اعمال

بے عمل مبلغ-نگرانوں اور ذمہ داران کے لئے فکرانگیز فرامینِ مصطٰفی

بے عمل مبلغ

حضور اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ” قیامت کے دن ایک شخص کولایاجائے گااور جہنم میں ڈال دیاجائے گا،اور اس کی آنتیں گرپڑیں گی اور وہ اس طرح جہنم میں چکّی پیستا ہو گا جس طرح گدھا چکّی چلایا کر تا ہے ۔یہ دیکھ کر جہنمی لوگ اس کے پاس آئیں گے اور اس سے کہیں گے،” اے فلاں!کیا تُو بھی جہنم کے اندر عذاب میں مبتلا ہے ؟ حالانکہ تُو تو وہ شخص ہے کہ دنیا میں لوگوں کو اچھی باتوں کا حکم دیا کر تا تھا اور بری باتوں سے منع کیا کرتا تھا۔” تو وہ شخص جواب دیگا ” میں لوگوں کو تو اچھی باتوں کا حکم دیا کر تا تھا مگر خود اچھے کام نہیں کر تا تھا اور میں دوسروں کو تو بُری باتوں سے منع کر تا تھا مگر میں خود ان بُرے کاموں کو کرتا تھا۔” ( الترغیب والترھیب،کتاب العلم ،ج۱،ص۹۱،رقم:۲۰۹)

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! اے کاش! ہمیں سرکارِ مدینہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی پیاری پیاری امت کی خیر خواہی اور غم خواری کے ساتھ ساتھ انفرادی عبادت کی توفیق بھی نصیب ہو جاتی،۔۔۔۔۔۔ اے کاش !ہمیں بھی ایسے نیک اعمال کرنا نصیب ہوجاتا جنہیں ہمارے رب عزوجل کے سواء کو ئی نہ جانتا،۔۔۔۔۔۔اے کاش ! ظاہر کے ساتھ ساتھ ہمارا باطن بھی سنور جاتا ، ۔۔۔۔۔۔اے کاش ! ہم بھی اخلاص و استقامت کے ساتھ اپنی ذمہ داریوں کو نبھانے میں کامیاب ہو جاتے ،۔۔۔۔۔۔ اے کاش ! جن جن کے حقوق ہمارے ذمہ ہیں ،ہم ان کی ادائیگی کی کو شش میں لگ جاتے ،۔۔۔۔۔۔

نگرانوں اور ذمہ داران کے لئے فکرانگیز فرامینِ مصطٰفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم

(امیرِ اہل ِ سنت مدظلہ العالی کے رسالے ”مردے کے صدمے ”سے ماخوذ)

(1) ”جس شخص کو اللہ تعالیٰ نے کسی رعایا کا نگران بنایا پھر اس نے ان کی خیر خواہی کا خیال نہ رکھا اس پر جنت کو حرام کر دیگا۔” (بخاری ج ۲ ص ۱۰۵۸)

(2) ”تم سب نگران ہو اور تم میں سے ہر ایک سے اُس کے ماتَحت افراد کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ ” (مجمع الزوائد ج۵ ص ۲۰۷)

(3) ” جو نگران اپنے ماتحتوں سے خِیانت کرے وہ جہنَّم میں جائے گا۔ ”

(مسند امام احمد بن حنبل ج ۵ ص۲۵)

(4) ”اِنصاف کرنے والے قاضی پر قِیامت کے دن ایک ساعَت ایسی آئے گی کہ وہ تمنّا کریگا کہ کاش ! وہ آدمیوں کے درمیان ایک کھجور کے بارے میں

بھی فیصلہ نہ کرتا۔”( مجمع الزوائد ج ۴ ص ۱۹۲)

(5) ”جو شخص دس آدمیوں پر بھی نگران ہو قیامت کے دن اسے اس طرح لایا جائے گا کہ اس کا ہاتھ اس کی گردن سے بندھا ہوا ہو گا۔اب یا تو اس کا عدْل اسے چھُڑائے گا یا اس کا ظُلم اسے عذاب میں مبتَلاکریگا۔ ”

(السنن الکبریٰ للبیھقی ج ۳ ص ۱۲۹)

(6) ( دعائے مصطَفٰے صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم )” اے اللہ ! جو شخص اس اُمّت کے کسی مُعامَلے کا نگران ہے پس وہ ان سے نرمی برتے تو تُو بھی اس سے نرمی فرما اور ان پر سختی کرے تو تُو بھی اس پر سختی فرما۔ ” (کنزالعُمّال ج ۶ ص ۸۰)

