حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ
حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ یمن کے باشندہ تھے مکہ مکرمہ میں آکر اسلام قبول کیا۔ پہلے ہجرت کر کے حبشہ چلے گئے پھر حبشہ سے کشتیوں پر سوار ہوکر تمام
مہاجرین حبشہ کے ساتھ آپ بھی تشریف لائے او رخیبرمیں حضور علیہ الصلوۃ والسلام کی خدمت میں حاضر ہوئے ۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ۲۰ ھ میں ان کو بصرہ کا گورنر مقرر فرمایا اور حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت تک یہ بصرہ کے گورنر رہے جب حضرت علی اور حضر ت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہماکی جنگ شروع ہوئی تو پہلے آپ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے طرفدارتھے مگر اس جھگڑے سے منقبض ہوکر مکہ مکرمہ چلے گئے یہاں تک کہ ۵۲ ھ میں آپ کی وفات ہوگئی ۔(1)(اکمال ،ص۶۱۸)
کرامات
غیبی آواز سنتے تھے
آ پ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی یہ ایک خاص کرامت تھی کہ غیبی آوازیں آپ کے کان میں آیا کرتی تھیں۔ چنانچہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہماکا بیان ہے کہ ایک مرتبہ حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سمندری جہاد میں امیر لشکر بن کر گئے۔ رات میں سب مجاہدین کشتیوں پر سوار ہوکر سفر کر رہے تھے کہ بالکل ناگہاں اوپر سے ایک پکارنے والے کی آواز آئی :
”کیا میں تم لوگوں کو خداتعالیٰ کے اس فیصلہ کی خبر دے دوں جس کا وہ اپنی ذات پر فیصلہ فرما چکاہے ؟یہ وہ ہے کہ جو اللہ تعالیٰ کے لیے گرمی کے دنوں میں پیاسا رہے گا۔ اللہ تعالیٰ پر حق ہے کہ پیاس کے دن (قیامت میں) ضرورضروراس کو سیراب فرمادے گا۔”(2)(حجۃ اللہ ،ج۲،ص۸۷۲بحوالہ حاکم)
لحن داؤدی
آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی آواز اورلہجہ میں اتنی زبردست کشش تھی کہ اس کو کرامت کے سوااورکچھ بھی نہیں کہا جاسکتا۔ حضرت امیر المؤمنین عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ جب حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو دیکھتے توفرماتے : ذَکِّرْنَا رَبَّنَا یَا اَبَا مُوْسٰی (اے ابو موسیٰ! ہم کو اپنے رب کی یاد دلاؤ) یہ سن کر حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ قرآن شریف پڑھنے لگتے ان کی قرأت سن کر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے قلب میں ایسی نوری تجلی پیدا ہوجاتی کہ انہیں دنیا سے دوری اوراپنے رب کی حضور ی نصیب ہوجاتی تھی ۔ (1)
حضرت بریدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ حضوراقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی قرأت سنی توارشادفرمایا کہ حضرت داودعلیہ الصلوۃو السلام کی سی خوش الحانی اس شخص کو خدا تعالیٰ کی طرف سے عطاکی گئی ہے۔(2)
(کنزالعمال،ج۱۶،ص۲۱۸،مطبوعہ حیدرآباد)