تاثیر اسماء وغیرہ درجن
تاثیر اسماء وغیرہ درجن :
آکام المرجان میں ابن عقیل کی ’’کتاب الفنون ‘‘ سے نقل کیا ہے کہ ہمارے بغدا د کے محلہ ظفریہ میں ایک گھر تھا ،جس میں کوئی رہ نہیں سکتا تھا ،بہت سے لوگ رات کو رہے اور صبح کومردہ پائے گئے ، ایک شخص نے وہ مکان کرایہ پر لیا ہر چند لوگوںنے منع کیا مگر نہ مانا اور اس میں اتر پڑا ،لوگ صبح ہوتے ہی اس کی حالت دریافت کرنے گئے تووہ صبح سالم تھا ، اور ایک مدت تک اس میں رہا ،لوگوں نے کیفیت دریافت کی توکہا کہ :میں نے جب عشاء کی نماز اس گھر میں پڑھی اور تھوڑا سا قرآن پڑھا تو ایک جوان کنویں میں سے نکلا اور مجھے سلام کیا ،میں سخت پریشان ہوا ، اس نے کہا کہ ڈرومت میں چا ہتا ہو ںکے تم سے قرآن پڑھو ں !چنانچہ میںنے پڑھانا شروع کیا،ایک روز میں نے اس سے پوچھا کہ اس گھر کے واقعات جو لوگ بیان کر تے ہیں اس کی حقیقت کیا ہے ؟ کہا کہ ہم لوگ مسلمان جن ہیں نماز قرآن پڑھتے ہیں ، اس گھر کو اکثر فساق کرا یہ پر لے کر اس میں شراب خوری کیا کر تے تھے اس وجہ سے ہم ان کو مار ڈالتے تھے !میں نے کہا کہ مجھے رات کو آپ سے خوف ہو تا ہے بہتر ہوگا کہ دن کو تشریف لایا کریں !کہا اچھا ۔او رہر روز دن کو کنویں سے نکل کر میرے پاس آیا کر تا ، ایک روز وہ پڑھ رہا تھا کہ راستہ میں کسی نے کہا کہ کیا کسی کو بد نظری اور جن کا علاج کر انا ہے ؟مجھ سے اس نے پوچھا یہ کیا ہے ؟میں نے کہا یہ عامل ہے جن کو اتار تا ہے ،کہا اس کو بلالو !جب میں نے اس کو بلا یا تو کیا دیکھتا ہوں کہ وہ غائب ہے اور ایک بڑا سانپ چھت پرجا رہا ہے اس عامل نے کچھ پڑھنا شروع کیا جس سے وہ سانپ لٹکنے لگا تھوڑی دیر میں وہ اس رومال میں گر پڑا جسے عامل نے پہلے سے ہی بچھا رکھا تھا ، وہ اٹھا اور اسے زنبیل میں داخل کرنا چاہا تو میں نے منع کیا ، اس نے کہا کیا مجھے اپنے شکار کو لے جانے یس روکتے ہو ؟ !میںنے ایک دینار دے کر اسے رخصت کیا ،سانپ حرکت کر کے اپنی شکل سابقہ پر ہو گیا مگراس کی حالت نہایت متغیر تھی ،میں نے کہا تمہاری کیا حالت ہے ؟کہا اس شخص نے چند اسماء پڑھ کر مجھے مار ڈالا ، مجھے امید نہیںکہ میں جانبز ہو سکوں ،تم اس کنویں کی طرف کان لگائے رکھواگر اس میں سے چیخ کی آواز آئے تو یہاں سے فوراً بھاگ جانا !چنانچہ رات کومیں نے آواز سنی اور فوراً بھا گ گیا ۔ابن عقیل نے لکھا ہے کہ اس کے بعد ا س مکان میں پھر کوئی نہ رہا ۔اس سے ظاہر ہے کہ اسماء ان میں ایسی تاثیر کر تے ہیں جسیے زہر انسان میں ۔اور آکام المرجان میں یہ روایت بھی نقل کی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ : ایماندار اپنے شیطان کو ایسا دبلا کرتا ہے جیسے کوئی سفر میں اونٹ کو ۔
