(۴۸) حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ
آپ بہت ہی مشہور صحابی ہیں ۔ آپ کے والد کا نام رباح ہے ۔ یہ حبشہ کے رہنے والے تھے اورمکہ مکرمہ میں ایک کافر امیہ بن خلف کے غلام تھے ۔ اسی حال میں مسلمان ہوگئے ۔ امیہ بن خلف نے ان کو بہت ستایا اوران پر بڑے بڑے ظلم وستم کے پہاڑتوڑے مگر یہ پہاڑ کی طرح اسلام پر ڈٹے رہے ۔ حضرت ابو بکرصدیق رضی اللہ تعالیٰ
عنہ نے ایک کثیر رقم اورایک غلام دے کر ان کوامیہ بن خلف سے خرید لیا اور اللہ ورسول عزوجل و صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کی رضا جوئی کے لیے ان کو آزاد کردیا۔ اسی لئے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرمایا کرتے تھے کہ ابوبکر ہمارے سردار ہیں اورانہوں نے ہمارے سردار (بلال) کو آزاد کیا۔
خداکی شان کہ جنگ بدر میں امیہ بن خلف کو حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہی نے چند انصاریوں کی مدد سے قتل کیا ۔ تمام اسلامی جہادوں میں مجاہدانہ شان کے ساتھ جہاد فرماتے رہے اور مسجد نبوی علی صاحبھا الصلوۃوالسلام کے مؤذن بھی رہے ۔ وصال نبوی کے بعد مدینہ طیبہ میں رہنا اورحضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کی جگہ کو خالی دیکھنا ان کے لیے ناقابل برداشت ہوگیا۔فراق رسول میں ہروقت روتے رہتے ۔ اس لئے مدینہ منورہ کو خیر باد کہہ دیا اور ملک شام میں سکونت اختیار کرلی ۔ پھر ۲۰ ھ میں ۶۳برس کی عمر پاکر شہر دمشق میں وصال فرمایا اورباب الصغیرمیں مدفون ہوئے اوربعض مؤرخین کا قول ہے کہ آپ کاوصال شہر حلب میں ہوا اورباب الاربعین میں آپ کی قبر مبارک بنائی گئی ۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔ (1)(اکمال فی اسماء الرجال،ص۵۰۷)
کرامت
خواب میں حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کا دیدار
ایک مرتبہ خواب میں سرورعالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کی زیارت سے سرفراز ہوئے توحضوراکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے پیاربھرے لہجے میں ارشادفرمایا: اے
بلال!یہ کیا انداز ہے کہ تم ہمارے پاس کبھی نہیں آتے ۔ خواب سے بیدارہوئے تو اس قدر بے قرارہوگئے کہ فوراً ہی اونٹ پر سوار ہوکر عازم سفرہوگئے ۔ جب مدینہ منورہ میں روضۂ انور کے پاس پہنچے تو شدت غم سے غش کھا کر گرپڑ ے اورزمین پر لوٹنے لگے جب کچھ سکون ہوا توحضرت امام حسن وامام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے اذا ن کی فرمائش کی۔ پیارے رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کے لاڈلوں کی فرمائش پر انکار کی گنجائش ہی نہیں تھی۔ آپ نے مسجد نبوی علی صاحبھا الصلوۃو السلام میں اذان دی اورزمانہ نبوت کی بلالی اذان جب اہل مدینہ کے کان میں پڑی تو ایک کہرام مچ گیا یہاں تک کہ پردہ نشین عورتیں جوش بے قراری میں گھروں سے باہر نکلیں اورہر چھوٹا بڑا دور نبوت کی یاد سے بے قرارہوکر زارزاررونے لگا۔ چند دنوں مدینہ منورہ میں رہ کر پھر آپ ملک شام چلے گئے۔(1)
(اسدالغابہ ، ج۱،ص۲۰۶تا۲۰۹)