(7) ”اللہ تعالیٰ جس کو مسلمانوں کے اُمُور میں سے کسی مُعامَلے کا نگران بنائے پس اگر وہ ان کی حاجتوں ، مفِلسی اور فَقْرکے درمیان رکاوٹ کھڑی کر دے تو اللہ تعالیٰ بھی اس کی حاجت ، مفِلسی اور فَقْر کے سامنے رُکاوٹ کھڑی کرے گا۔”

( الترغیب و الترھیب ج ۳ ص ۱۷۷)

(8) ”جو شخص رَحْم نہیں کرتا ، اُس پر رَحم نہیں کیا جاتا۔اللہ تعالیٰ اُس پر رَحم نہیں کرتا جو لوگوں پر رَحم نہیں کرتا۔” (مشکوٰۃ المصابیح باب البِرِّوَالصِّلۃ ص۴۲۱)

(9) ”بے شک تم عَنْقریب حُکمرانی کی خواہِش کرو گے لیکن قِیامت کے دن وہ پَشَیمانی کا باعِث ہو گی ۔ اللہ کی قسم! میں اس اَمْر(یعنی حُکمرانی ) پر کسی ایسے شخص کو مقرَّر نہیں کرتا جو اس کا سُوال کر ے یا اس کی حِرص رکھتا ہو ۔”

(صحیح بخاری ج۲ ص ۱۰۵۸)

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! ہوسکتا ہے کہ گزشتہ سطور کو پڑھنے کے بعد دعوتِ اسلامی کے کسی ذمہ دار اسلامی بھائی کو یہ احساس دامن گیر ہو جائے کہ” ہم تو اپنی ذمہ داری کماحقہ ادا

نہیں کر سکتے لہذا ! عافیت اسی میں ہے کہ کوئی ذمہ داری لی ہی نہ جائے ۔”ایسے اسلامی بھائیوں کی خدمت میں مدنی عرض ہے کہ وہ نیچے دی گئی امیرِ اہلِ سنت ،بانی دعوتِ اسلامی حضرت علامہ مولانا ابوبلال محمد الیاس عطار قادری رضوی دامت برکاتھم العالیہ کی مبارک تحریر کو غور سے پڑھیں اور اپنے خیالات پر نظرِ ثانی فرمائیں ،چنانچہ آپ اپنے رسالے ‘ ‘ مُردے کے صدمے ”کے آخر میں تحریر فرماتے ہیں کہ
”نگران س مراد صرف کسی ملک یا شہر یا مذہبی و سماجی و سیاسی تنظیم کا ذمہ دارہی نہیں بلکہ عموماًہر شخص کسی نہ کسی کا ذمہ دار ہو تا ہے مثلاً مراقب( یعنی سپر وائزر)اپنے ماتحت مزدوروں کا، افسر اپنے کلرکوں کا ،امیرِ قافلہ اپنے قافلوں کا اور ذیلی نگران اپنے ماتحت اسلامی بھائیوں کا وغیرہ وغیرہ۔ یہ ایسے معاملات ہیں کہ ان نگرانیوں سے فراغت مشکل ہے۔ بالفرض اگر کو ئی تنظیمی ذمہ داری سے مستعفی ہو بھی جائے تب بھی اگر شادی شدہ ہے تو اپنے بال بچوں کا نگران ہے۔ اب وہ اگر چاہے کہ ان کی نگرانی سے گلو خلاصی ہو تو نہیں ہو سکتی کہ یہ تو اسے شادی سے پہلے سوچنا چاہے تھا ۔بہرحال ہر نگران سخت امتحان سے دوچار ہے مگر ہاں جو انصاف کرے اس کے وارے نیارے ہیں چنانچہ ارشادِ رحمت بنیاد ہے،”انصاف کر نے والے نور کے منبروں پر ہوں گے یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے فیصلوں ،گھر والوں اور جن جن کے نگران بنتے ہیں ان کے بارے میں عدل سے کام لیتے ہیں ۔” (سنن نسائی ج ۴ ص ۲۲۱)

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!مذکورہ بالا تحریر سے واضح ہوا کہ ہم میں سے ہر ایک ذمہ دار ہے، والدین اپنی اولاد کے ،اساتذہ اپنے شاگردوں کے،شوہر اپنی بیوی کا وغیرہ وغیرہ۔ لہذا ! ہمیں
چاہے کہ اپنے اندر ذمہ داری کا احساس پیدا کریں اور عدل و انصاف سے کام لے کرشریعت کے احکام کے مطابق اپنی ذمہ داریاں ادا کریں۔
ذمہ دار اسلامی بھائیو! مندرجہ ذیل مدنی پھولوں پر عمل کر کے ہم اپنی دنیا و آخرت بہتر بناسکتے ہیں ۔ان شاء اللہ عزوجل

Related Articles

Back to top button
error: Content is protected !!