توبہ اور بیعت :
توبہ اور بیعت :
اور فوائد الفؤاد کی مجلس ۲۱؍ ذیقعدہ ۷۱۸ ہجری میں مذکورہے کہ جو شخص شیخ کے ہاتھ میں ہاتھ دیتا ہے اور بیعت کر تا ہے تو وہ خداے تعالیٰ کے ساتھ عہد وپیمان ہے ،چاہئے کہ اس پر ثابت رہے ،اور اگر اس سے پریشانی ہو تی ہے تو اپنی حالت پر ہی رہے شیخ کا ہاتھ پکڑ نے کی کیا ضرورت ۔ اس کے بعد فرمایا کہ : میںجب شیخ الاسلام فرید الحق والدّین قدس سرہ العزیز کی خدمت میں پہونچا اور بیعت سے مشرف ہو اتو واپسی کے وقت راستہ میں مجھے شدت سے پیاس لگی ،ہوا نہایت گرم تھی ،اور پانی دور تھا ،اسی حالت میں چلا جا رہا تھا کہ ایک شخص نظر آیا جس کو میں پہچانتا تھا !اس کے پاس جاکر کہا کہ میں پیا سا ہوں کیا یہاں پانی مل سکتا ہے ،اس نے تپاک سے مل کر کہا اس برتن کو لیجئے اورپانی پی لیجئے !میں نے دیکھا کہ اس میں شراب یا بھنگ ہے میں نے اس کے پینے سے انکار کیا ،اس نے کہا اس مقام میں دور دور تک کہیں پانی نہیں ہے اور آگے بھی نہیں اگر یہ تم نہ پیو گے تو ہلاک ہوجا ئو گے !میں نے کہا خیر یہی ہوگا کہ میں مرجائوں گا جوکچھ ہونا ہے ہو رہے گا مگر میں یہ نہیں پی سکتا اس لئے کہ میں نے شیخ کے ہاتھ میں ہاتھ دیا ہے اور اقرار کیا ہے کہ یہ ہرگز نہ ہوگا ! یہ کہہ کر وہاں سے چلا ، اور تھوڑی دور پر مجھے پانی مل گیا ۔
اس کے بعد فرمایاکہ : خواجہ حمید سوالی جب خواجہ معین الحق والدّین چشتی قدس سرہ العزیز سے بیعت کرکے اپنے گھر آئے تو قدیم دوست آشنا جمع ہوئے اور کہا کہ چلئے ذوق حاصل کریں !خواجہ حمید نے کہا کہ میںنے اپنا ازار بند ایسا مضبوط باندھا ہے کہ قیامت میں بھی حوران بہشت پر نہ کھو لوں گا ۔
اور اسی کی مجلس ۲۰؍ جمادی الاولی ٰ میں لکھا ہے کہ : حضرت محبوب الٰہی نے فرمایا کہ : ایک مطربہ ’’قمر ‘‘ نام نہایت جسن و جمال میں شہرۂ آفاق تھی ، آخر عمر میں شیخ شہاب الدین سہروردی کے ہاتھ پر بیعت کرکے زیارت کعبہ کے لئے گئی ، جب واپسی میں ہمدان کو پہنچی تو والی ہمدان نے اس کی خبر سن کر اس کو بلوایا ، اس نے کہا کہ میں اس کام سے توبہ کر چکی ہوں ! والی نے اس کاعذر قبول نہ کیا ،آخروہ عورت عاجز ہوکر شیخ یوسف ہمدانی کی خدمت میںگئی اور واقعہ بیان کیا ،شیخ نے فرمایا آج رات کو میں تمہارے معاملہ میں مشغول ہوں گا اور کل جواب دوں گا ! صبح ہی وہ عورت شیخ کی خدمت میں پھر حاضر ہو ئی شیخ نے فرمایا کہ : ابھی تمہارے خانہء تقدیر میں ایک معصیت باقی ہے ! عورت عاجز ہوگئی اور ملازمین اسے بادشاہ کے پا س لے گئے اور ایک چنگ لا کر اس کو دیا اس نے چنگ کو درست کرکے گانا بجانا شروع کیا ،چند اشعار پڑھے تھے کہ سب پر حالت طاری ہوئی اور بادشاہ ہمدان نے سب سے پہلے توبہ کی۔