حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ
آپ کے والد کا نام ابو سفیان اوروالدہ کا نام ہندبنت عتبہ ہے ۔ ۸ھ میں فتح مکہ کے دن یہ خود اورآپ کے والدین سب مسلمان ہوگئے اورحضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ چونکہ بہت ہی عمدہ کاتب تھے اس لئے دربار نبوت میں وحی لکھنے والوں کی جماعت میں شامل کرلئے گئے ۔ امیر المؤمنین حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دورخلافت میں یہ شام کے گورنر مقرر ہوئے اورحضرت امیر المؤمنین عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا دور خلافت ختم ہونے تک اس عہدہ پر فائز رہے مگر جب امیرالمؤمنین حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ تخت خلافت پر رونق افروز ہوئے تو آپ نے ان کو گورنری سے معزول کردیا لیکن انہوں نے معزولی کا پروانہ قبول نہیں کیا اورشام کی حکوت سے دست بردار نہیں ہوئے بلکہ امیر المؤمنین حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے خون کے قصاص کا مطالبہ کرتے ہوئے انہوں نے امیر المؤمنین حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیعت سے نہ صرف انکار کیا بلکہ ان سے مقام صفین میں جنگ بھی ہوئی ۔
پھر جب ۴۱ھ میں حضرت امام حسن مجتبیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے خلافت ان کے سپرد فرمادی تو یہ پورے عالم اسلام کے بادشاہ ہوگئے ۔ بیس برس تک خلافت راشدہ کے گورنررہے اوربیس برس تک خود مختار بادشاہ رہے اس طرح چالیس برس تک شام کے تخت سلطنت پر بیٹھ کر حکومت کرتے رہے اور خشکی وسمندر میں جہادوں کا انتظام فرماتے رہے ۔
اسلام میں بحری لڑائیوں کے موجد آپ ہیں ، جنگی بیڑوں کی تعمیر کا کارخانہ بھی آپ نے بنوایا، خشکی اور سمندری فوجوں کی بہترین تنظیم فرمائی اور جہادوں کی بدولت اسلامی حکومت کی حدود کو وسیع سے وسیع تر کرتے رہے اوراشاعت اسلام کا دائرہ برابر بڑھتا رہا ۔ جابجا مساجد کی تعمیر اوردرس گاہوں کا قیام فرماتے رہے ۔
رجب ۶۰ھ میں آپ نے لقوہ کی بیماری میں مبتلا ہوکر اپنے دارالسلطنت دمشق میں وصال فرمایا ۔ بوقت وصال آپ نے وصیت فرمائی تھی کہ میرے پاس حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کا ایک پیراہن ، ایک چادر، ایک تہبنداورکچھ موئے مبارک اورناخن اقدس کے چند تراشے ہیں۔ ان تینوں مقدس کپڑوں کو میرے کفن میں شامل کیا جائے اورموئے مبارک اورناخن اقدس کو میری آنکھوں میں رکھ کر مجھے ارحم الراحمین کے سپرد کیا جائے۔ چنانچہ لوگوں نے آپ کی اس وصیت پر عمل کیا۔ (1)
(اکمال ،ص۶۱۷وغیرہ)
بوقت وصال اٹھتّریا چھیاسی برس کی عمر تھی ۔ وصال کے وقت ان کا بیٹا یزید
دمشق میں موجود نہیں تھا اس لئے ضحاک بن قیس نے آپ کے کفن ودفن کا انتظام کیا اور اسی نے آپ کی نماز جنازہ پڑھائی ۔
حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بہت ہی خوبصورت، گورے رنگ والے اور نہایت ہی وجیہ اوررعب والے تھے۔ چنانچہ امیر المؤمنین حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرمایا کرتے تھے کہ ”معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنه عرب کے کسریٰ ”ہیں۔ (1)
(اسدالغابہ،ج۴،ص۳۸۵تا۳۸۷)
کرامات
آپ کی چند کرامتیں بہت ہی مشہور ہیں اور آپ کے فضائل میں چند احادیث بھی مروی ہیں ۔
جنگ میں کبھی مغلوب نہیں ہوئے
