اسلامسوانحِ كربلا مصنف صدر الافاضل حضرت علامہ مولانا سید محمد نعیم الدین مراد آبادی علیہ رحمۃ اللہ القویفضائل

حضرت امام حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت

حضرت امام حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت

ابن سعد نے عمران ابن عبداللہ ابن طلحہ سے روایت کی کہ کسی نے حضرت امام حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ کوخواب میں دیکھا کہ آپ کے دونوں چشم کے درمیان: قُلْ ھُوَ اللہُ اَحَدٌo (1) لکھی ہوئی ہے۔آپ کے اہل بیت میں اس سے بہت خوشی ہوئی لیکن جب یہ خواب حضرت سعید بن مسیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سامنے بیان کیاگیاتو انہوں نے فرمایا کہ واقعی اگر یہ خواب دیکھا ہے توحضرت امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی عمر کے چند ہی روز رہ گئے
ہیں۔ یہ تعبیر صحیح ثابت ہوئی اور بہت قریب زمانہ میں آپ کو زہر دیاگیا۔ (2)
زہر کے اثر سے اِسْہالِ کَبِدی لاحِق ہوا اور آنتوں کے ٹکڑے کٹ کٹ کر

اِسہال میں خارج ہوئے۔ اس سلسلہ میں آپ کو چالیس روز سخت تکلیف رہی۔ قریب ِوفات جب آپ کی خدمت میں آپ کے برادرِ عزیز سیدنا حضر ت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حاضر ہوکردریافت فرمایا کہ آپ کو کس نے زہر دیا ہے؟ تو فرمایا کہ تم اسے قتل کروگے؟حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جواب دیاکہ بے شک!حضرت امام عالی مقام نے فرمایا کہ میرا گمان جس کی طرف ہے اگر درحقیقت وہی قاتل ہے تو اللہ تعالیٰ منتقمِ حقیقی ہے اور اس کی گرفت بہت سخت ہے اور اگر وہ نہیں ہے تو میں نہیں چاہتا کہ میرے سبب سے کوئی بے گناہ مبتلائے مصیبت ہو۔ مجھے اس سے پہلے بھی کئی مرتبہ زہر دیا گیاہے لیکن اس مرتبہ کا زہر سب سے زیادہ تیزہے۔(1)
سبحان اللہ! حضرت امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی کرامت اور منزلت کیسی بلند و بالا ہے کہ اپنے آپ سخت تکلیف میں مبتلا ہیں، آنتیں کٹ کٹ کر نکل رہی ہیں، نزع کی حالت ہے مگر انصاف کا بادشاہ اس وقت بھی اپنی عدالت و انصاف کا نہ مٹنے والا نقش صفحۂ تاریخ پرثَبَت فرماتاہے۔ اس کی احتیاط اجازت نہیں دیتی کہ جس کی طرف گمان ہے اس کانام بھی لیاجائے۔ اس وقت آپ کی عمر شریف پینتالیس سال چھ ماہ چندروزکی تھی کہ آپ نے پانچویں ربیع الاول 49ھ؁ کو اس دارنا پائیدار سے مدینہ طیبہ میں رحلت فرمائی ۔(2)
اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ.
وفات کے قریب حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے دیکھا کہ ان کے برادر محترم حضرت امام حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو گھبراہٹ اوربے قرار ی زیادہ ہے اور سیمائے مبارک پر حُزْن و مَلال کے آثارنمودار ہیں۔ یہ دیکھ حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے
تسکینِ خاطِرِ مبارک کے لیے عرض کیا کہ اے برادرِ گرامی! آپ کیوں رنجیدہ ہیں،بے قراری کا کیا سبب ہے۔ مبارک ہو! آپ کو عنقریب حضور پر نور سیِّد عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں باریابی حاصل ہوگی اور حضرت علی مرتضیٰ اور حضرخدیجہ الکبریٰ اور فاطمہ زہرااور حضرت قاسم و طاہر اور حضرت حمزہ وجعفر رضی اللہ تعالیٰ عنہم کا دیدار نصیب ہوگا۔ حضرت امام حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ اے برادرِ عزیز! میں کچھ ایسے امر میں داخل ہونے والا ہوں جس کی مثل اب تک داخل نہیں ہواتھا اور خلقِ الٰہی عزوجل میں سے ایسی خلق کو دیکھتا ہوں جس کی مثل میں نے کبھی نہیں دیکھی اور اس کے ساتھ ہی آپ نے حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پیش آنے والے واقعات اور کوفیوں کی بد سلوکی وایذا رسانی کا بھی تذکرہ کیا۔(1)