اب غور کیجئے کہ بیعت کا کس قدر اوثر ہو تاتھا کہ مرجانا قبول مگر خلاف شرع بھنگ وغیرہ پینا ناگوار ۔اسی وجہ سے ان حضرات کی بیعت پر ثمرات مرتب ہوا کرتے تھے ۔ حضرت محبوب الٰہی قدس سرہ تو مقام محبوبیت پر فائز ہونے والے تھے بلکہ ازلی محبوب تھے ہی ان کی ہمت اگر بلند تھی تو چند ان تعجب کی بات نہیں ،ا س کسبی کا حال آپ نے دیکھ لیا کہ بیعت کے بعد پھر گنا ہ کا کبھی ارادہ نہ کیا ،اس علوے ہمت اور بیعت پر قائم رہنے کا نتیجہ یہ ہوا کہ اگر گناہ کیا بھی تو اس گنا ہ کے طفیل میںبادشاہ اور اس کے مصاحبین کو تو بہ کراکے چھوڑا ۔
نفحات الانس میں مولانا عبدالرحمن جامی ؒ نے حضرت خواجہ بہائو الدین نقشبندی کے حال میں لکھا ہے کہ آپ نے مرید ین کو فرمایا کہ : اپنے نفس کو متہم بنا رکھو،جو شخص بعنا یت الٰہی اپنے نفس کی بدی کو پہچانے اور اس کے مکر و کید کوجانے اس پر یہ کام یعنی نفس کو متہم سمجھنا آسان ہے !سا لکان طریقت ایسے بہت گزرے ہیںکہ دوسرے کے گناہ کو اپنے ذمہ لے کر اس کا بار اٹھا یا کر تے تھے ۔ اور فرمایا کہ ہمار طریقہ متابعت رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو
مضبوط پکڑ نا اور صحابہ کے آثار کا اقتدا ء کرنا ہے،اسی طریقے میں تھوڑے عمل سے زیادہ فتوح ہوتی ہیں ۔
ہمارے زمانے کے بعض حضرات صاف کہتے ہیں کہ ہمیں نماز روزہ وغیرہ عبادات کی ضرورت نہیں ،ہم نے ترک وجود کر دیا ہے ۔اور اس پر اس شعر سے استدلال کر تے ہیں :
نماز عاشقاں ترکِ و جود است
نماز زاہد اں سجدہ سجود است
اور مریدین بھی اپنے پیر کے مسلک پر مرفوع القلم ہونے کا دعویٰ کر تے ہیں !! اگر فی الحقیقت مرفوع القلم ہیں یعنی عقل و ادراک جاتا رہا ہے اور اچھے برے میں تمیز با قی نہیں رہی جس طرح کہ مجذ وبوں کا حال ہو تا ہے تو اس کا مرفوع القلم ہونا درست ہے، اور اگریہ حالت نہیں ہے بلکہ وہ اپنے دعوے پر دلائل وغیرہ قائم کر تے ہیں ،تووہ عند اللہ مرفوع القلم نہیں ہو سکتے ۔ دیکھئے حضرت حسین بن منصور حلاج ؒ باجودیکہ ’’اناالحق‘‘ کہتے تھے اور ان کو قتل کی دھمکیاں دی گئیں چنانچہ آخر کار بفتواے جنید بغدادی ؒ وغیرہ اکابر صوفیہ وعلماء اسی قول کی وجہ سے وہ دار پر چڑھا ئے گئے ، مگر عبادت کو انہوں نے کبھی ترک نہ کیا ۔نفحات الانس میں لکھا ہے کہ : با وجود دعواے ’’اناالحق ‘‘ کے ہر شبانہ روز وہ ہزار رکعت نماز پڑھا کر تے تھے ،چنانچہ جس صبح وہ قتل ہوئے اس رات میں پپانچ سو رکعت نماز انہوں نے پڑھی تھی۔
