حالات ہجرت تا وفات شریف
قریش کی اَذِیت رَسانی کے سبب سے اب مکہ میں مسلمانوں کا قیام نہایت دشوار ہو گیا اس لئے آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے اپنے اصحاب سے فرمایاکہ ہجرت کر کے مدینہ چلے جاؤ۔ چنانچہ صحابہ کرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُم متفرق طورپررفتہ رفتہ چوری چھپے مدینہ پہنچ گئے اور مکہ میں حضور انور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم بِاَبِیْ ہُوَ وَ اُ مِّیْ کے علاوہ حضرات ابو بکر وعلیرَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا اور کچھ بیمار و عاجز رہ گئے۔ حضرت ابو بکر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے ہجرت کی اجازت مانگی تو حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا: ’’ امید ہے کہ مجھے ہجرت کی اجازت مل جائے گی، ‘‘ عرض کیا: ’’ میرے ماں باپ آپ پر قربان، یہ امید ہے ؟ ‘‘ فرمایا: ’’ ہاں ! ‘‘ یہ سن کر حضرت صدیق رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ ہمراہی کی امید پر حاضرِ خدمت رہے۔
خبردار الندوہ
قریش نے جب دیکھا کہ آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکے مدد گار مکہ سے باہر مدینہ میں بھی ہو گئے ہیں اور مہاجرین مکہ کو انصار نے اپنی حمایت وپناہ میں لے لیا ہے تووہ ڈرے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ آپ بھی وہاں چلے جائیں اور اپنے مددگاروں کو ساتھ لے کر حملہ آور ہوں ، اس لئے تمام قبائل کے سر دار عُتْبَہ وشَیْبَہ پسر انِ رَبِیْعَہ، ابو سُفیان، طُعَیْمَہ بن عَدِی ، جُبَیْر بن مُطْعِم، نَضْربن حارِث ، ابو البَخْتَر ی بن ہِشام، زَمْعَہ بن اَسْوَد، ابوجَہْل، نَبِیْہ ومُنَـبِّہ پسرانِ حَجَّاج اور اُمَیَّہ بن خَلَف وغیرہ ’’ دارُالنَدْوَہ ‘‘ (1) میں مشورہ کے لئے جمع ہوئے۔ابلیس لعین بھی کمبل اوڑھے اور شیخِ پارسا کی صورت بنا ئے دروازہ پر آموجود ہو ا، انہوں نے پو چھا کہ تم کون ہو ؟ بولا: ’’ میں نجدیوں سے ایک شیخ ہوں ، میں نے سن لیا ہے جس امر کے لئے تم جمع ہو ئے ہو، اس لئے میں بھی حاضر ہو اہوں تاکہ سنوں کہ تم کیا کہتے ہواور مجھے تم سے اپنی رائے اور نصیحت سے بھی در یغ نہ ہو گا۔ ‘‘ وہ بولے: بہت اچھا! آئیے! جب آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکا معاملہ پیش ہوا تو ایک بولا کہ اس کے ہاتھ پا ؤں میں لوہے کی بیڑ یاں ڈال کر ایک کو ٹھڑی میں بند کر دواور کھانے
پینے کو کچھ نہ دو، خودہلاک ہو جائے گا۔شیخ نجدی نے کہا: یہ رائے اچھی نہیں ، اللّٰہ کی قسم! اگر تم اس کو اس طرح کوٹھڑی میں قید بھی کردو تو اس کی خبر بند دروازے میں سے اس کے اصحاب تک پہنچ جائے گی وہ تم پر حملہ کر کے اس کو چھڑالیں گے۔ دوسرابو لا کہ اس کو شہر سے نکال دو، جہاں چاہے چلا جائے ہمیں اس کا خوف نہ رہے گا۔ شیخ نجدی نے کہا: اللّٰہ کی قسم! یہ رائے اچھی نہیں ، کیا تم نہیں دیکھتے کہ اس کا کلام کیسا شیریں اور دلفریب ہے، اگر تم ایسا کر وگے تو ممکن ہے وہ کسی قبیلہ میں چلا جائے اور اپنے کلام سے اسے اپنا تابع بنا لے اور پھر انہیں ساتھ لے کر تم پر حملہ کر دے۔ابو جہل بولا: میرے ذہن میں ایک رائے ہے جو اب تک کسی کو نہیں سوجھی۔انہوں نے پوچھا: وہ کیا ہے ؟ ابو جہل نے کہا: ’’ وہ یہ ہے کہ ہم ہر قبیلہ میں سے ایک ایک عالی قدر دلیر خاند انی جوان لیں اور ہر نوجوان کے ہاتھ میں ایک ایک تیز تلوار دے دیں ، پھر وہ سب مل کر اس کو قتل کر دیں اس طرح جرمِ خون تمام قبائل پر عائد ہوگا۔عبد مناف کی اولاد تمام قبائل سے لڑ نہیں سکتی اس لئے وہ خون بہالینے پر راضی ہو جائیں گے اور ہم آسانی سے خون بہا دے دیں گے۔ ‘‘ یہ سن کر شیخ نجدی بولا : ’’ یہی بات درست ہے اس کے سوا کوئی اور رائے نہیں ۔ ‘‘ سب نے اس رائے پر اتفاق کیا اور مجلس برخاست ہو گئی۔ قرآن مجید کی آیۂ ذیل میں اسی قصہ کی طرف اشارہ ہے :
وَ اِذْ یَمْكُرُ بِكَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا لِیُثْبِتُوْكَ اَوْ یَقْتُلُوْكَ اَوْ یُخْرِجُوْكَؕ-وَ یَمْكُرُوْنَ وَ یَمْكُرُ اللّٰهُؕ-وَ اللّٰهُ خَیْرُ الْمٰكِرِیْنَ (۳۰) (انفال ، ع ۴) (1)
اے محبوب! یاد کرو جب کافر تمہارے ساتھ مکر کر تے تھے کہ تمہیں بند کرلیں یا شہید کر دیں یا نکال دیں اور وہ اپنا مکر کر تے تھے اور اللّٰہ اپنی خفیہ تدبیر فرماتا تھا اور اللّٰہ کی خفیہ تدبیر سب سے بہتر۔ (2)