اس ارشاد مبارک سے معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت آپ کی نظر کے سامنے کربلا کا ہولناک منظر اور حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی تنہائی کا نقشہ پیش تھا اور کوفیوں کے مظالم کی تصویریں آپکو غمگین کررہی تھیں۔اسکے ساتھ آپ نے یہ بھی فرمایا کہ میں نے ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے درخواست کی تھی کہ مجھے روضۂ طاہرہ میں دفن کی جگہ عنایت ہوجائے انہوں نے اسکو منظور فرمایا۔ میری وفات کے بعد انکی خدمت میں عرض کیا جائے لیکن میں گمان کرتاہوں کہ قوم مانع ہوگی، اگر وہ ایسا کریں توتم ان سے تکرار نہ کرنا۔ حضرت امام حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی وفات کے بعد حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حسب و صیت حضرت ام المومنین عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے درخواست کی،آپ نے اس کو قبول فرمایا اور ارشاد فرمایاکہ بڑی عزت و کرامت کے ساتھ منظور
ہے،لیکن مروان مانع ہوا اور نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ان کے ہمراہی ہتھیار بندہوگئے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے انہیں بھائی کی وصیت یاد دلاکر واپس کیا اور یہ فرزند رسول جگر گوشہ بتول بقیع شریف میں اپنی والدہ محترمہ حضرت خاتون جنت کے پہلو میں مدفون ہوئے۔ رضی اللہ تعا لیٰ عنہم و رضواعنہ(1)
مؤرخین نے زہر خورانی کی نسبت جعدہ بنت اشعث ابن قیس کی طرف کی ہے اور اس کو حضرت امام کی زوجہ بتایا ہے اوریہ بھی کہا ہے کہ یہ زہر خورانی باغوائے یزید ہوئی ہے اور یزید نے اس سے نکاح کا وعدہ کیا تھا۔ اس طمع میں آکر اس نے حضرت امام کو زہردیا۔(2) لیکن اس روایت کی کوئی سندِ صحیح دستیاب نہیں ہوئی اور بغیر کسی سندِ صحیح کے کسی مسلمان پر قتل کا الزام اور ایسے عظیم الشان قتل کا الزام کس طرح جائز ہوسکتا ہے۔
قطع نظر اس بات کے کہ روایت کے لئے کوئی سند نہیں ہے اور مؤرخین نے بغیر کسی معتبرذریعہ یا معتمدحوالہ کے لکھ دیاہے۔ یہ خبر واقعات کے لحاظ سے بھی ناقابل اطمینان معلوم ہوتی ہے۔ واقعات کی تحقیق خود واقعات کے زمانہ میں جیسی ہوسکتی ہے مشکل ہے کہ بعد کو ویسی تحقیق ہو خاص کر جب کہ واقعہ اتنااہم ہومگر حیرت ہے کہ اَہل بیتِ اَطہار کے اس امامِ جلیل کا قتل اس قاتل کی خبر غیر کو تو کیا ہوتی خود حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو پتہ نہیں ہے یہی تاریخیں بتاتی ہیں کہ وہ اپنے برادر ِمعظم سے زہردہندہ کا نام دریافت فرماتے ہیں اس سے صاف ظاہر ہے کہ حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو زہر دینے والے کا علم نہ تھا۔اب رہی یہ بات کہ حضرت امام حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ کسی کانام لیتے۔انہوں نے ایسانہیں کیاتواب جعدہ کوقاتل ہونے کیلئے معین کرنے والاکون

