّ ارشاد فرماتا ہے:
(6) اِنَّمَا یُؤَخِّرُہُمْ لِیَوْمٍ تَشْخَصُ فِیۡہِ الۡاَبْصَارُ ﴿ۙ42﴾
ترجمۂ کنزالایمان:انہیں ڈھیل نہیں دے رہا ہے مگر ایسے دن کے لئے جس میں آنکھیں کھلی کی کھلی رہ جائیں گی۔(پ13،ابراھیم:42)
جب یہ ڈھیل ختم ہو جائے گی تو وہ مزید مہلت مانگتے ہوئے کہیں گے:
(7) اَخِّرْنَاۤ اِلٰۤی اَجَلٍ قَرِیۡبٍ ۙ
ترجمۂ کنزالایمان:تھوڑی دير ہميں مہلت دے ۔(پ13،ابراھیم:44)
پھر ان کو ڈانٹ ڈپٹ کا سامنا ہوگا اورکہا جائے گا:
(8) اَوَلَمْ نُعَمِّرْکُمْ
ترجمۂ کنزالایمان:اور کیا ہم نے تمہیں وہ عمر نہ دی تھی۔(پ22،فاطر:37)
روزِ محشر تم انہیں دیکھو گے کہ وہ اپنی قبروں سے بوکھلائے ہوئے نکلیں گے۔جس دن پہلا صور پھونکا جائے گاتو وہ خدائے قہار وجبارجَلَّ جَلَالُہٗ کے حضور اس طرح حاضر ہوں گے کہ ان کے پہلوکانپ رہے ہوں گے اور بد بختی کی علامات ان پر واضح ہوں گی۔ چنانچہ، ربُّ العباد عَزَّوَجَلَّ ارشاد فرماتا ہے:
(9) یُعْرَفُ الْمُجْرِمُوْنَ بِسِیْمٰھُمْ
ترجمۂ کنزالایمان:مجرم اپنے چہرے سے پہچانے جائیں گے۔(پ27،الرحمٰن:41)
جب ان کی بھوک بڑھے گی تو،
(10) لَیۡسَ لَہُمْ طَعَامٌ اِلَّا مِنۡ ضَرِیۡعٍ ۙ﴿6﴾
ترجمۂ کنزالایمان:ان کے لئے کچھ کھانا نہیں مگر آگ کے کانٹے۔(پ30، الغاشیۃ:6)
جب پیاس کی شدت جوش مارے گی تو،
(11) وَ سُقُوۡا مَآءً حَمِیۡمًا فَقَطَّعَ اَمْعَآءَہُمْ ﴿15﴾
ترجمۂ کنزالایمان:اور انہیں کھولتا پانی پلایا جائے کہ آنتوں کے ٹکڑے ٹکڑے کر دے۔(۱)(پ26،محمد:15)
ننگے بدن اُن کے لباس سے بہتر ہیں کیو نکہ اُن کے لباس تار کول کے ہوں گے اورجب وہ پانی مانگیں گے:
(12) یُغَاثُوۡا بِمَآءٍ کَالْمُہۡلِ یَشْوِی الْوُجُوۡہَ ؕ
ترجمۂ کنزالایمان:تو ان کی فریاد رسی ہو گی اس پانی سے کہ چرخ دئیے ہوئے (کھولتے ہوئے)دھات کی طرح ہے کہ ان کے منہ بھون دے گا۔(۲)(پ15،الکھف:29)
کیا تُو نے نافرمانوں کونہیں دیکھاکہ و ہ سنتے ہی نہیں؟ حالانکہ قرآنِ پاک واضح طور پر فرما رہا ہے کہ،
(13) اِنَّ یَوْمَ الْفَصْلِ مِیۡقَاتُہُمْ اَجْمَعِیۡنَ ﴿ۙ40﴾
ترجمۂ کنزالایمان:بے شک فیصلہ کا دن ان سب کی میعاد ہے۔(پ25،الدخان :40)
جب ان مجرموں کو آگ دیکھے گی جنہوں نے ایک لمحہ کی لذت کے بدلے برسوں کا عذاب خریداتو،
(14) تَکَادُ تَمَیَّزُ مِنَ الْغَیۡظِ ؕ
ترجمۂ کنزالایمان:معلوم ہوتا ہے کہ شدتِ غضب میں پھٹ جائے گی۔(پ29،الملک:8)
لہٰذا جو عذابِ نار سے چھٹکارا چاہتا ہے اُسے چا ہے کہ توبہ کر لے،
(15) مِنۡ قَبْلِ اَنۡ یَّتَمَآسَّا ؕ
ترجمۂ کنزالایمان:قبل اس کے کہ ایک دوسرے کو ہاتھ لگائیں۔(پ28،المجادلہ:4)
اے میرے اسلامی بھائیو! جب پاکیزہ بیانات تمہارے میلے دل پر اَثر نہیں کرتے اور عذاب و خوف کی دھمکیاں تمہارے دلوں کو حیران وپریشان نہیں کرتیں تو رب عَزَّوَجَلَّ کے پاکیزہ کلام کی آیاتِ بیِّنا ت تم پر تلاوت کی جاتی ہیں:
(16) فَمَنۡ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ خَیۡرًا یَّرَہٗ ؕ﴿7﴾وَ مَنۡ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ شَرًّا یَّرَہٗ ٪﴿8﴾
ترجمۂ کنزالایمان:تو جو ایک ذرہ بھر بھلائی کرے اسے دیکھے گا اور جو ایک ذرہ بھر برائی کرے اسے دیکھے گا۔(۳)(پ30،الزلزال :7۔8)