تنبیہ المغترین میں امام شعرانی ؒ نے لکھا ہے کہ : صوفیہ کے اخلاق میں سے کثرت توبہ و استغفار بھی ہے ،کیونکہ وہ اس امر کا مشاہدہ کرتے ہیں کہ اپنے افعال گناہ سے سالم نہیں رہ سکتے ،کم سے کم خشوع اور مرا قبہ میں نقص ہو ہی جا تا ہے ۔سلف صالح اسی طریقہ پر تھے ۔ ہمارے زمانے میں بعض صوفیہ اس کے خلاف میں ہیں یہاں تک کہ بعض صوفیہ سے یہ کہتے سنا ہے کہ :ہم وہ قوم ہیں کہ بحمد اللہ ہم پر کوئی گناہ نہیں ہوتا ۔ میں نے کہا : کیونکر ؟ کہا : اس وجہ سے کہ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہی فاعل ہے نہ کہ ہم میںنے کہا : جب توہم پر توبہ اور استغفار و اجب ہے کیونکہ تم نے جمیع ارکان شریعت کو منہدم اور حدود شرعیہ کو باطل کردیا ، قسم ہے اللہ کی اگر مجھے حکومت حاصل ہو تی تو تم جیسے لوگوں کی گرد نیں مارتا ،کیونکہ کل انبیاء اور جمیع اکابر دین جا نتے تھے کہ اللہ ہی خالق افعال ہے اور باوجود اس کے کوتا ہیوں پر اتنا روتے تھے کہ ان کے آنسوئوں سے گھانس اگتی تھی ،اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرما تے ہیںکہ کیا تمہا ری بیماری اور دوا کی خبر نہ دوں تمہا ری بیماری گناہ ہے اور دوا استغفار ۔ انتہیٰ ملخصاً۔دیکھئے امام شعرانی ؒ اولیاء اللہ میں سے ہیں اور تمام صوفیہ سلف کے حال کی خبر دے رہے ہیں کہ سب کثرت سے استغفار اور توبہ کیا کرتے تھے ! تو ہم لوگوں کو گناہ سے احترازکرنے اور اس سے توبہ واستغفار کر نے کی کس قدر ضرورت ہے ۔
جامی ؒ نے نفحات الانس میں شیخ ابو الحسن شاذلیؒ کے حال میں لکھا ہے ان کا بیان ہے کہ : میں نے غار میں قیام کیا اور وصول الی اللہ طلب کرکے دل میں کہتا تھا کہ کل فتح ہوجائے گی !یکا یک ایک شخص آیا ، میںنے پوچھا تم کون ہو ؟ کہا عبد الملک ،میں سمجھ گیا وہ اولیاء اللہ سے ہیں ،میں نے کہا آپ کا کیا حال ہے ؟ کہا : آپ کا کیا حا ل ؟ آپ کا کیا حال ؟ آپ کا کیا حال ؟ اس شخص کا کیا حا ل ہو گا جو کہتا ہے کہ کل فتح ہو جائے اور پرسوں فتح ہو جائے ،نہ ولایت ہے نہ فلاح ،اے شخص خداے تعایٰ کی عبادت خاص خداے تعالیٰ کے لئے کیوں نہیں کرتا ؟ میں اس وقت سمجھ گیا کہ یہ بزرگ خاص تعلیم کے لئے بھیجے گئے ہیں میںنے اسی وقت توبہ کی اور استغفار کیا ۔ اس کے بعد فتح یا ب بھی ہو گیا ۔ دیکھئے ان حضرات کو ولی خطرات اور خیالات پر توبہ کرنے کی ضرورت ہو تی ہے ، بر خلاف اس کے کھلے کھلے گناہ جن کے خلاف مرضیٰ الٰہی ہونے میں ذرا بھی شک نہیں ہوسکتا ان گناہوں سے توبہ نہ کی جائے تو کہئے کہ فتح یابی جو پیری مرید ی سے مقصود ہے کیونکر ہو سکے ۔
’’اخبار الاخیار ‘‘ میں شیخ عبدالحق محدث دہلوی ؒ نے حضرت خواجہ ء بزرگ معین الدین چشتی قدس سرہ العزیز کے حال میں آپ کا ارشاد نقل کیا ہے :’’شقادت کی علامت یہ ہے کہ آدمی معصیت کرے اور امید رکھے کہ میں مقبول ہوںگا ‘‘۔ یہ ارشاد خاص اہل طریقت سے متعلق معلوم ہو تا ہے