ہے۔حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کویاامامین کے صاحبزادوں میں سے کسی صاحب کواپنی آخر حیات تک جعدہ کی زہر خورانی کاکوئی ثبوت نہ پہنچانہ ان میں سے کسی نے اس پر شرعی مواخذہ کیا۔
ایک اور پہلو اس واقعہ کاخاص طور پر قابل لحاظ ہے وہ یہ کہ حضرت امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیوی کو غیر کے ساتھ سازباز کرنے کی شنیع تہمت کے ساتھ متہم کیا جاتا ہے یہ ایک بدترین تبرا ہے۔ عجب نہیں کہ ا س حکایت کی بنیاد خارجیوں کی افتراء ات ہوں جب کہ صحیح اور معتبر ذرائع سے یہ معلوم ہے کہ حضرت امام حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ کثیر التزوج تھے اور آپ نے سو(100)کے قریب نکاح کیے اور طلاقیں دیں۔ اکثرایک دو شب ہی کے بعدطلاق دے دیتے تھے اور حضرت امیر المومنین علی مرتضیٰ کرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم باربار اعلان فرماتے تھے کہ امام حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی عادت ہے، یہ طلاق دے دیا کرتے ہیں، کوئی اپنی لڑکی ان کے ساتھ نہ بیاہے۔ مگر مسلمان بیبیاں اور ان کے والدین یہ تمنا کرتے تھے کہ کنیز ہونے کا شرف حاصل ہوجائے اسی کا اثر تھا کہ حضرت امام حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ جن عورتوں کو طلاق دےدیتے تھے۔ وہ اپنی باقی زندگی حضرت امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی محبت میں شیدا یانہ گزاردیتی تھیں اور ان کی حیات کا لمحہ لمحہ حضرت امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی یاد اور محبت میں گزرتا تھا۔(1) ایسی حالت میں یہ بات بہت بعید ہے کہ امام کی بیوی حضرت امام کے فیضِ صحبت کی قدر نہ کرے اور یزید پلید کی طرف ایک طمعِ فاسد سے اما م جلیل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے قتل جیسے سخت جرم کا ارتکاب کرے۔

وَاللہُ اَعْلَمُ بِحَقِیْقَۃِ الْحَال

1۔۔۔۔۔۔ترجمہ کنز الایمان: تم فرماؤ وہ اللہ ہے وہ ایک ہے۔ (پ۳۰،الاخلاص:۱)
2۔۔۔۔۔۔تاریخ الخلفائ، باب الحسن بن علی بن ابی طالب،ص۱۵۲۔۱۵۳ملتقطاً وماخوذاً

1۔۔۔۔۔۔حلیۃ الاولیاء، الحسن بن علی بن ابی طالب،الحدیث:۱۴۳۸،ج۲،ص۴۷ماخوذاً
2۔۔۔۔۔۔تاریخ الخلفاء، باب الحسن بن علی بن ابی طالب،ص۱۵۲

1۔۔۔۔۔۔تاریخ الخلفاء،باب الحسن بن علی بن ابی طالب،ص۱۵۳
1۔۔۔۔۔۔تاریخ الخلفاء، باب الحسن بن علی بن ابی طالب، ص۱۵۳۔۱۵۴
2۔۔۔۔۔۔تاریخ الخلفاء، باب الحسن بن علی بن ابی طالب،ص۱۵۲

1۔۔۔۔۔۔تاریخ الخلفاء، باب الحسن بن علی بن ابی طالب،ص۱۵۱ملخصاً

Related Articles

Check Also
Close
Back to top button
error: Content is protected !!