قیس بن حجاج کہتے ہیں کہ :میرے شیطان نے ایک روز مجھ سے کہا کہ جب میں تم میں داخل ہوا تھا تو اونٹ کے جیسا تھا اور آج میری یہ حالت ہے کہ چڑیا کے مثل ہو گیا ہوں !میں نے کہا یہ کیوں ؟کہا کہ : تم قرآن پڑھ کر مجھے گلا تے رہتے ہو۔یہ ان شیاطین کا حال ہے جو ہر انسان کے ساتھ ہو تے ہیں جس کو ’’قرین ‘‘کہتے ہیں ۔متعدد احادیث سے ثابت ہے کہ ہر انسان کا ایک قرین جن سے ہو تا ہے جو کافر ہو تا ہے ،صحابہ ؓنے پوچھا کیا وہ آپ کے ساتھ بھی ہے ؟فرمایا :ہاں مگر میرا قرین مسلمان ہو گیا ۔
اورایک روایت ہے کہ فرما یا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ : آدم علیہ السلام پرمجھے دو باتوں میں فضیلت حاصل ہے ، ایک یہ کہ میرا شیطان کافر تھا حق تعالیٰ نے میری مدد کی یہاں تک کہ وہ شیطان ہو گیا ،اور میری بیویاں میری مدد کیا کر تی ہیں ، بخلاف آدم علیہ السلام کے کہ ان کا شیطان کافر تھا اور ان کی بیوی نے خطا پر ان کی مدد کر کے انہیں ضرر پہنونچا یا ۔ الحاصل جن خواہ قرین ہو یا نہ ہو اس کے جسم پر اسماء کی تاثیر ہو تی ہے ،بخلاف دوسرے انواع واجناس کے ۔
آکام المرجان میں روایت ہے کہ زبیر ؓ ابن العوام کہتے ہیں کہ ایک روز آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مجھے اپنے ہمراہ لے کر جنگل کی طرف چلے ، جب بہت دور نکل گئے تو ایک میدان نظر آیا جس میں بہت اونچے اونچے لوگ تھے جن کا قد بھا لے بھالے برابر تھا، جب میں نے اس کو دیکھا تو مارے خوف کے لرزنے لگا یہاں تک کہ میرے پائوں میرے جسم کو تھام نہیں سکتے تھے ،حضرت ؐ نے اپنے پائوں کے انگوٹھے سے ایک لکیر کھینچ کر مجھے فرمایا کہ
اس کے اندر بیٹھ جائو ! جب میںاس میں بیٹھ گیا تو وہ خوف میرے دل سے جا تا رہا ،پھر حضرتؐ نے ان کو تعلیم و تلقین فرماکر واپس تشریف لائے ۔ اس قسم کے واقعات متعد ہوئے ہیں ،سب میں یہی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جن صحابیوں ؓ کو ہمراہ لے جا تے تھے ان کو لکیر کے حصار میں بٹھا تے تھے ،یہ لکھیر دیکھنے کو لکھر تھی مگر دارصل ایک مضبوط قلعہ تھا کہ تمام روئے زمین کے جن اس کو توڑنا چاہتے تو نہ توڑ سکتے ۔ حالانکہ جنوں کی قوت مشہور ہے ،چنانچہ قرآن شریف میں ہے کہ سلیمان علیہ السلام سے ایک جن نے کہا کہ :اگر آپ فر ماتے ہیں تو تخت بلقیس کو میں آپ کا دربار برخواست ہونے سے پہلے اٹھا لاتا ہوں !حالانکہ وہ تخت بہت ہی بڑا اور سینکڑوں میل دور تھا ۔ اتنی قوت پر بھی اس لکیر حصار کو جنات توڑنہ سکے ۔