،کیونکہ مقبولیت کی گفتگو اسی طبقہ میں ہو تی ہے ،او رہونا بھی چاہئے ،اس لئے کہ یہ حضرات دنیا کے کام دھندے چھوڑ کر خدا ے تعالیٰ کی طرف متوجہ ہو تے ہیں یعنی ذکر و شغل وغیرہ میں اکثر اوقات مشغول رہتے ہیں ،اس کے بعد ضـرور یہ امید پیدا ہو تی ہے کہ اپنی محنت وجاں فشانی رائگاں نہ جائے گی اور ہم مقبول بارگاہ کبریانی ہوں گے ۔ ان حضرات کو حضرت خواجۂ بزرگ ؒ فر ما تے ہیں کہ : یہ علامت شقادت ہے ،مقبول تووہی لوگ ہو تے ہیں جو کوئی کام خلاف مرضیٰ الٰہی نہیں کرتے اور اگر بمقتضائے بشریت کر لیا تو اس کی معذرت اور توبہ کرتے ہیں،بخلاف اس کے خلاف مرضی الٰہی کام بھی کریں اور امید رکھیں کہ ہم مقبول الٰہی ہیں ! اس قسم کا خیال پیدا ہونا ضرور شقادت کی علامت ہے ۔ او ریہ بھی ارشاد حضرت کا نقل کیا ہے کہ : از منزل گاہ قربت نزدیک نشود مگر بفرماں برادری در نماز ،زیر اکہ معراج مومن ہمیں نماز است ۔ دیکھئے قرآن شریف میں اَقیمو االصلوۃ یعنی ’’نماز کو قائم کرو ‘‘ کتنی جگہ ورادہے ؟او راحادیث میں کس قدر اس کا اہتمام ہے ،یہاں تک کہ نماز کو قداً ترک کر نے والے کو آنحضرت ؐ نے کافر تک فرمادیا ۔
غرض کہ فرمانبرداری نماز ضروریات دین سے ہے ،اسی وجہ سے خواجہء بزرگ قدس سرہ نے صاف فرمایا کہ بغیر نماز کے تقرب الٰہی حاصل نہیں ہوسکتا ۔ اب اگر تاویل کر کے کوئی نماز ہی دوسری قرارا دی جائے تو فرقہء با طینہ اور صوفیہ میں فرق ہی کیا ہوا ؟ انہوں نے بھی ایسے ہی تا ویلیں کرکے تمام عبادات کو ساقط اور زنا وغیرہ کو مباح کر دیا تھا ۔
اخبار الاخبار میں شیخ نصیر الدین محمود ؒ خلیفہء محبوب الٰہی قدس سرہ کے حال میں لکھا ہے کہ آپ نے فرمایا : من چہ لا ئقم کہ شیخی کنم ؟امر وز خود ایں کار بازی بچکاں شد!بعد ازاں بیت ثنائی خواند :
مسلماناں مسلماناں مسلمانی مسلمانی ٭ ازیں آئین بے دینا پشیمانی پشیمانی
دیکھئے اِس زمانے کی مشائخی کو آ پ نے بچوں کا کھیل قراردیا وہ اسی قسم کی مشائخی ہوگی کہ ضروریات دین سے جس کو کوئی تعلق نہ ہو ۔
اورآپؐ کا قول اس میں نقل کیا ہے کہ : بیعت کے وقت جو سر کے بال تراشے جاتے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ جب آدمی نے طریقت میں قدم رکھا تو گویا اس نے اس راہ میں اپنا سر کٹا دیا اور سربریدہ سے کوئی کام وجود میں نہیں آسکتا تو چاہئے کہ موئے سر تراشیدہ سے بھی کوئی نا مشروع کام وجود میں نہ آئے ۔دیکھئے طریقت میں اس امر کی کس قدر ضرورت ہے کہ خلاف شرع کام ترک کرنے کے لئے بیعت سے پہلے گویا ایسا اقرار لیا جا تا تھا ۔