حضرت سفینہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ
یہ حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کے آزادکردہ غلام ہیں اور بعض کا قول ہے کہ یہ حضرت ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہاکے غلام تھے انہوں نے اس شرط پر ان کو آزاد کیا تھا کہ عمر بھر رسول اللہ عز وجل وصلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کی خدمت کرتے رہیں گے۔”سفینہ”ان کالقب ہے ۔ ان کے نام میں اختلاف ہے کسی نے ”رباح”کسی نے ”مہران ”کسی نے ”رومان ”نام بتایاہے۔”سفینہ ”عربی میں کشتی کو کہتے ہیں ۔ ان کا لقب ”سفینہ”ہونے کا سبب یہ ہے کہ دوران سفر ایک شخص تھک گیا تو اس نے اپنا سامان ان کے کندھوں پر ڈال دیااور یہ پہلے ہی بہت زیادہ سامان اٹھائے ہوئے تھے۔ یہ دیکھ کر حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے خوش طبعی اورمزاح کے طور پر یہ فرمایاکہ اَنْتَ سَفِیْنَۃٌ (تم تو کشتی ہو) اس دن سے آپ کا یہ لقب اتنا مشہور ہوگیا کہ لوگ
آپ کا اصلی نام ہی بھول گئے ، لوگ ان کا اصلی نام پوچھتے تو یہ فرماتے تھے کہ میں نہیں بتاؤں گا ۔ میرا نام رسول اللہ عزو جل و صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے ”سفینہ”رکھ دیا ہے اب میں اس نام کو کبھی ہرگز ہرگز نہیں بدلوں گا۔(1)(اکمال ،ص۵۹۷واسدالغابہ،ج۲،ص۳۲۴)
کرامت
شیر نے راستہ بتایا
ان کی مشہور اورنہایت ہی مستند کرامت یہ ہے کہ یہ روم کی سرزمین میں جہاد کے دوران اسلامی لشکر سے بچھڑگئے اورلشکر کی تلاش میں دوڑتے بھاگتے چلے جارہے تھے کہ بالکل ہی اچانک جنگل سے ایک شیر نکل کر ان کے سامنے آگیا انہوں نے ڈانٹ کر بلند آواز سے فرمایا کہ اے شیر!میں رسول اللہ عزوجل و صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کا غلام ہوں اورمیرا معاملہ یہ ہے کہ میں لشکر اسلام سے الگ پڑگیا ہوں اورلشکرکی تلاش میں ہوں ۔ یہ سن کر شیر دم ہلا تا ہوا ان کے پہلو میں آکر کھڑا ہوگیا اور برابر ان کو اپنے ساتھ میں لئے ہوئے چلتا رہا یہاں تک کہ یہ لشکر اسلام میں پہنچ گئے تو شیر واپس چلا گیا۔ (2)
(مشکوٰۃ ،ج۲،ص۵۵۴،باب الکرامات)