حضرت ابو ثعلبہ خشنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ
یہ دعوت اسلام کے آغاز ہی میں مشرف بہ اسلام ہوگئے تھے ۔ سلسلہ نسب چونکہ ”خشین وائل ”سے ملتا ہے اس لئے یہ خشنی کہلاتے ہیں ۔صلح حدیبیہ میں حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کے ہمرکاب تھے اوربیعۃالرضوان کر کے رضاء خداوندی کی سند حاصل کی حضورعلیہ الصلوۃ والسلام نے ان کو مبلغ بنا کر بھیجاچنانچہ ان کی کوششوں سے ان کا پورا قبیلہ جلد ہی دامن اسلام میں آگیا ۔ ملک شام فتح ہونے کے بعد یہ شام میں قیام پذیر ہوگئے ۔ حضرت علی اورحضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما کی لڑائیوں میں یہ بالکل
غیر جانبداررہے ۔ راست گفتاری اورصاف گوئی میں یہ اپنا جواب نہیں رکھتے تھے ۔ رات کے سناٹے میں اکثر یہ گھر سے باہر نکل کر آسمان پر نظر ڈالتے اورسجدہ میں گر کر گھنٹوں سربسجود رہتے ۔ ملک شام میں اقامت پذیر ہوگئے تھے اوروہیں ۷۵ھ میں وفات ہوئی ان کا نام جرہم بن ناشب ہے مگر کنیت ہی مشہور ہے ۔(1)
(اکمال ،ص ۵۸۹واسدالغابہ،ج۱،ص۲۷۶)
کرامت
اپنی پسند کی موت ملی
یہ اکثر کہا کرتے تھے اوردعائیں بھی مانگا کرتے تھے کہ یا اللہ!عزوجل مجھ کو عام لوگوں کی طرح ایڑیاں رگڑرگڑکر اوردم گھٹ گھٹ کر مرنا پسند نہیں ہے مجھے ایسی موت ملے کہ اس میں دم گھٹنے اورایڑیاں رگڑنے کی زحمت نہ اٹھانی پڑے ۔چنانچہ ان کی یہ کرامت ہے کہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حکومت کے دوران یہ آدھی رات گزرنے کے بعد نماز میں مشغول تھے کہ ان کی صاحبزادی نے یہ خواب دیکھا کہ ان کے والد صاحب کا انتقال ہوگیا۔ وہ اس پریشان کن خواب سے گھبراکر اٹھ بیٹھیں اورآوازدی تو دیکھا کہ آپ نماز پڑھ رہے ہیں۔ تھوڑی دیر بعد دوسری مرتبہ آوازدی تو کوئی جواب نہیں ملا پاس جا کر دیکھا تو سرسجدہ میں تھا اورروح پرواز کر چکی تھی ۔(2) (اسدالغابہ واصابہ)