حضرت سودہ بنت زَمْعہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا
ان کا سلسلہ نسب کعب بن لوئَ یْ بن غالب میں آنحضرتصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے ملتا ہے۔ قدیم الاسلام تھیں ۔ پہلے اپنے والد کے چچیرے بھائی سکران بن عمرو بن عبد شمس کے نکاح میں تھیں ۔حضرت سکرا ن رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ بھی قدیم الاسلام تھے۔دونوں نے حبشہ کی طرف ہجرت ثانیہ کی۔ جب مکہ واپس آئے تو حضرت سکران نے وفات پائی اور ایک لڑکا یادگار چھوڑا جس کا نام عبد الرحمن تھا۔ حضرت عبد الرحمن رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے جنگ جلولاء ( ۱ ) (آخر ۱۶ھ) میں شہادت پائی۔
حضرت خدیجۃ الکبری رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہاکے انتقال سے آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو نہایت پریشانی ہوئی کیونکہ گھر بار بال بچوں کا انتظام ان ہی سے متعلق تھا۔یہ دیکھ کر خولہ بنت حکیم نے عرض کیا: یارسول اللّٰہ! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم آپ نکاح کر لیجئے۔ فرمایا: کس سے؟ خولہ نے حضرت عائشہ و سودہ کا نام لیا۔ آپ نے دونوں سے خواستگاری ( ۲ ) کی اجازت دے دی۔ خولہ حضرت سودہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا کے پاس گئیں اور کہا کہ خدا نے تم پر کیسی خیر و برکت نازل فرمائی ہے۔ سودہ نے پوچھاکہ وہ کیا ہے؟ خولہ نے کہا کہ رسول اللّٰہصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّم نے مجھے آپ کے پاس بغرض خواستگاری بھیجا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’ مجھے منظور ہے مگر میرے باپ سے بھی دریافت کرلو۔ ‘‘ چنانچہ وہ ان کے والدکے پاس گئیں اور جاہلیت کے طریق پر سلام کیا۔ یعنی ’’ اَ نْعَمْ صَبَاحًا ‘‘ کہا۔ انہوں نے پوچھا کہ تم کون ہو؟ خولہ نے اپنا نام بتایا پھر نکاح کا پیغام سنایا۔ انہوں نے کہا کہ محمد (صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ) شریف کفو ہیں مگر سودہ سے بھی دریافت کرلو۔ خولہ نے کہا کہ وہ راضی ہیں ۔ یہ سن کر زمعہ نے کہا کہ نکاح کے لئے آجائیں ۔ اس طرح باپ نے نبوت کے دسویں سال سودہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہاکا نکاح حضورعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام سے کردیا۔سودہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہاکا بھائی عبد اللّٰہ بن زمعہ آیا۔یہ معلوم کر کے کہ بہن کا نکاح رسول اللّٰہصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے ہو چکا ہے اس نے اپنے سر پر خاک ڈال لی۔ عبد اللّٰہ مذکور جب اسلام لائے تو ان کو اپنے اس فعل پر افسوس ہوا کرتا تھا۔
حضرت سودہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہاطبیعت کی فیاض تھیں ۔ایک روز حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے ایک
درہموں کی تھیلی آپ کی خدمت میں بھیجی۔آپ نے پوچھا کہ یہ کیا ہے؟ لانے والوں نے جواب دیا کہ درہم ہیں ۔ آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہانے فرمایا کہ درہم کھجوروں کی طرح تھیلی میں بھیجے جاتے ہیں ! یہ کہہ کر اسی وقت تمام درہم تقسیم کردیئے۔
آنحضرتصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے ارشاد کی تعمیل میں آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہاامتیازی حیثیت رکھتی تھیں ۔چنانچہ امام احمد رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے بروایت ابو ہریرہ نقل کیا ہے کہ رسول اللّٰہصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے حجۃ الوداع میں اپنی ازواج مطہرات رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُنَّسے فرمایا کہ یہ حج اسلام ہے جو گردن سے ساقط ہوگیا اس کے بعد تم بوریا کو غنیمت سمجھنا۔ (یعنی گھر سے نہ نکلنا) آنحضرتصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے وصال شریف کے بعد تمام ازواج مطہرات، سوائے سودہ اور زینب بنت جحش رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا کے، حج کو جایا کرتی تھیں اور وہ دونوں فرماتی تھیں کہ خدا کی قسم! رسول اللّٰہصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی وصیت سننے کے بعد ہم چوپایہ پرسوار نہ ہوں گی۔
حضرت سودہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا سے کتب متداولہ (۱ ) میں 5 حدیثیں مروی ہیں جن میں سے ایک صحیح بخاری میں ہے۔حضرت عبد اللّٰہ بن عباس اور یحییٰ بن عبد الرحمن بن اسعد بن زرارہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُما نے ان سے روایت کی ہے۔ انہوں نے خلافت فاروقی کے آخری زمانہ میں انتقال فرمایا۔ بعضے سالِ وفات ۵۴ھ یا ۵۵ھ بتاتے ہیں ۔ ( ۲ )
واللّٰہ اعلم بالصواب ۔