ان کی ایک مشہور کرامت یہ ہے کہ کشتی یا جنگ میں کبھی بھی اورکہیں بھی اور کسی شخص سے بھی مغلوب نہیں ہوئے بلکہ ہمیشہ ہی اپنے مد مقابل پر غالب رہے کیونکہ حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے ان کے بارے میں ارشادفرمادیا تھا : اِنَّ مُعَاوِیَۃَ لَا یُصَارِعُ اَحَدًا اِلاَّ صَرَعَہٗ مُعَاوِیَۃُ (یعنی معاویہ جس شخص سے لڑے گا معاویہ ہی اس کو بچھاڑے گا۔) (2) (کنز العمال،ج۱۲،ص۳۱۷بحوالہ دیلمی عن ابن عباس)
دعامانگتے ہی بارش
سلیم بن عامرخبائری کا بیان ہے کہ ایک مرتبہ ملک شام میں بالکل ہی بارش
نہیں ہوئی اورشدید قحط کا دور دورہ ہوگیا ۔ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نماز استسقاء کے لیے میدان میں نکلے اورمنبرپر بیٹھ کر آپ نے حضرت ابن الاسودجرشی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بلایا اوران کو منبرکے نیچے اپنے قدموں کے پاس بٹھا کر اپنے دونوں ہاتھوں کو اٹھایا اور اس طرح دعامانگی کہ یا اللہ!عزوجل ہم تیرے حضور میں حضرت ابن الاسودجرشی کو سفارشی بنا کر لائے ہیں جن کو ہم اپنے سے نیک اورافضل سمجھتے ہیں ۔
پھر حضرت ابن الاسودجرشی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اورتمام حاضرین بھی اپنے اپنے ہاتھوں کو اٹھا کر بارش کی دعا مانگنے لگے ناگہاں پچھم سے ایک زوردار ابر اٹھا پھر موسلا دھار بارش ہونے لگی یہاں تک کہ ملک شام کی زمین سیراب ہوکر کھیتی سے سرسبز و شاداب ہوگئی ۔ (1)(طبقات ابن سعد،ج۷،ص۴۴۴)
شیطان نے نماز کے لیے جگایا
حضرت علامہ مولاناجلال الدین مولانائے روم رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ نے اپنی مثنوی شریف میں آپ کی اس کرامت کو بڑی دھوم سے بیان فرمایا ہے کہ ایک روز آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے محل میں داخل ہوکر کسی نے آپ کو نماز فجر کے لیے بیدار کیا تو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے دریافت فرمایا کہ تو کون ہے؟ اورکس لئے تو نے مجھے جگایا ہے؟تو اس نے جواب دیا کہ اے امیر معاویہ! میں شیطان ہوں۔ آپ نے حیران ہوکر پوچھا کہ اے شیطان !تیرا کام تو انسان سے گناہ کرانا ہے اورتونے مجھے نماز کے لیے جگاکر مجھے نیک عمل کرنے کا موقع دیا۔ اس کی وجہ کیا ہے ؟تو شیطان نے جواب دیا کہ اے امیر المؤمنین!
میں جانتاہوں کہ اگر سوتے رہنے میں آپ کی نماز فجر قضاہوجاتی تو آپ خوف الٰہی سے اس قدر روتے اوراس کثرت سے توبہ واستغفار کرتے کہ خدا کی رحمت کو آپ کی بے قراری وگریہ و زاری پر پیارآجاتا اوروہ آپ کی قضا نماز قبول فرماکر ادا نماز سے ہزاروں گنازیادہ اجر وثواب عطافرما دیتا چونکہ مجھے خدا کے نیک بندوں سے بغض وحسد ہے اس لئے میں نے آپ کو جگادیا تاکہ آپ کو کچھ زیادہ ثواب نہ مل سکے ۔(1)
(مثنوی مولانا روم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ)
تبصرہ
مثنوی شریف کی اس حکایت سے معلوم ہوا کہ شیطان کبھی لوگوں کو سلاکر اور نمازیں قضا کر اکرنیکیوں اورثوابوں سے محروم کراتا ہے کبھی کچھ لوگوں کو نمازوں کے لیے جگا کر اورادانمازیں پڑھوا کر زیادہ نیکیوں اورثوابوں سے محروم کراتاہے اوراس کی صورت یہ ہے کہ جو لوگ صبح کو بیدارہوکر نماز فجر جماعت سے پڑھتے ہیں تو شیطان کبھی کبھی کچھ لوگوں کے دلوں میں یہ وسوسہ ڈال دیتاہے کہ میں خدا کا بہت ہی نیک بندہ ہوں کیونکہ میں نے فجر کی نماز جماعت سے پڑھی ہے اورفلاں فلاں لوگوں کی نمازیں قضا ہوگئیں یقینامیں ان لوگوں سے بہت نیک اوربہت اچھا ہوں ۔ظاہر ہے کہ اپنی اچھائی اوربرائی کا خیال آتے ہی نماز کا اجروثواب تو غارت اوراکارت ہوہی گیا، الٹے تکبراورگھمنڈ کا گناہ سر پر سوار ہوگیا بہر حال شیطان کے شر سے خدا تعالیٰ کی پناہ۔