آکام المرجان میں ہے کہ ابن مسعودؓ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ایک بار ساتھ لے گئے ، وہ کہتے ہیں کہ : جب حضرت مجھے لکیر کے اندر بیٹھا کرتشریف لے گئے تو میں نے دیکھا کہ دور سے ایک سیاہ عبار اٹھا جس سے مجھے خوف ہوا کہ قبیلہ ہوازن نے مکر کرکے قتل کے ارادہ سے حضرت ؐ کو یہا ں بلایا ہے اور اب وہ آن پہنچے!اس خیال کے تحت باہر نکلنا چاہاتھا کہ حضرتؐ کا ارشاد یاد آگیا جو تاکید سے فرما تھا کہ:اس مقام سے علحدہ نہ ہونا ! میں وہیں بیٹھا رہا ،جب حضرتؐ تشریف لائے اور میں نے اپنا قصہ بیان کیا توفرما یا کہ :اگر تم اس لکیر سے نکلتے تو تمہیں کوئی جن اڑالے جاتا ۔اس سے ظاہر ہے کہ اس لکیر دائرہ کہ اندر داخل ہونا ان کی قدرت سے باہر تھا ۔اسی وجہ سے عامل لوگ کچھ پڑھ کر لکیری حصار کر دیتے ہیں خواہ بذریعہ خط یا بذریعہ اشارہ ،اور ہر چند جن عاملوں کے دشمن ہو تے ہیں مگر جب تک عامل حصار میں ہو تا ہے وہ کچھ نہیں کرسکتے ۔
شیخ اکبر قدس سرہ نے فتوحات کے باب مقام معرفت محبت میں لکھا ہے کہ : اشبیلیہ میں ایک عارفہ تھیں جن کانام فاطمہ بن مثنیٰ تھا ،ان کی حالت بیان کر کے لکھا ہے کہ : ایک روز انہوں نے کہا کہ ’’میرے حبیب نے مجھے سورۂ فاتحہ دی ہے جو میری خدمت کر تی ہے اس نے مجھے خدا کی جانب سے دوسری طرف مشغول نہ کیا ‘‘ میں اس تقریر سے ان کامقام سمجھ گیا ، ایک روز ہم بیٹھے تھے کہ ایک عورت آئی اور مجھ سے کہا : اے بھائی میرا شوہر شریش شذونہ میں ہے میںنے سنا ہے کہ اس نے وہاں نکاح کر لیا ہے اب کیا کرنا چاہئے ؟ میںنے کہا تم چاہتی ہو کہ وہ تم سے ملے ؟ کہا :ہاں ،میں نے حضرت فاطمہ ؓ بنت مثنیٰ سے کہا کہ اے اماں یہ عورت جو کہہ رہی ہے کیا تم نے نہیں سنا ؟ کہا : اے لڑکے تم کیا چا ہتے ہو ؟میں نے کہا میں چاہتا ہوں کہ اسی وقت اس کی حاجت روائی ہو اوراس کا شوہر اس کے پاس آجائے !کہا بہت اچھا میں اس کی طرف فاتحتہ الکتاب کو بھیج کر کہتی ہوں کہ اس کے شوہر کو ابھی لے آئے !اور سورۂ فاتحہ پڑھنا شروع کیا ،اور میں بھی ان کے ساتھ پڑھنے لگا ، ان کے پڑھنے میں ایک صورت ہوائیہ متجسد ہو تی تھی ،یہاں تک کہ جب وہ سورۃ ختم ہوئی تو ایک صورت ہوائی مکمل ہوگئی انہو ںنے اس سے کہا کہ :اے فا تحتہ الکتاب شریش شذونہ کو جاکر اس کے شوہر کو لے آ،ہر گز اس کو نہ چھوڑنا اس کے بعد صرف اتنا وقت گزرا کہ آدمی وہاں سے آجائے ،اس کا شوہر آکر اپنے اہل سے ملا ۔