اے احکامِ الٰہی عَزَّوَجَلَّ کی بجا آوری میں غفلت برتنے والے! اے عمرِ عزیز کو بیکار گَنوانے والے! کب تک لہو ولعب میں مبتلا رہے گا جبکہ تیرے گناہ لکھے جارہے ہیں۔ سفرِ آخرت میں تیری حالت کیسی ہوگی جبکہ تیرا راستہ پُر خطر ہے۔عنقریب تو اس ترازو کو دیکھ لے گا جومعمولی سی بات بھی ظاہر کر دے گا: فَمَنۡ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ خَیۡرًا یَّرَہٗ ؕ﴿7﴾وَ مَنۡ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ شَرًّا یَّرَہٗ ٪﴿8﴾
اے غافل انسان! موت تیرا پیچھا کئے ہوئے ہے۔ اس وقت تیراکیا حال ہو گاجب توآسمان کوپھٹتا ہوا دیکھے گااورتجھ پر مقرَّر فرشتہ تیری اچھائیوں اور برائیوں کو جمع کرکے ان کادفتر بند کرچکاہوگا۔ تجھ پر حجت قائم ہو چکی ہوگی۔ کوئی عذر یا بہانہ نہ چلے گا۔ وہاں ہرانسان اپنی آگے بھیجی ہوئی نیکی یابدی کو ملاحظہ کریگا:
فَمَنۡ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ خَیۡرًا یَّرَہٗ ؕ﴿7﴾وَ مَنۡ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ شَرًّا یَّرَہٗ ٪﴿8﴾
وَصَلَّی اللہ عَلٰی سیِّدِنَا مُحَمَّدٍ وَّعَلٰی آلِہٖ وَصَحْبِہٖ اَجْمَعِیْن
1۔۔۔۔۔۔مفسر شہیر، خلیفۂ اعلیٰ حضرت، صدرالافاضل سید محمد نعیم الدین مراد آبادی علیہ رحمۃ اللہ الہادی تفسیر خزائن العرفان میں اس آیتِ مبارکہ کے تحت فرماتے ہیں: ”عذاب طرح طرح کا ہوگا اور جو لوگ عذاب دئیے جائیں گے اُن کے بہت طبقے ہوں گے۔ بعض کو زقوم کھانے کو دیا جائے گا، بعض کو غِسْلِیْن(یعنی دوزخیوں کی پیپ) ،بعض کو آگ کے کانٹے۔”
2۔۔۔۔۔۔مفسر شہیر، خلیفۂ اعلیٰ حضرت، صدرالافاضل سید محمد نعیم الدین مراد آبادی علیہ رحمۃ اللہ الہادی تفسیر خزائن العرفان میں اس آیتِ مبارکہ کے تحت فرماتے ہیں: ”حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے فرمایا: ”وہ غلیظ پانی ہے روغنِ زیتون کی تلچھٹ کی طرح۔” ترمذی کی حدیث میں ہے کہ” جب وہ منہ کے قریب کیا جائے گا تو منہ کی کھال اس سے جل کر گر پڑے گی۔” بعض مفسِّرین کا قول ہے کہ وہ پگھلایا ہوا رانگ(یعنی سیسہ یانرم دھات) اور پیتل ہے۔”
3۔۔۔۔۔۔مفسر شہیر، خلیفۂ اعلیٰ حضرت، صدرالافاضل سید محمد نعیم الدین مراد آبادی علیہ رحمۃ اللہ الہادی تفسیر خزائن العرفان میں اس آیتِ مبارکہ کے تحت فرماتے ہیں:” حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے فرمایا کہ” ہر مؤمن و کافر کو روزِ قیامت اس کے نیک و بداعمال دکھائے جائیں گے۔ مؤمن ۔
۔کو اس کی نیکیاں اور بدیاں دکھا کر اللہ تعالیٰ بدیاں بخش دے گا اور نیکیوں پر ثواب عطا فرمائے گا اورکافر کی نیکیاں رد کردی جائیں گی کیونکہ کُفر کے سبب اَکارت ہوچکیں اور بدیوں پر اس کو عذاب کیا جائے گا۔” محمد بن کعب قرظی نے فرمایا کہ” کافر نے ذرہ بھر نیکی کی ہوگی تووہ اس کی جزا دُنیا ہی میں دیکھ لے گا یہاں تک کہ جب دُنیا سے نکلے گا تو اس کے پاس کوئی نیکی نہ ہوگی اور مؤمن اپنی بدیوں کی سز ا دُنیا میں پائے گا تو آخرت میں اس کے ساتھ کوئی بدی نہ ہوگی ۔” اس آیت میں ترغیب ہے کہ” نیکی تھوڑی سی بھی کارآمد ہے اور ترہیب ہے کہ ” گناہ چھوٹا سا بھی وبال ہے۔” بعض مفسِّرین نے فرمایا ہے کہ ”پہلی آیت مؤمنین کے حق میں ہے اور پچھلی کفار کے( حق میں)۔”